وزیر اعظم کی پرامید باتیں

حکومت کو اپنی گورننس کی طرف توجہ دینی چاہیے


Editorial December 03, 2018
حکومت کو اپنی گورننس کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ فوٹو:فائل

وزیراعظم عمران خان نے ہفتے کے روز کولاہور میں پنجاب کی صوبائی کابینہ کے اراکین سے ملاقات کے دوران کہا کہ آج کا پاکستان بدلا ہوا پاکستان ہے، اب عوام میں پذیرائی کا پیمانہ انصاف کی فراہمی اور بہترطرز حکومت پر منحصر ہے، احساس اور رحم کے جذبات کے ساتھ محروم طبقے کے بارے میں سوچیں گے تو پاکستان ریاست مدینہ کی طرز پرمستحکم فلاحی ریاست بنے گا، منی لانڈرنگ کے لیے آئندہ ہفتے نیا قانون لارہے ہیں، دس ارب ڈالر کی سالانہ منی لانڈرنگ ہو رہی ہے' میری کٹے پالنے کی بات کوعجیب سمجھا گیا، دنیا بھر میں حلال گوشت کی مارکیٹ دوہزار ارب ڈالر ہے،بیرونی کمپنیاں یہاں سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہیں۔

پنجاب کابینہ کے اراکین نے وزیراعظم عمران خان کو متعلقہ وزارتوں کی کارکردگی اور مستقبل کے حوالے سے جامع اور مربوط روڈمیپ کے حوالے سے آگاہ کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ آپ لوگوںکی کارکردگی کا اعتراف اس وقت ہو گا جب عام آدمی کی زندگی میں واضح اور نمایاں بہتری آئے گی، اس وقت پاکستان میں سٹیٹس کو اور agents of change کی واضح تقسیم ہے، ان دونوں کے درمیان ہر روز مقابلہ جاری ہے، سٹیٹس کوکی سیاسی کلاس جمہوریت بچانے کے نام پر اپنی چوری چھپانا چاہتی ہے، آپ نے بحیثیت agents of change اپنی ذمے داری کو بھرپور طریقے سے نبھانا ہے۔ انھوں نے کہا 30 سال کے بعد پنجاب میں بہت بڑی تبدیلی آئی ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے جو باتیں کی ہیں، ان کا اظہار وہ ماضی میں بھی کرتے رہے ہیں لہذا انھوں نے کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں کی ہے ، اصولی اور عملی لحاظ سے وہ درست باتیں کررہے ہیں لیکن اصل مسئلہ عمل اور تعبیر کا ہے۔جب تک عملی صورت سامنے نہیں آتیں ، یہ باتیں وعظ وتلقین کے سوا کچھ نہیں۔ تحریک انصاف ملکی نظام میں تبدیلی اور کرپشن کے خاتمے کے ایجنڈے پر برسراقتدار آئی' اس کی حکومت کو آئے سو دن گزر چکے ہیں، حکومت نے اپنے پہلے سو دن کے لیے کچھ اہداف بھی دیے تھے۔ اس عرصے کے دوران بقول وزیراعظم تبدیلی کا آغاز ہو چکا ہے اور آج پہلے کی نسبت بدلا ہوا پاکستان نظر آ رہا ہے۔

موجودہ حالات کا سابق حکومتوں کی کارکردگی سے موازنہ کیا جائے تو شاید حکمرانوں کے نزدیک تبدیلی کا عمل شروع ہو چکا ہو لیکن نچلی سطح پر جب عام آدمی کے حالات کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو بہتری کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے' مہنگائی میں کئی گنا اضافہ ہونے سے عام آدمی کے لیے اپنی آمدن اور اخراجات میں توازن برقرار رکھنا مشکل ہو چکا ہے۔ بے روزگاری کی شرح تحریک انصاف کے پہلے سو دن میں ہی خاصی بڑی ہے۔روز مرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات روز مرہ اشیا کی قیمتوں اور ٹرانسپورٹ کے کرایوں پر مرتب ہوئے ہیں اور اب گیس کی قیمتوں میں اضافے کی تیاریاں نظر آ رہی ہیں' اطلاعات کے مطابق گیس صارفین پر 91ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالا جائے گا۔ گیس مہنگی کرنے کے لیے اوگرا کو درخواست بھی کر دی گئی ہے۔

جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ مالی سال2018-19ء کے لیے 91ارب روپے کا شارٹ فال ہے جسے پورا کرنے کے لیے گیس کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دی جائے۔ اگر گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو پھر مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا۔جس تیزی سے مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے، عام آدمی کے پاس اب رہا ہی کیا ہے کہ وہ گیس کی قیمتوں میں اضافے کے بوجھ کو سہار سکے۔ ابھی تک حکومت تجارتی اور معاشی پالیسی کے خدوخال بھی واضح نہیں کر سکی کہ اس حوالے سے مستقبل میں وہ کیا کرنا چاہتی ہے' صرف بیانات اور بلند بانگ دعوؤں پر ترقی کا سفر طے کیا جا رہا ہے۔اس سے عوام کو کچھ نہیں ملے گا بلکہ عوام کی نظروں میں حکومت کی ساکھ متاثر ہو گی اور عوام یہ سمجھیں گے کہ حکومت عوام کے مسائل حل کرنے کے قابل نہیں ہے۔ اس لیے حکومت کو اپنی گورننس کی طرف توجہ دینی چاہیے۔

وزیراعظم نے اشیا کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کا نوٹس لیتے ہوئے وزراء کو ہدایت کی کہ قیمتوں میں اضافے کی وجوہات کی نشاندہی کر کے ذمے داران کے خلاف فوری ایکشن لیا جائے۔ اگر وزراء مہنگائی کنٹرول کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو یہ بہت بڑی کامیابی ہو گی جس سے عام آدمی کو فائدہ پہنچے گا لیکن اب تک کی صورت حال دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ معاملہ ہدایت سے آگے نہیں بڑھ پائے گا۔ ویسے بھی انتظامی اقدامات سے مہنگائی کبھی کنٹرول نہیں ہوتی۔اس کے لیے مربوط معاشی پالیسی کی ضرورت ہوتی ہے جو پوری معیشت کو ساتھ لے کر چلے ۔جب معیشت کے تمام شعبے ترقی کرتے ہیں تو مہنگائی بھی کنٹرول میں رہتی ہے، روزگار کے مواقع بھی ایک ہی رفتار سے سامنے آتے رہتے ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں اسی وجہ سے استحکام رہتا ہے کہ وہاں معیشت کے تمام شعبے یکساں رفتار سے چلتے رہتے ہیں ۔پاکستان میں اس وقت صورت حال یہ ہے کہ تعمیرات کا شعبہ بھی پوری طرح کام نہیں کر رہا' ریئل سٹیٹ کا کاروبار بھی ٹھپ پڑا ہے۔

دیگر کاروباری حلقے بھی مایوسی کا شکار ہیں ۔ سرکاری ادارے مختلف قوانین کا سہارا لے کر کاروباری لوگوں کو پریشان کر رہے ہیں اور انھیں آئے روز عدالتوں اور کچہریوں کے چکروں میں ڈالا جا رہا ہے جب کہ اختیارات سے تجاوز کرنے والے سرکاری افسروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنا انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔بہرحال باتوں سے یہی لگتا ہے کہ وزیراعظم ملک کے مسائل حل کرنے کے لیے ذاتی طور پر خاصے سنجیدہ ہیں اور وہ دل سے چاہتے ہیں کہ غریب عوام کے مسائل حل ہوں اور ملک ترقی کرے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ملائیشیا کے دورے سے پتہ چلا کہ حلال میٹ مارکیٹ کتنی وسیع ہے اور اس کا حجم 2ہزار ارب ڈالر ہے لیکن اس میں پاکستان کا شیئر نہ ہونے کے برابر ہے' انھوں نے کہا کہ ملائیشیا کے سرمایہ کار پاکستان میں حلال گوشت میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں لیکن یہاں اسٹینڈرائزیشن نہیں ہے۔ عالمی سطح پر ہونے والی تجارت میں پاکستان کا شیئر تو کہیں بھی دکھائی نہیں دیتا' وزیراعظم اگر معاشی پالیسیاں بہتر بنانے ، سرمایہ کاری کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے اور جدید ٹیکنالوجی کا حامل معیاری نظام لانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس سے یقیناً پاکستان میں ملکی اور غیرملکی سرمایہ کاری میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔ وزیراعظم نے لاہور چیمبر آف کامرس کے وفد سے بھی گفتگو کرتے ہوئے انھیں یقین دلایا کہ ملک کی معیشت بہتر بنانے کے لیے حکومت اقدامات کر رہی ہے۔

اگر حکومت منی لانڈرنگ ختم کرنے' بیمار صنعتوں کو بحال کرنے اور ایکسپورٹ بڑھانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یقیناً ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔ معیشت کو بہتر کرنے کے لیے حکومت کو پہلے تو توانائی کے مختلف ذرائع سستے کرنے ہوں گے یعنی بجلی 'گیس'پٹرولیم مصنوعات 'لکڑی اور کوئلہ وغیرہ سستے کیے جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف قسم کے کاروباروں کے لیے ایکسائز ڈیوٹی اور دیگر ٹیکسوں میں رعایت دی جائے ' اس طریقے سے مینوفیکچررز کی پیداواری لاگت کم ہو گی اور وہ مارکیٹ میں اپنی مصنوعات کو کم قیمت پر متعارف کرانے کے قابل ہو سکیں گے۔ حکومت اگر ایسی رعایتیں دیتی ہے تو کاروباری طبقہ زیادہ سے زیادہ صنعتی یونٹ لگائے گا جس سے بیروز گاری میں بھی کمی ہو گی اور لوگوں کی آمدنی میں بھی اضافہ ہو گا۔ محض باتوں سے معیشت ترقی نہیں کرے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں