وہ تقسیم اسکوائر میں کھڑا ہے اور خاموش ہے

انتظار حسین  اتوار 30 جون 2013
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

وہ شخص تقسیم اسکوائر کے بیچوں بیچ کھڑا ہے۔ ارد گرد احتجاج کرنے والے مجمع سے بے تعلق‘ چپ چاپ‘ صُم بُکم۔ نہ منہ سے بولتا ہے نہ سر سے کھیلتا ہے۔ ادھر ادھر بھی نظر نہیں ڈالتا۔ عین سامنے اتاترک کلچرل سینٹر کی عمارت ہے۔ وہاں اس کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔ بظاہر احتجاج میں شریک نہیں ہے۔ یعنی لب پہ نہ کوئی نعرہ ہے۔ نہ پولیس سے مزاحمت پر آمادہ نظر آتا ہے  ع

زیرِ دیوار کھڑے ہیں ترا کیا لیتے ہیں

مگر یہاں درخت بھی تو چپ چاپ ہی کھڑے تھے۔ کسی کا کیا لے رہے تھے اور اردگان حکومت کو بھی ان سے کونسا اندیشہ لاحق تھا۔ مگر بیٹھے بٹھائے حکومت کے دماغ میں سمائی کہ ان درختوں کو یہاں سے صاف کیا جائے۔ کیوں نہ یہاں فوجی بارکیں بنائی جائیں۔ مگر وہ پاکستان تو نہیں تھا جہاں درخت کٹتے چلے جا رہے ہیں۔ جنگل کے جنگل صاف ہو چکے ہیں۔ مگر کوئی موثر احتجاج ابھی تک دیکھنے میں نہیں آیا۔ مگر استنبول کے نوجوان اپنے سرسبز چوک کو اجڑتا دیکھ کر ضبط نہ کر سکے اور احتجاج کرنے والوں کا مجمع اکٹھا ہو گیا۔ پولیس نے مار دھاڑ بھی کی۔ وزیراعظم کی طرف سے احتجاج کرنے والوں کو خبردار بھی کیا گیا۔ مگر ہنگامہ بدستور جاری رہا۔

رپورٹ کہتی ہے کہ اسی ہنگامہ کے بیچ ایک نوجوان ترک مجمع کو چیرتا آیا اور چپ چاپ کھڑا ہو گیا۔ رفتہ رفتہ لوگوں کی توجہ اس کی طرف گئی۔ یہ کون شخص ہے کہ مظاہرین کے بیچ میں آ کر کھڑا ہو گیا ہے۔ ان کے ساتھ شامل تو نہیں ہے۔ ان سے الگ بھی نہیں ہے مگر پھر احتجاج تو کر ے۔ وہ بھی نہیں کر رہا۔ گم متھان کھڑا ہے۔ کیا اس نے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے۔ ایک تجسس کے ساتھ کچھ نوجوان آگے بڑھے۔ اس کی رِیس میں وہ بھی اس کے برابر جا کر چپ چاپ کھڑے ہو گئے۔

تب اس احتجاجی تحریک کے سرغنہ چونکے سوچا کہ مزاحمت کا یہ طریقہ زیادہ موثر ہے۔ سو خبریں یہ بتاتی ہیں کہ کتنے لوگ اب اس کے دائیں بائیں‘ آگے پیچھے اس کی تقلید میں خاموش کھڑے نظر آ رہے ہیں۔

لیجیے اس مزاحمتی تحریک کا رخ ہی بدل گیا۔ آمادۂ تشدد مظاہرین اب تشدد کے خیال کو رفع دفع کر کے اس عدم تشدد مظاہرے میں شامل ہو گئے۔ اور یہ شخص جس کا بھلا سا نام ہے اردھم غندوز وہ اب مزاحمت کی ایک موثر علامت بن کر تقسیم اسکوائر میں کھڑا ہے۔ اپنی جگہ پر اٹل۔ ثابت قدم۔ منہ سے کچھ نہیں کہتا۔ مگر اس کی خاموشی نے جیسے بولنا شروع کر دیا ہو۔ خاموشی بھی تو اپنی جگہ ایک زبان ہے۔ ایسی زبان کہ ع

نطق کو سو ناز ہیں تیرے لب گفتار پر

تازہ خبر میں بتایا گیا ہے کہ ترکی کے نائب وزیر اعظم نے ایک بیان میں کہا کہ ’’یہ تشدد کی صورت حال تو نہیں ہے۔ تو ہم اس کی مذمت بھی نہیں کر سکتے‘‘۔

ہاں اب وہ کس بنیاد پر اس مزاحمت کی مذمت کریں۔ مضمون تو وہی ہے کہ  ع

زیر دیوار کھڑے ہیں ترا کیا لیتے ہیں

سچ پوچھو تو یہ تحریک کچھ نرالی ہی تحریک ہے۔ بیسویں صدی میں کیسی کیسی تحریک چلی۔ کیا کیا ہنگامے ہوئے۔ اب اکیسویں صدی ہے۔ اب جو بھی تحریک شروع ہوتی ہے فوراً ہی تشدد کا رنگ پکڑ لیتی ہے۔ جب تک دو چار بسوں کو آگ نہ لگے اور گزرتی کاروں پر اینٹیں نہ برسیں‘ ایک دو عمارتوں کو جلا کر راکھ نہ کیا جائے مظاہرین کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ انھوں نے احتجاج کے نام کچھ کر کے دکھایا ہے۔ مگر اکیسویں صدی کی تحریکیں جو آگ اور خون کے کھیل کے ساتھ پروان چڑھتی ہیں مگر یہ تحریک دوسرے ہی رنگ میں زور پکڑ رہی ہے۔ اس کا آغاز ہی نرالا تھا۔ درختوں کے نام پر بھی کبھی کوئی تحریک چلی تھی۔ یہاں درختوں کے نام پر اس تحریک کا آغاز ہوا۔ پھر ان درختوں سے نئی نئی شاخیں پھوٹنے لگیں اور درختوں نے علامتی حیثیت اختیار کر لی۔ اپنے اس علامتی رنگ کے ساتھ انھوں نے کتنے مسائل کو اپنی آغوش میں لے لیا۔ آگے چل کر اس نے یہ رنگ اختیار کر لیا کہ کھڑے رہو۔ بولو مت۔ اپنی جگہ سے ہلو مت۔

بعض سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اس ترک نوجوان نے گاندھی جی سے کچھ اشارہ لیا ہے۔ یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔ وہ تو آہنسا پر ایمان رکھتے تھے۔ تحریک چلائو مگر عدم تشدد کے ساتھ۔ جب پانی سر سے اوپر جانے لگتا تو وہ مرن برت رکھ لیتے۔ مگر ان کے مرن برت میں چپ کا روزہ شامل نہیں تھا۔ وہ چپ سے بڑھ کر فاقہ کشی کا ہتھیار استعمال کرتے تھے۔ مرن برت ان کا آخری ہتھیار تھا۔ اسے انھوں نے مختلف موقعوں پر بڑے خلوص سے برتا اور اس سے مطلوبہ مقصد حاصل بھی کیا مگر اس سے زیادہ کامیابی انھیں اس طور پر حاصل ہوئی کہ ان کی قیادت میں ہندوستان کی تحریک آزادی عدم تشدد ہی کے راستے سے دھیرے دھیرے کر کے کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ یہ رستہ لمبا ہے اور بہت صبر آزما۔ تشدد کا راستہ تاثر تو یہی دیتا ہے کہ مقصد بس اب حاصل ہوا لیکن ہوتا یہی آیا ہے کہ عین اس وقت جب لگتا ہے کہ لب بام بس دوچار ہاتھ پر ہے کمند ٹوٹ جاتی ہے۔

خیر یہ بحث لمبی ہے۔ مطلب تو یہ ہے کہ استنبول کے تقسیم اسکوائر سے جو ابال اٹھا ہے وہ کچھ الگ رنگ کا ہے۔ تشدد کا رنگ پکڑتے پکڑتے اس ابال نے ایک اور ہی رنگ پکڑ لیا۔ بہر حال ابھی تو ابتدائے عشق ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ بات درختوں سے چلی تھی۔ درخت نظروں سے اوجھل نہیں ہونے چاہئیں۔ سو باتوں کی ایک بات ع

پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔