بھارتی پتھر

محمد ابراہیم عزمی ایڈووکیٹ  پير 1 جولائی 2013
03332257239@hotmail.com

[email protected]

پولیس والوں نے دیکھا کہ گلی کے کونے پر چار نوجوان بیٹھے ہیں۔ وین قریب آئی تو اندازہ ہوا کہ وہ جوا کھیل رہے ہیں۔ پولیس چاروں کو پکڑ کر تھانے لے آئی۔ انسپکٹر نے دھمکی دی کہ ایسا پرچہ کٹے گا کہ نانی یاد آجائے گی۔ تھوڑی دیر ہوئی تو پتہ چلا کہ ایک نوجوان کسی ڈی ایس پی کا بیٹا ہے جسے چھوڑ دیا گیا۔ ایک گھنٹے بعد اسمبلی کے ممبر کا فون آیا تو پولیس نے دوسرے کو بھی رہا کردیا۔ ابھی رات کا زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ ایک تاجر شاندار گاڑی میں تھانے آیا۔ تھوڑی دیر بعد تیسرا نوجوان بھی اپنے چچا کی کار میں بیٹھتا ہوا نظر آیا۔

اب صرف ایک نوجوان رہ گیا تھا۔ وہ نہ کسی پولیس والے کا بیٹا تھا نہ کسی اسمبلی کے ممبر کا بھانجا اور نہ ہی کسی تاجر کا بھتیجا۔ انسپکٹر نے اسے دھمکی دی کہ بچو! اب تو نہیں بچ سکتا۔ تجھ پر جوا کھیلنے کی ایسی ایف آئی آر درج کروں گا کہ ضمانت بھی مشکل سے ہوسکے گی۔ نوجوان مسکرایا اور اس نے انسپکٹر کی طرف دیکھ کر کہا کہ تم میرے تین ساتھیوں کو تو چھوڑ چکے ہو کہ وہ تینوں بڑے گھرانوں کے لڑکے تھے۔ اب مجھ پر پرچہ درج کرنے کی بات کرتے ہو۔ سر! یہ تو بتاؤ کہ میں جوا کس کے ساتھ کھیل رہا تھا؟ کوئی اکیلے بھی کبھی جوا کھیلتا ہے؟ یہ عقل کی بات سن کر انسپکٹر نے اپنے ماتحت سے کہا کہ اسے بھی جانے دو۔

نواز شریف نے یہ واقعہ پڑھا ہوتا تو وہ کبھی بھی پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ اس انداز میں درج نہ کرواتے۔ نومبر 2007 کے واقعے کا تن تنہا ذمے دار سابق صدر کو قرار نہ دیتے۔ جنرل کے ساتھی کہہ چکے ہیں کہ اگر پرویز مشرف کا کوئی ساتھ نہ دیتا تو ان کے احکامات کی حیثیت شاعری کی سی ہوتی۔ یہ بھاری پتھر صدر آصف علی زرداری نے چوم کر رکھ دیا تھا۔ اگر نواز حکومت نے اس مشکل کام کا فیصلہ کیا ہے تو بات مشرف تک نہیں رکے گی۔ یہ سلسلہ جی ایچ کیو اور سپریم کورٹ تک جائے گا۔ پرویز مشرف کے وکلاء کو نازک معاملات کو چھیڑنے سے نہیں روکا جاسکے گا۔ پھر بات نواز حکومت کے خاتمے تک آئے گی کہ کن کن جج صاحبان نے ظفر علی شاہ کیس میں مشرف حکومت کو تین سال کی مہلت دی تھی۔

وہ کون تھے جنہوں نے ایک جنرل کو آئین میں ترمیم کا اختیار دیا تھا، وہ اختیار جو اس نے مانگا بھی نہ تھا۔ بات جنرل ضیا کے مارشل لاء اور انتخابی دھاندلیوں پر جائے گی۔ جنرل جیلانی کی کابینہ میں پنجاب کے وزیر خزانہ کا ذکر بھی ہوگا۔ بات یحییٰ خان کے مقدمے کی ہوگی کہ کس طرح ایک جنرل کی رخصتی کے بعد اس کو غاصب قرار دیا گیا۔ کہا جائے گا کہ عدالتیں جنرل کی قسمت کا فیصلہ کرنے سے پہلے اس کے نام کے ساتھ ریٹائرڈ کا لفظ ہونے یا نہ ہونے کو زیادہ اہمیت دیتی ہیں۔ بات ایوب خان کے مارشل لاء تک جائے گی کہ کس طرح ایک سویلین ذوالفقار علی بھٹو ان کی کابینہ کے رکن تھے۔ وہ گڑے مردے اکھیڑیں گے جو پاکستانی سیاست اورعدالت نے پہلے کبھی نہ دیکھے ہوں گے۔

پرویز مشرف کے وکلاء یقیناً شریف اور بھٹو فیملی کو تنقید کا نشانہ بنائیں گے کہ کس طرح ان دونوں خاندانوں کے افراد نے ایوب اور ضیاء کے مارشل لاء کا ساتھ دیا۔ کس طرح آٹھ آٹھ سال تک اقتدار کے ایوانوں کے مزے لوٹتے رہے۔ کس طرح بھٹو اور شریف خاندان نے فوجی جنرلوں، سیاسی گھرانوں، صنعتکاروں اور افسروں، جاگیرداروں سے اپنے تعلقات کو آمروں کی سرپرستی میں بہتر بنایا۔ نواز شریف اور ان کی ٹیم نے ضرور سوچا ہوگا کہ بات ایک فرد تک نہیں رکے گی۔ آج کے سیاستدان، جنرلز، ججز، صحافی اس کی لپیٹ میں آجائیں گے۔ کیا پاکستانی سیاست اس نازک وقت میں اس بوجھ کو برداشت کرسکے گی؟ ایک الزام یہ بھی لگے گا کہ صرف پرویز مشرف کو نشانہ بناکر نواز شریف انتقام لینا چاہتے ہیں۔

اقتدار سے بے دخلی، جلاوطنی اور توہین کا بدلہ جو وزیراعظم کے ساتھ روا رکھی گئی۔ اکیلے مشرف پر مقدمہ دائر کرنا اور وہ بھی 2007 کی ایمرجنسی پلس کے خلاف ان شبہات کو جنم دے رہا ہے۔ وہ شبہات جو دو شخصیات کے مابین تصادم کے باعث جنم لے رہے ہیں۔ اس کی کہانی کہاں سے شروع ہوتی ہے؟ آج کے چوبیس پچیس سال کے لوگ نواز مشرف کشمکش کے دور میں بچے ہوں گے۔ نوجوانوں کی دلچسپی اور بڑوں کی یاد دہانی کے لیے ہم مختصراً اس ٹکراؤ کو بیان کر رہے ہیں جو آج آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کا باعث بنا ہے۔ یہ کہانی نیول بیس سے شروع ہوتی ہے جہاں ایک آرمی چیف خطاب کر رہے تھے۔

جنرل جہانگیر کرامت چیف آف آرمی اسٹاف تھے۔ انھوں نے نیوی کے افسران سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل سیکیورٹی کونسل بننی چاہیے جس میں فوج کے چار بڑے بھی شامل ہوں۔ یہ بات طاقتور وزیراعظم نواز شریف کو بری لگی۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ اور صدر فاروق لغاری کو شکست دینے والے وزیراعظم نے آرمی چیف سے استعفیٰ طلب کرلیا۔ اب قرعہ فال جنرل پرویز مشرف کے نام نکالا۔ منگلا کے کور کمانڈر کو فوج کی کمان سونپی گئی۔ حالات بہتر چل رہے تھے کہ کارگل کا واقعہ پیش آگیا۔ دونوں ایک دوسرے پر الزامات لگاتے ہیں۔ اس تلخی کو میاں شریف نے کم کرنے کی کوشش کی لیکن شاید کچھ مشورے باہم نہ تھے اس لیے دلوں کی رنجشیں بڑھتی رہیں۔ جنرل مشرف سری لنکا سے واپسی کے لیے طیارے میں بیٹھ چکے تھے۔ یہ 12 اکتوبر 99 کی بات ہے۔ چار بجے پاکستان ٹیلی ویژن نے جنرل مشرف کی برطرفی اور جنرل ضیاالدین بٹ کی تقرری کا اعلان کیا۔

اکلوتے ٹی وی نے پانچ بجے کی خبروں میں وزیراعظم نواز شریف کو نئے آرمی چیف کو بیجز لگاتے ہوئے دکھایا۔ مشرف کے ساتھیوں نے جنرل بٹ کو جی ایچ کیو کا چارج نہ دیا۔ چھ بجے کشمکش شروع ہوگئی۔ جب مشرف کے طیارے کو کراچی ایئرپورٹ نہ اترنے دیا گیا تو کراچی، پنڈی اور لاہور کے کورکمانڈرز نے وزیراعظم کو سات بجے گرفتار کرکے اہم تنصیبات پر قبضہ کرلیا۔ مارشل لاء لگ گیا اور جنرل مشرف چیف ایگزیکٹو کہلائے۔ چودہ ماہ قید اور ہائی جیکنگ کے مقدمے میں سزا کے بعد نواز شریف جدہ میں جلاوطن کردیے گئے۔ شریف برادران کو پاکستان آنے سے روکنے کے لیے توہین آمیز رویہ اختیار کیا گیا۔ بے نظیر کی پاکستان آمد نے نواز شریف کا راستہ صاف کردیا۔ 2007 کے آخر میں مشرف آرمی کمان چھوڑ چکے تھے۔ پہلے انھیں اقتدار اور پھر پانچ سال کے لیے ملک چھوڑنا پڑا۔ انتخابات سے قبل جنرل مشرف پاکستان آئے وہ انتخاب تو نہ لڑسکے البتہ قید ہوگئے اور اب مقدموں کا سامنا کر رہے ہیں۔

یہ ہے کہانی دو شخصیات کے ٹکراؤ کی۔ جون 99 میں کارگل جھگڑے سے شروع ہونے والی کہانی چودہ سال مکمل کرچکی ہے۔ تخت اور تختے کی لڑائی لڑنے والی شخصیات یہاں سے وہاں ہوچکی ہیں۔ نواز شریف نے پہلے ہی ماہ بھاری پتھر اٹھالیا ہے جسے پنڈورا باکس کھولنا کہا جارہا ہے۔ آصف علی زرداری نے یہ پتھر مسکرا کر اور چوم کر رکھ دیا تھا۔ اب مورخ فیصلہ کرے گا کہ نواز شریف کا یہ فیصلہ کس قدر درست تھا؟ فیصلہ اٹھانے کا ایک بھاری پتھر۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔