ٹاپ آرڈر کو کڑے امتحان سے گزرنا ہوگا

سید عباس رضا  اتوار 2 دسمبر 2018
دورۂ جنوبی افریقہ سے قبل انجریز اور اوپننگ جوڑی کے مسائل۔ فوٹو: فائل

دورۂ جنوبی افریقہ سے قبل انجریز اور اوپننگ جوڑی کے مسائل۔ فوٹو: فائل

کارکردگی میں عدم تسلسل کے لیے مشہور پاکستان ٹیم نے یواے ای میں حالیہ معرکوں کے دوران بھی اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔

آسٹریلیا کے خلاف پہلے ٹیسٹ میچ میں جیتنے کا موقع گنوایا،دوسرے میں حیران کن کم بیک کرتے ہوئے فتح کے ساتھ سیریز بھی اپنے نام کی،نیوزی لینڈ کے خلاف پہلے میچ میں مسلسل کئی سیشنز میں برتری برقرار رکھنے کے باوجود معمولی ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے میزبان ٹیم کے ہاتھ پاؤں پھول گئے، آخر میں سینئرز اور جونیئرز سب ناکام ہوئے، اسد شفیق مشن ادھورا چھوڑ کر پویلین لوٹ گئے۔

بابر اعظم کے رن آؤٹ کے بعد بیٹنگ لائن بوکھلاہٹ کا شکار ہوئی، اظہر علی نے بھی ٹیل اینڈرز کے بجائے اپنی وکٹ گنوائی اور پھر آخر میں خود بھی چلتے بنے، 4رنز سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، اس انداز میں ہمت ہار جانے پر کھلاڑی، کوچنگ سٹاف، مینجمنٹ اور شائقین سب مایوسی کے اندھیروں میں ڈوب گئے، زیادہ امید نہیں کی جارہی تھی کہ پاکستان ٹیم دوسرے میچ میں کم بیک کرتے ہوئے سیریز میں واپس آئے گی لیکن دبئی میں میزبان کھلاڑی بڑے مختلف موڈ میں نظر آئے۔

بیٹنگ لائن نے ذمہ دارانہ کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلی اننگز میں اچھا مجموعہ ترتیب دیا، اوپنرز کی ناکامی کے بعد اظہر علی نے حارث سہیل کے ساتھ شراکت سے ٹیم کو مشکلات سے نکالا، بعدازاں بابراعظم نے اپنے کیریئر کی پہلی سنچری اسکور کرتے ہوئے خود کو ٹیسٹ کرکٹ کا بھی اہم ثابت کیا، پاکستان میں 5وکٹ پر 418 رنز بنا کر اننگز ڈکلیئر کی تو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ کپتان سرفراز احمد کی طرف سے شاید جلد بازی میں فیصلہ کیا گیا ہے۔

سینچری میکر حارث سہیل سمیت پاکستانی بیٹسمینوں کا کہنا تھا کہ اس پج پر رنز بنانا قطعی طور پر آسان نہیں ہے، بعدازاں پاکستانی بولرز کی کارکردگی نے ثابت کردیا کہ کپتان کا فیصلہ اور بیٹنگ کرنے والوں کا اندازہ غلط نہیں تھا، کیویز نے انتہائی محتاط آغاز کرنے کے بعد ٹاپ تھری کی مزاحمت ختم ہوتے ہی جس انداز میں وکٹیں گنوائیں، اس سے ثابت ہوا کے ابوظبی سے دبئی کا ٹریک قطعی مختلف ہے، جیت راول، ٹام لیتھم اور کین ولیمسن ہی 20سے زیادہ کی مزاحمت کرنے والے بیٹسمین بنے، دیگر میں سے کسی کو ڈبل فیگر تک رسائی کا موقع نہ ملا۔

آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں بجھے بجھے نظر آنے والے یاسر شاہ کا ردھم میں آنا کیویز کے لیے تباہی کا پیغام ثابت ہوا، صرف 41 رنز کے عوض 8 بیٹسمینوں کو پویلین بھیجنے والے یاسر شاہ نے ریکارڈ بک کے صفحات الٹ پلٹ دیئے، فالو آن کے بعد کیویز نے دوسری اننگز میں خلاف توقع زیادہ مزاحمت پیش کی لیکن شکست کو ٹالنے میں کامیابی نہ ہوئی، ٹام لیتھم، روس ٹیلر اور ہینری نکولز کی ففٹیز پاکستان کی اننگز اور 16 رنز سے فتح کی راہ میں دیوار نہیں بن سکیں۔

یاسر شاہ نے دوسری باری میں 6 وکٹوں کے ساتھ میچ میں 14 شکار کرتے ہوئے عمران خان کا ایک ٹیسٹ میں زیادہ وکٹوں کا ریکارڈ برابر کردیا، حسن علی نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 3شکار کئے، آسٹریلیا کے خلاف 2ٹیسٹ میچز میں ہی 17وکٹیں حاصل کرنے والے محمد عباس اس بار کوئی تہلکہ مچانے میں کامیاب نہیں ہوئے، نیوزی لینڈ کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میں فیلڈنگ کرتے ہوئے کندھے کی انجری کا شکار بھی ہوئے جس کی وجہ سے ان کی تیسرے ٹیسٹ میں شمولیت پر سوالیہ نشان لگ چکا۔

اگر فٹنس مسائل ختم نہ ہوئے تو دورۂ جنوبی افریقہ میں پاکستان اپنے اہم ہتھیار سے محروم رہے گا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے خلاف میچ میں مجموعی طور پر پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ اوپننگ جوڑی کا رہا،مسلسل ناکام رہنے پر ڈراپ ہونے والے محمد حفیظ کی2سال بعد ٹیسٹ ٹیم میں واپسی ہوئی تھی، انہوں نے اننگز میں آسٹریلیا کے خلاف 126رنز بنائے تو محسوس ہوا کہ اپنے تجربے اور فارم کی بدولت کم ازکم یواے ای کی سازگار کنڈیشنز میں ٹیم کو اچھا آغاز فراہم کریں گے لیکن ناکام رہے۔

آسٹریلیا کے خلاف دوسری اننگز میں 17پر وکٹ گنوائی، دوسرے ٹیسٹ میں انہوں نے ایک اننگز میں 4، دوسری میں 6 رنز بنائے، نیوزی لینڈ کے خلاف ابوظبی ٹیسٹ میں 20اور 10رنز سکور کرسکے، کیویز کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میں ان کی اننگز 9تک محدود رہی،کیویز کے فالوآن ہونے کی وجہ سے دوسری باری کی ضرورت ہی نہیں پڑی، سینچری کے بعد 6اننگز میں انہوں نے صرف 66رنز بنائے ہیں۔ دوسری طرف امام الحق کی کارکردگی میں بھی تسلسل نہیں ہے، اوپنر نے کیریئر کا پہلا ٹیسٹ آئرلینڈ کے خلاف کھیلا، پہلی اننگز میں 7رنز بنائے۔

دوسری میں 74پر ناٹ آؤٹ رہے، لارڈز اور لیڈز میں انگلینڈ کے خلاف دو ٹیسٹ میچز میں انہوں نے مجموعی طور پر 4اننگز میں 56رنز بنائے،گزشتہ ماہ آسٹریلیا کے ساتھ پہلے میچ میں انہوں نے 76اور 48کی اننگز کھیلیں،زخمی ہونے کی وجہ سے دوسرا ٹیسٹ فخرزمان کھیلے اور ڈیبیو میچ میں ہی دونوں اننگز میں مجموعی طور پر 160رنز بنائے، امام الحق واپس آئے تو نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز کے پہلے ٹیسٹ میں 6اور 27تک محدود رہے،دبئی میچ میں 9پر وکٹ گنوادی۔

محمد حفیظ اور امام الحق کے درمیان سب سے بڑی اوپننگ شراکت آسٹریلیا کے خلاف پہلے ٹیسٹ میں رہی جب دونوں نے 205رنز جوڑے،بعد ازاں زیادہ سے زیادہ 37 کا آغاز فراہم کرسکے، نیوزی لینڈ کے خلاف تیسرے ٹیسٹ کے ساتھ سیریز بھی ختم ہوجائے گی، پاکستان کا اگلا اور مشکل ترین امتحان دورۂ جنوبی افریقہ ہوگا، ابتدا میں ٹیسٹ سیریز کھیلی جائے گی۔

گزشتہ دورہ جنوبی افریقہ میں ڈیل سٹین کی بولنگ پر محمد حفیظ کی اچھل کود اور ناکامیوں سے دنیا واقف ہے،تیز اور باؤنسی وکٹوں پر مہمان ٹیم کی خبر لینے کے لیے کاگیسو ربادا بھی موجود ہوں گے، دورۂ جنوبی افریقہ میں ناتجربہ کار امام الحق کے ساتھ آؤٹ آف فارم محمد حفیظ کی اوپننگ جوڑی سے اچھے آغاز کی توقعات وابستہ نہیں کی جاسکتیں۔

یواے ای سے زیادہ دیگر ملکوں کی کنڈیشنز میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے فخرزمان نہ صرف کہ محدود اوورز کی کرکٹ بلکہ اس سے قبل ٹیسٹ سیریز میں بھی حریف باؤلرز کو ابتدا میں ہی دباؤ کا شکار کرنے کا مقصد پورا کرسکتے تھے لیکن ان کے انجری مسائل سامنے آگئے ہیں،جنوبی افریقہ میں بہت کم ایسی مثالیں ہوں گی کہ پاکستان کی ٹاپ آرڈر نے پرفارم کیا ہو،اسی کی وجہ سے غیر معمولی دباؤ کا شکار ہونے والی مڈل آرڈر بھی ناکام رہتی ہے۔

رواں سال کے آغاز میں دورۂ نیوزی لینڈ میں انہی مشکلات کی وجہ سے چیمپئنز ٹرافی کے فاتح گرین شرٹس ایک بھی ون ڈے میچ نہیں جیت پائی تھے، پروٹیز کے خلاف پاکستان کو تینوں فارمیٹ کے میچز کھیلنا ہیں،ابتدا میں ہونے والی ٹیسٹ سیریز میں فخرزمان دستیاب نہ ہوئے تو محمد حفیظ اور امام الحق کے ساتھ شان مسعود کو شامل کئے جانے کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹیم میں غیر مستقل جگہ رکھنے والے کھلاڑی کو جنوبی افریقی اٹیک کے رحم وکرم پر چھوڑ دینا مناسب ہوگا، محمد عباس کی فٹنس بحال نہ ہوئی تو خلا پُرکرنے کے لیے محمد عامر کو لائے جانے کی باتیں ہورہی ہیں، شاہین شاہ آفریدی کی موجودگی میں چلے ہوئے کارتوس کو دوبارہ آزمانے کی منطق سمجھ میں نہیں آتی، کیا سینئر پیسر کی ڈومیسٹک کرکٹ میں فارم اتنی بہتر نظر آئی کہ ان کو انٹرنیشنل چینلج کے لیے تیار سمجھا جائے، اگر ان کو سابق کارکردگی کی بنیاد پر لیا تو پھر نکالا کیوں تھا۔

نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز کا فیصلہ کن میچ پیر کو شروع ہوگا، یواے ای کی کنڈیشنز میں یاسر شاہ کی مدد سے سرفراز الیون مہمان بیٹنگ لائن پر شاید قابو بھی پالے لیکن دورۂ جنوبی افریقہ میں لیگ سپنر کے ٹرمپ کارڈ ثابت ہونے کا امکان زیادہ نہیں،سلیکٹرز کو سکواڈ تشکیل دیتے ہوئے کنڈیشنز کو پیش نظر رکھ کر بڑے سوچ سمجھ کر فیصلے کرنا ہوں گے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔