کیا پی ایس ایل فرنچائزز فیس دیں گی؟

سلیم خالق  اتوار 2 دسمبر 2018
اس وقت اندرون خانہ بات چیت چل رہی ہے کہ محاذ آرائی کی صورتحال سے بچا جائے۔فوٹو: فائل

اس وقت اندرون خانہ بات چیت چل رہی ہے کہ محاذ آرائی کی صورتحال سے بچا جائے۔فوٹو: فائل

اگر کوئی اپنے گھر میں پودا لگائے جو بعد میں درخت بننے لگے، پھر وہ خود ہی اس کی شاخیں کاٹنے لگے تو آپ اسے کیا کہیں گے؟ بدقسمتی سے پی ایس ایل کے ساتھ آج کل یہی ہو رہا ہے۔

بورڈ اور فرنچائزز کی باہمی کوششوں سے ایونٹ کامیابی سے ہمکنار ہوا اور ایک برانڈ بنا، مگر اب اختلافات کے سبب اسے نقصان پہنچ رہا ہے، کچھ عرصے قبل ایک صاحب نے مجھ سے یہ بات کہی تھی کہ ’’دیکھنا اگلے سال لیگ نہیں ہو گی‘‘ گوکہ اس وقت میں نے ان کی بات کو ہنس کر ٹال دیا تھا لیکن اب لگتا ہے کہ واقعی مسائل بہت بڑھ چکے ہیں، البتہ خدانخواستہ معاملات ایسے نہیں ہیں کہ ایونٹ کا انعقاد ہی نہ ہو سکے، یہ ضرور ہے کہ تنازعات کو جلد حل کرنا چاہیے۔

الٹی میٹم دینے جیسی نوبت نہیں آنی چاہیے تھی، ایسا کیوں ہوا اور کیااقدامات کریں کہ آئندہ صورتحال اس نہج پر نہ پہنچے بورڈ کو یہ سوچنا چاہیے، پی سی بی کی جانب سے فرنچائزز کو فیس کی ادائیگی کیلیے دیا ہوا وقت پیرکی دوپہر12 بجے ختم ہو رہا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ کون فیس دیتا ہے اور کون نہیں، بورڈ کو اس وجہ سے اطمینان ہے کہ بیشتر ٹیموں کی بینک گارنٹی اس کے پاس موجود اور اسے عدم ادائیگی پر کیش کرایا جا سکتا ہے،مگر اس سے اچھا تاثر نہیں جائے گا۔

اس وقت اندرون خانہ بات چیت چل رہی ہے کہ محاذ آرائی کی صورتحال سے بچا جائے، اس غیریقینی صورتحال کا سب سے زیادہ نقصان فرنچائزز کو ہی ہے، براڈ کاسٹنگ کی ڈیل کا80 فیصد حصہ انہی کو ملے گا، اگر اچھا کنٹریکٹ نہ ہوا تو وہی نقصان اٹھائیں گی،اس لیے معاملات جلد حل کرنا ہوں گے، مسئلہ یہ ہے کہ احسان مانی نے نجم سیٹھی کی ٹیم تبدیل نہیں کی، نائلہ بھٹی کی ٹانگ میں فریکچر نہ ہوتا تو وہ بھی ڈرافٹ اور بعد کی میٹنگ میں بھی موجود ہوتیں۔

دیگر تمام اعلیٰ عہدیدار بھی عہدوں پر براجمان ہیں، بورڈ میں بہت سے لوگ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ نئے چیئرمین کو تو کچھ پتا نہیں اس لیے معاملات خراب ہو گئے،حالانکہ یہ حقیقت نہیں ہے، البتہ انھیں معاملات کو سمجھنے کیلیے مزید وقت درکار ہوگا، پی سی بی بہت بڑا ادارہ ہے اسے چاہیے کہ تجربہ کار آفیشلز کا تقرر کرے، بعض لوگوں کواوقات سے بڑھ کرعہدے ملے ہوئے ہیں جو اکڑ اکٹرکر چلتے ہیں ان کی جگہ ماہرین کو لایا جائے،اب اگلے ایڈیشن میں زیادہ وقت باقی نہیں رہا۔

فرنچائزز کے اہم ایشوز ڈالر کے معاملے میں پاکستانی کرنسی کی گرتی ہوئی قدر،بھاری ٹیکس اور ذرائع آمدنی کم ہونا ہیں، انھیں حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، بدقسمتی سے پی ایس ایل کے بعد لاہور قلندرز کے سوا دیگر تمام فرنچائزز چین کی نیند سو جاتی ہیں اور ان کی آنکھ اگلے ایونٹ سے تین ماہ قبل ہی کھلتی ہے، انھیں ان مسائل کا پہلے سے سامنا تھا تو نئے چیئرمین کے آتے ہی کیوں نہیں سب نے مل کر حل کیلیے بات کی، کوئی مٹھائی کا ڈبہ اور ہار لے کر پہنچ گیا تو کسی نے فون پر مبارکباد دے دی۔

بھائی آپ کے کروڑوں روپے لگے ہوئے ہیں ان کو بچانے کیلیے مذاکرات توکرتے، اب ٹیکس معاف کرانے جانے کی ملاقاتوں کو بھی ذاتی تشہیر کیلیے استعمال کیا جا رہا ہے،مجھے یہ پڑھ کر بڑی ہنسی آئی کہ ’’فلاں صاحب نے فلاں حکومتی شخصیت سے ملاقات کی،اس موقع پر احسان مانی بھی موجود تھے‘‘۔

فرنچائزز بظاہر تو ایک لیکن اندر سے ایک دوسرے کی کاٹ میں بھی لگی ہیں، کسی کو ایسا لگتا ہے کہ فلاں نے ٹیم اتنی سستی خریدی میں نے اتنی مہنگی مگر منافع سب کو برابر ملتا ہے، کسی کو دوسرے کا پلیئرز ڈیولپمنٹ پروگرام اچھا نہیں لگتا، جب تک آپ سب ایک نہیں ہوتے بورڈ سے کیسے کوئی بات منوائیں گے؟ ابھی فیس نہ بھرنا فرنچائزز کے اپنے مفاد میں نہیں ہے۔

اگلا ایڈیشن ہونے دیں پھر اپنی میٹنگ کریں، اس میں درپیش مسائل کی فہرست بنائیں اور یکجا ہو کر بورڈ سے بات کریں، چونکہ اس وقت بینک گارنٹی اور فیس وغیرہ کا پریشر نہیں ہو گا لہذا آرام سے چند ماہ میں کوئی نہ کوئی مناسب حل نکل آئے گا،پی سی بی کو بھی محاذ آرائی سے گریز کرنا چاہیے، میں مانتا ہوں کہ آپ کے پاس چھٹی ٹیم کیلیے بہت زیادہ خریدار موجود ہیں اور اگر باقی فرنچائزز سے بھی معاملات طے نہ ہوئے تو کوئی نہ کوئی انھیں خرید ہی لے گا لیکن کیا یہ درست ہوگا؟

مجھے یاد ہے کہ پہلی پی ایس ایل سے پہلے کس طرح بعض لوگوں سے منتیں تک کر کے ٹیمیں بیچی گئی تھیں، ان لوگوں نے تین سال نقصان اٹھایا اور اب جب پانی سر سے اونچا ہونے لگا تو آواز اٹھائی، کوئی کتنا بھی امیر ہو ایسے ہی پیسے تو نہیں لٹاتا رہے گا، اسے سرمایہ کاری سے کچھ تو واپس چاہیے ہوگا، اس کیلیے راہیں تلاش کرنے میں مدد کے بجائے ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے جو پی ایس ایل کے مفاد میں بھی نہیں ہے۔

دوسرے ایڈیشن میں بھی ایک فرنچائز نے فیس نہیں دی تھی تو اس کی بینک گارنٹی کیش کرا لی گئی ، اب بھی اگر ایسا کرنا پڑے تو اس کی تشہیر نہ کریں، یقین مانیے بہت سے لوگ اس کوشش میں ہیں کہ کسی طرح پی ایس ایل کو ناکام بنایا جائے تاکہ وہ کہہ سکیں کہ نئے چیئرمین نااہل ہیں اس لیے اچھا خاصا برانڈ تباہ کر دیا، ایسی کوششوں کو ناکام بنائیں، یاد رکھیں یہ پاکستان سپر لیگ ہے، اس کے ساتھ ملک کا نام جڑا ہے اسے خراب نہ کریں، آپس میں بیٹھ کر اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔

اگر ایسا لگتا ہے کہ وقت لگے گا تو ایونٹ کے اختتام تک انتظار کر لیں، پی سی بی بہت امیر ادارہ ہے، اگر ٹیکس کے بغیر فیس لے تو بھی اسے کوئی فرق نہیں پڑے گا، پھر حکومت اگر مان جائے تو معاملہ ختم ، ٹیکس معاف نہ ہو تو فرنچائزز سے رقم لے لی جائے،اسی طرح جب ڈالر کے پرانے ریٹ پر ٹائٹل اسپانسر شپ کا معاہدہ ہو سکتا ہے تو فرنچائزز کو یہ ریلیف دینا کیوں ممکن نہیں ،فی الحال تو ایسے اقدامات کریں جس سے لیگ کو لاحق خدشات ختم ہوں، خدانخواستہ کہیں ایسی صورتحال نہ ہو کہ ہم بیٹھ کر افسوس کریں کہ پی ایس ایل اچھا ایونٹ ہوا کرتا تھا جسے اپنوں نے ہی تباہ کر دیا۔

(نوٹ:آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔