حکومتی کار کردگی؟

عبدالقادر حسن  اتوار 2 دسمبر 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

عمران خان کی حکومت کے پہلے سو دن مکمل ہو گئے۔ ان سو دنوں کا اس لیے بھی شدت سے انتظار تھا کہ ملک کی کسی اپوزیشن پارٹی یا عوام نے عمران خان کی حکومت کو سو دنوں کا وقت نہیں دیا بلکہ عمران خان کی حکومت نے از خود اپنی حکومت کے لیے پہلے سو دنو ں کے اہداف مقرر کر دیے اور یوں انھوں نے اپوزیشن اور عوام کو اپنی کار کردگی جانچنے کے لیے خود ہی ایک پیمانہ مقرر کر دیا جس کا سو دنوں تک سب انتظار کرتے رہے اور بالآخر جب یہ سو دن مکمل ہو گئے تو حکومت نے اس سلسلے میں ایک باقاعدہ تقریب منعقد کر کے اپنی کارکردگی عوام کے سامنے پیش کی۔

اگر خلوص نیت سے دیکھا جائے تو پانچ سالہ دور حکومت کا سو دنوں سے مقابلہ یا موازنہ نہیں کیا جا سکتا اور یہ موازنہ بھی ایک ایسی سیاسی پارٹی کی حکومت کا ہو رہا ہے جو کہ پہلی دفعہ اقتدار میں آئی ہے اس لیے شروع کے سو دنوں میںہی حکومتی کار کردگی کی جانچ پڑتال حقیقت سے دور معلوم ہوتی ہے لیکن نادان حکومت نے چونکہ خود ہی اپنے لیے پھندہ تیار کر لیا تھا اس لیے اب اپوزیشن، عوام اور ذرائع ابلاغ سمیت سب اس بات کا خصوصی حق رکھتے ہیں کہ وہ حکومت کی کار کردگی کے متعلق اپنی اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں ۔

حکومت سے منسلک تینوں فریقوں میں سے سب سے کمزور فریق عوام ہوتے ہیں جو ہر حکومت سے اپنے لیے اچھے کی اُمید لگا بیٹھتے ہیں لیکن عموماً دیکھا یہ گیا ہے کہ ہر بار مایوسی ہی ان کا مقدر بنتی رہی ہے اس بار بھی عوامی توقعات بہت زیادہ ہیں اور عمران خان کو ان توقعات کا احساس بھی ہے وہ یہ جانتے ہیں کہ یہ عوام ہی ہیں جن کے سہارے وہ ملک کے اعلیٰ ترین منصب تک پہنچے ہیں۔ اس لیے وہ بار بار اس بات کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں کہ عوام کی سہولت کے منصوبے شروع کیے جارہے ہیں ۔

یہ بات ان کی سمجھ میں آگئی ہے کہ اگر وہ اپنے اقتدار کو دوام بخشنا چاہتے ہیں تو صرف عوام ہی وہ سب سے بڑی طاقت ہیں جن کے سہارے وہ اقتدار میں رہ سکتے ہیں کیونکہ اگر عوام کسی حکمران کے خلاف ہو جائیں تو پھر کوئی بھی طاقت زیادہ مدت تک ایسے حکمرانوں کا دفاع نہیں کر سکتی اور اس کا نتیجہ اقتدار سے رخصتی کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔ بڑی مدت کے بعد ایک ایسا حکمران آیا ہے جس نے عام آدمی سے بات شروع کی ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس نے قوم کی نبض پر صحیح ہاتھ رکھا ہے چونکہ عوام ہی سب سے طاقتور فریق ہیں اس لیے حکومت نے اپنے پہلے سو دنوں میں ایسی حکمت عملی بنا لی ہے جس میں توقع ہے کہ ایک مخصوص مدت کے بعد عوام کو سہولتیں ملنا شروع ہو جائیں گی اور اسی امید پر عوام نئی حکومت کی جانب سے مہنگائی کا تحفہ بھی برداشت بھی کر رہے ہیں۔

یعنی عوام نے ایک مرتبہ پھر ایک نیا جوا کھیلا ہے اور اس دفعہ یہ جوا عمران خان کی ذات کی صورت میںہم سب کے سامنے ہے اس لیے حکومت سے زیادہ عمران خان ذاتی طور پر عوام کو جواب دہ ہیں۔ شائد اسی لیے عوام بھی ابھی تک حکومت کے ساتھ ہیں اور مخالفت کا کوئی شور کہیں سے سنائی نہیں دے رہا۔

حکومت کا دوسرا مخالف فریق اپوزیشن کی سیاسی پارٹیاں ہیں جو کہ ایک طویل عرصے سے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ گزشتہ ستر برسوں سے کسی نہ کسی صورت میں پاکستان میں حکمرانی کے مزے لوٹ رہی تھیں۔ لیکن پہلی دفعہ ایک نئی جماعت نے ان سے یہ حق چھین لیا ہے جس کا انھوں نے بہت برا منایا ہے۔ چنانچہ شروع دن سے ہی انھوں نے نئی حکومت کے خلاف بہت واویلا مچایا لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ان کو اب سکون آتا جا رہا ہے اور خاموشی کے وقفے قدرے طویل ہوتے جا رہے ہیں۔

شائد وہ یہ سمجھ چکے ہیں کہ کوئی تازہ دم حکومت اپنی مدت کے آغاز میں ہی نہیں گرائی جا سکتی اس لیے انھوں نے اپنی توانائیاں بچانی شروع کر دی ہیں اور ان توانائیوں کو آنے والے اچھے وقتوں میں استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے ۔ اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں نسبتاً ناتجربہ کار حکومت کو آسانی سے اپنا ہدف بنا سکتی ہیں اور ہلکے پھلکے انداز میں یہ موسیقی چل بھی رہی ہے اور اس ساز کو بجانے کی ذمے داری فی الحال سابقہ حکومت کی ترجمان کی ہے جس کا جواب فواد چوہدری فوراً ہی بڑی تفصیل سے دے دیتے ہیں۔

حکومت کا تیسرا نقاد ملک کا میڈیا ہے جو کہ حکومت کی کار گزاریوں کو عوام تک پہنچا کر اپنی سماجی ذمے داری کو پوری کرتا ہے۔ تبصرہ اور تجزیہ نگاروں کو بھی بڑی شدت سے حکومت کے پہلے دنوں کی کار کردگی کا انتظار تھا کیونکہ ان کا دال دلیہ بھی حکومت سے وابستہ ہے اور خبروں کے بغیر میڈیا کی افادیت ختم ہو جاتی ہے۔

اب اگلے چند روز ٹیلی ویژن پر سیاسی پروگرام ہوں گے جن میں ہمارے دوست تجزیہ نگار اور اپوزیشن کے رہنماء حکومت کے پہلے سو دنوں کی کار کردگی پر حاشیہ آرائی کریں گے اپوزیشن کے بچے کچھے رہنماء حکومت کی ابتدائی پالیسیوں کو ناکام ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگائیں گے۔ حالانکہ اگر دیکھا جائے تو ملک کے موجودہ معاشی حالات کے ذمے داروں کا تعین کرنا کوئی مشکل عمل نہیں ۔

موجودہ حکومت کے پہلے سو دن جہاں پر عوامی مشکلات کے دن رہے وہیں پر پاکستانی میڈیا بھی حکومت کی نئی پالیسیوں کا شکار بن چکا ہے جس کی وجہ سے ٹیلی ویژن اور اخبارات کی آمدنی میں کمی ہوئی ہے جس کا براہ راست اثر صحافتی کارکنان پر پڑا جس کے نتیجہ میں ہمارے بیشتر ساتھی بیروزگار ہو چکے ہیں میڈیا کے لیے یہ مشکل وقت ہے جس میں میڈیا اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے۔

امید ہے کہ حکومت ملک کے اس اہم ترین ستون کے بارے میں اپنی آئندہ کی حکمت عملی میں ہمدردانہ غور کرے گی اور کوئی ایسا قابل عمل حل تلاش کرلیا جائے گا جس میں فریقین کو ٹھنڈی ہوائوں کے جھونکے نصیب ہوں گے۔

حکومت نے بڑی وضاحت کے ساتھ اپنے پہلے سو دنوں کی کار کردگی کے متعلق عوام کو آگاہ کر دیا ہے ۔ نیتیں صاف لگتی ہیں راستہ مشکل ہے مگر اس کو پار کرنا ناممکن بھی نہیں ہمت و حوصلے سے آگے بڑھیں تو کوئی ایسی وجہ نظر نہیں آتی کہ پاکستان کی معیشت بہتر نہ ہو سکے۔ اس بات کی تسلی ہوئی ہے کہ حکومت نے اپنے اہداف کا درست تعین کر دیا ہے اب ان اہداف کو حاصل کرنا حکومت کی ذمے داری ہے اور اس کے لیے اس کے پاس وقت کی کوئی کمی نہیں عوام نے اسے پانچ برس کے لیے حکومت سونپی ہے اور اب عوام حکومتی کار کردگی کے انتظار میں ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔