9 ماہ کے دوران پنجاب میں بچوں پر جنسی تشدد کے 11سو سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے

آئی جی کا سخت نوٹس، ملزموں کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کے لئے نئے ایس او پیز جاری


Saleh Mughal December 02, 2018
آئی جی کا سخت نوٹس، ملزموں کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کے لئے نئے ایس او پیز جاری۔ فوٹو : فائل

کسی بھی مہذب معاشرے یا ریاست میں بچے قوموں کا مستقبل ہوتے ہیں، اسی ناطے معاشرے، ریاست اور والدین پر مشترکہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مستتقبل کے معماروں کی بہتر تعلیم و تربیت کے لیے ایسا ماحول فراہم کریں، جہاں ہر بچہ امن و سکون اور عزت کے ساتھ زندگی بسر کرکے نشوونما پائے اور بہتر و مناسب ماحول میں پڑھ لکھ کر معاشرے اور ریاست کے لیے فعال کردار ادا کرسکے۔

ہمارے یہاں والدین اور ریاست اپنے تئیں بچوں کو معیاری ماحول فراہم کرنے کے لیے کوشاں تو دکھائی دیتی ہے لیکن بدقسمتی سے بچوں پر تشدد اور جنسی جرائم کے واقعات تواتر سے سامنے آتے رہتے ہیں۔ صرف پنجاب میں رواں سال کے پہلے نو ماہ کے دوران دس سال سے کم عمر بچوں کے ساتھ زیادتی اور تشدد کے گیارہ سو سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے جو یقینا معاشرے کے سٹیک ہولڈرز، ریاست اور والدین کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔

تاہم سنگین صورت حال کے تناظر میں پنجاب پولیس کے سربراہ آئی جی امجد جاوید سلیمی کی جانب سے بچوں کو تحفظ دینے اور گھناؤنے اقدام میں ملوث عناصر کے گرد قانون کا گھیرا تنگ کر کے انھیں معاشرے میں نشان عبرت بنانے کی سنجیدہ کوشش اس وقت سامنے آئی، جب انھوں نے بچوں کے ساتھ تشدد اور جنسی جرائم کی روک تھام اور ملوث عناصر کے خلاف کارروائی کے لئے واضح اور دوٹوک سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز (ایس او پی ) نہ صرف مرتب کیے بلکہ آر پی او راولپنڈی فیاض دیوو ، سی پی او راولپنڈی عباس احسن سمیت پنجاب بھر کے ریجنل و ضلعی پولیس افسران کو ارسال کرکے فوری طور پر عملدرآمد کے احکامات بھی جاری کیے۔

آئی جی پنجاب کی جانب سے صوبے بھر کے ریجنل و ضلعی پولیس سربراہوں کوجاری کیے جانے والے مراسلے میں رواں سال کے 9 ماہ کے دوران پنجاب بھر میں کمسن بچوں ( دس سال سے کم عمر) کے ساتھ تشدد و جنسی زیادتی کے مقدمات درج ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے پولیس افسران کو پابند بنایا گیا کہ ایسے جرائم کی روک تھام اور سدباب کے لیے ایس او پی کے مطابق عملدرآمد کرکے مفصل رپورٹ انچارج سپیشل ڈیسک برائے جنسی تشدد کو ارسال کی جائے۔

ایس او پی کے تحت راولپنڈی سمیت پنجاب بھر کے پولیس حکام کو پابند بنایاگیا ہے کہ ایسے تمام ملزمان جو بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے مقدمات میں ضمانت پر ہوں، جیل سے رہا ہوئے ہوں یا بچوں کے والدین سے راضی نامے پر چھوٹ چکے ہوں کا مفصل ریکارڈ متعلقہ تھانے اور ضلع سطح پے دونوں جگہوں پر مرتب کیا جائے ، اور پولیس رولز کے مطابق انھیں باقاعدگی سے نگرانی میں رکھ کر ان سے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 110 ت پ کے تحت نیک چلنی کی ضمانت یا سرٹیفکیٹ حاصل کیا جائے۔

اگر کوئی بھی ملزم مستقل رہائش گاہ اور کام کی جگہ تبدیل کر نا چاہتا ہے یا کرتا ہے تو ملزمان کے چال چلن اور مقدمے میں ملوث ہونے سے متعلق معلومات اس نئے علاقے کے متعلقہ تھانے کو فراہم کی جائیں، جہاں وہ سکونت یا کام کے لیے منتقل ہو رہا ہے۔ اسی طرح ایسے تمام ملزمان جب بھی پولیس کریکٹر سرٹیفکیٹ جاری کرانا چاہیں تو کریکٹر سرٹیفکیٹ پر بھی نمایاں الفاظ میں بچوں کے ساتھ زیادتی یا مقدمے میں ملوث ہونے کے متعلق تحریر کیا جائے۔

ایس او پی میں مزید کہاگیا کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کی مراد کسی بھی قسم کا جذباتی، جسمانی ناروا سلوک، جنسی جرائم، عریاں تصاویر ، وڈیو، تشدد اور استحصال ہے، جس سے معاشرتی طور پر بچے کی صحت، عزت اور بقا متاثر ہوتی ہے۔ اس صورت حال سے معاشرے میں خوف کا جنم لیتا ہے، لہذا بچوں کے ساتھ ایسے جرم یا اقدام کی اطلاع ملتے ہی فوری طور پر ایف ائی آر درج کی جائے۔

تفتیشی آفیسر جو سب انسپکڑ سے کم سطح کا نہیں ہونا چاہیے، فوری طور پر نقشہ مضروبی مرتب کرکے بچے اور ملزم اگر کوئی گرفتار ہو تو اس کا طبی ملاحضہ کروانے کا پابند بھی ہوگا۔ راولپنڈی سمیت ہر ضلع میں ایس ایس پی انوسٹی گیشن بچوں کے ساتھ جنسی جرائم کے مقدمات میں فوکل پرسنز ہوں گے، فرانزک سائنس ایجنسی کے ماہرین کے ذریعے شہادتیں اکھٹی کرنے کو یقینی بنایا جائے گا۔

عدالت سے باہر راضی نامے اور صرف زبانی شہاد ت پر انحصار کرنے کی حوصلہ شکنی کے لیے ایسے مقدمات میں دفعہ 311 ت پ شامل کی جائے اور ملزم سے اگر موبائل فون، الیکڑانک آلات برآمد ہوں تو فوری طور پر اس کو تجزیے کے لیے فرانزک سائنس ایجنسی کو بجھوایا جائے، مقدمے کا تفتیشی آفیسر اور دیگر پولیس افسران متاثر بچے اور عزیز رشتہ داروں سے شفقت اور رحم دلی سے پیش آئیں، اسی طرح ایس او پیز میں تمام ضلعی پولیس سربراہان، تفتیشی افسران اور فوکل پرسنز (ایس ایس پی انوسٹی گیشنز) سے کہاگیا ہے کہ مقدمات میں سزا یابی یقینی بنانے کے لیے پراسیکوشن برانچ سے رابطے میں رھیں اور اس حوالے سے الگ سے کرائم میٹنگز کریں اور ایسے مقدمات کے چالان ارسال کرنے سے قبل متعلقہ پولیس حکام خود کیس کا جائزہ بھی لیں۔

سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر کے مطابق پولیس حکام کو ہدایت کی گئی ہے کہ سپشل برانچ کی معاونت سے ایسی دکانوں، موبائل فون شاپس، انٹرنیٹ کیفے جہاں بچوں سے غیر اخلاقی حرکات کے حوالے سے مواد بنانے یا جمع کرنے کا مذموم دھندہ کیا جاتا ہے کے خلاف کریک ڈاون کیا جائے۔

آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی کی جانب سے جاری ہونے والی ہدایات پر سی پی او راولپنڈی عباس احسن نے ایس ایس پی آپریشن سید علی اکبر سمیت تینوں ڈویژنل ایس پیز اور بچوں کے ساتھ تشدد و جسنی جرائم کے واقعات کی تفتیش وغیرہ کے حوالے سے نامزد فوکل پرسن ایس ایس پی انوسٹی گیشن امیر عبداللہ نیازی ایس او پیز کو مکمل طور پر عملدرآمد کرنے کے احکامات جاری کردیئے۔

آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی جو یقینا گھناؤنے جرائم کی روک تھام اور بچوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے متحرک و سنجیدہ ہ دکھائی دیتے ہیں، لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ راولپنڈی پولیس اور اس کے فوکل پرسن ایس ایس پی انوسٹی گیشن امیر عبداللہ خان نیازی آئی جی پنجاب کے جاری کردہ ایس او پیز پر کس حد تک عمل کرپاتے ہیں، تاہم ساتھ ہی والدین اور معاشرے کے ہر اس اسٹیک ہولڈر پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے اردگرد کے ماحول پر گہری نظر رکھیں اور بچوں کے لیے ایسا ماحول یقینی بنائیں کہ وہ بلا خوف و خطر اپنی سرگرمیاں جاری رکھ کر نشوونما پائیں اور ملک کا مستقبل روش کریں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔