’’دھندلے دھندلے سائے‘‘ اور ’’بستی بستی روشن تھی‘‘

رفیع الزمان زبیری  پير 3 دسمبر 2018

ایم اے عثمانی نے کچھ مضامین لکھے،کچھ خیالی اورکچھ نیم خیالی شخصی خاکے۔ ان کے یہ مضامین اور خاکے جریدوں میں شایع ہوئے اور بہت پسند کیے گئے۔ وہ لکھتے ہیں ’’ان میں کئی مضامین ایسے ہیں جنھیں میں نے اپنی دفتری اور تدریسی مصروفیات کے دوران لکھا ہے۔ لکھتے لکھتے میں قلم رکھ کر انتظامی گتھیاں سلجھانے میں لگ جاتا تھا اور جوں ہی فارغ ہوکر قلم اٹھاتا تھا سلسلۂ بیان اسی طرح رواں ہو جاتا تھا جیسے نہ کوئی انقطاع ہوا نہ مداخلت۔ دوران تحریر پیریڈ کی گھنٹی بجتی تھی اور میں قلم رکھ کر اپنے طلبا کو درس دینے دوسری منزل پر چلا جاتا تھا۔ پیریڈ کے بعد پورے اسکول کا دورہ کرتا تھا، کبھی کامن روم میں جا گھستا اور کبھی اپنے رفقائے کار سے گپ شپ لگانے لگتا تھا لیکن جب دوبارہ لکھنے بیٹھتا تو مضمون کا ربط خود بخود جڑتا چلا جاتا تھا۔ میں نے کئی بار اپنے آپ کو چشم تصور میں اس ماہرآثار قدیمہ کی طرح دیکھا جو پومپی آئی کے دفن شدہ شہر کے کسی گوشے کو آتش فشاں کوہ وسوولیس کی جمع ہوئی صدہا برس کی پرانی راکھ کی تہوں سے انتہائی محبت اور عرق ریزی سے نقش نقش کرکے برآمد کر رہا ہو۔ ہر مضمون بلکہ ہر واقعے کے مکمل ہوجانے کے بعد مجھے ایسی طمانیت اور ایسی انوکھی خوشی محسوس ہوتی تھی جیسے ایک ماہر آثار قدیمہ کو کسی نقش یا کسی مجسمے کی بازیابی پر ہوتی ہوگی۔‘‘

عثمانی کے مضامین اور خاکوں کے دونوں مجموعوں کو ’’دھندلے دھندلے سائے‘‘ اور ’’بستی بسی روشن تھی‘‘ کے عنوان سے مرتب و مدون کرکے راشد اشرف نے ایک کتاب میں شایع کیا ہے جو زندہ کتابوں کے سلسلے کی کتاب ہے۔

عثمانی کہتے ہیں کہ ان کے خاکے خصوصاً وہ جن میں نام کے بجائے عرفی حوالے استعمال کیے گئے ہیں جیسے نواب صاحب، پیر جی، نمبردار یا قاضی جی وغیرہ افراد نہیں ہیں یہ اقدار ہیں یا ایک معاشرتی دورکے دھندلائے ہوئے نقوش ہیں یا مجلسی روایات ہیں یا یوں سمجھ لیجیے کہ ایک مصور یا مجسمہ ساز جب کوئی تصویر بنانا چاہتا ہے تو اپنے لیے ایک ماڈل یعنی جیتے جاگتے انسان کو تلاش کرتا ہے جس میں ان خصائص کی جھلک نظر آتی ہے جو وہ نمایاں کرنا چاہتا ہے۔ مصنف بھی دوسرے فنکاروں کی طرح ماڈل پر انحصار کیے بغیر جیتے جاگتے کردار تشکیل نہیں دے سکتا۔

ان کا تعلق پانی پت سے تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ بچپن میں قرآن حفظ کیا تو حافظے میں غیر معمولی صلاحیت پیدا ہو گئی۔ اسی عمر میں افسانوی ادب سے شغف پیدا ہوا، میٹرک تک الف لیلیٰ سے احمد ندیم قاسمی تک سب پڑھ ڈالا ، بی اے میں انگریزی میں انشائیہ کا چسکا پڑا ۔ اسکول میں عربی کو اختیاری مضمون کے طور پر پڑھا۔ جب اردو اور عربی ادب سے مناسبت پیدا ہوگئی تو فارسی کا کلاسیکل ادب کچھ خود بخود آگیا۔ ماں باپ سے ٹکسالی زبان سیکھی۔

ایم اے عثمانی کے خیالی خاکوں میں ایک خاکہ ’’خان بہادر صاحب‘‘ کا ہے۔ یہ حقیقی شخصیت کا خاکہ ہے۔ خان بہادر صاحب، عثمانی کے بہنوئی تھے۔ عثمانی کی بہن ان سے کوئی تیس سال بڑی تھیں اور ان سے ان کی محبت کا گہرا تعلق تھا۔ وہ لکھتے ہیں ’’کبھی کبھی باجی بچپن میں مجھے پریوں اور شہزادوں کی کہانیاں سنایا کرتی تھیں اور میں اپنی باجی کے لیے جو میری نظر میں پریوں سے بھی زیادہ حسین تھیں شہزادوں کے خواب دیکھا کرتا تھا۔ میں نے اپنے معصوم ذہن میں اپنے دلہا بھائی کا ہیولا بنانا شروع کردیا تھا۔ جس روز بارات آئی گھر میں مہمان بھرے تھے۔ بارات کہیں دور سے ٹرین کے ذریعے آرہی تھی۔

موسم بہت خوشگوار تھا۔ نہ گرمی تھی نہ سردی۔ میں اچھے اچھے کپڑے پہنے اس رونق اور ہنگامے کا جو حویلی میں برپا تھی مزہ لیتا دوڑتا پھر رہا تھا۔ میری اصل دلچسپی تو یہ تھی کہ دلہا بھائی کو دیکھوں۔ خدا خدا کرکے بارات آئی۔ میں حیران کھڑا سب کو دیکھ رہا تھا لیکن ان میں میرے خوابوں کا شہزادہ کوئی نہیں تھا۔ اتنے میں ابا جان میرے پاس آئے اور کہنے لگے، چلو تمہارے دلہا بھائی سے تمہیں ملواؤں۔ میں نے ان کی انگلی تھام لی اور انھوں نے مجھے لے جاکر درمیانے قد کے ایک صاحب کے سامنے کھڑا کردیا۔ ان کے چہرے پر سیاہ رنگ کی گول سی داڑھی تھی اور انھوں نے ہلکے پیازی یا شربتی رنگ کی اچکن پہنی ہوئی تھی۔ میں انھیں دیکھ کر مایوس ہوگیا اور چپ چاپ ابا جان کی انگلی تھامے واپس آگیا۔ باہر نکل کر میں نے کہا، میں تو اپنی باجی کی شادی داڑھی والے دلہا بھائی سے نہیں کروں گا۔ انھوں نے ہنس کر کہا تمہارے ابا بھی تو داڑھی والے ہیں۔ وہ تو یہ کہہ کر انتظامات میں مصروف ہوگئے اور میں بجھ گیا۔ بھلا میں انھیں کیسے بتاتا کہ اپنے ابا تو جیسے بھی ہوں اچھے ہی لگتے ہیں لیکن دلہا بھائی تو اپنی پسند کے ہونے چاہئیں۔‘‘

عثمانی صاحب کے یہ دلہا بھائی بڑے سرکاری افسر تھے۔ انھیں انگریزی حکومت سے خان بہادر کا خطاب ملا تھا۔ اپنی پہلی بیوی کا انتقال ہوجانے کے کئی سال بعد عثمانی کی بہن سے ان کی شادی ہوئی تھی۔ عثمانی صاحب لکھتے ہیں کہ وہ بہت صاف دل، سادہ مزاج، پاک باطن، فیاض اور محبت کرنے والے پرخلوص انسان تھے اور بہت جلد ہمارے خاندان میں ہر دل عزیز ہوگئے۔ اپنی دوسری کتاب ’’بستی بستی روشن تھی‘‘ کی تمہید میں محمد علی عثمانی لکھتے ہیں ’’میرے اساتذہ کا میرے ذمے ایک قرض تھا اور قرض کی ادائیگی فرض ہے سو ان مضامین کے ذریعے جو اس مجموعے میں شامل ہیں، میں نے یہ قرض اتارنے کی کوشش کی ہے۔ جب یہ مضامین شایع ہونا شروع ہوئے تو بعض بہت خوشگوار تجربات پیش آئے۔ گورنمنٹ کالج کے کئی قدیم طلبا نے اپنے اساتذہ کی ان قلمی تصاویر کو بلاتامل پہچان لیا بلکہ بعض احباب نے مجھے بھی پہچان لینے کا اقرارکیا۔‘‘

عثمانی کی ان قلمی تصاویر میں دو تصویریں قابل ذکر ہیں۔ ایک ڈاکٹر تاثیر کی اور دوسری ان کی والدہ مرحومہ کی۔ ماں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’اماں جان نے میری تعلیم اس وقت سے شروع کردی تھی جب میں نے بولنا شروع کیا تھا۔ وہ مجھے پاس لٹا لیتیں، قصے کہانیاں سناتیں اور ساتھ ساتھ کلمے اور چھوٹی چھوٹی دعائیں یاد کراتیں۔ مکتب جانے کے بعد بھی میری تعلیم کا بوجھ زیادہ تر اماں جان ہی پر رہا۔ وہ مجھے آموختہ یاد کراتیں، تلفظ درست کرتیں۔ وہ نہایت عابد اور پارسا خاتون تھیں، بڑی عبادت گزار۔ ایک منزل قرآن کریم کی تلاوت ان کا روزکا معمول تھا۔

رسول کریمؐ سے عشق تھا۔‘‘ڈاکٹر تاثیر کا ذکر کرتے ہوئے عثمانی صاحب لکھتے ہیں ’’مجھے تاثیر سے ایک قسم کا عشق تھا۔ جب بھی کوئی پیریڈ خالی ہوتا، یہ کوشش کرتا کہ تاثیرکو دیکھوں وہ کیا کر رہے ہیں۔ تاثیرکا حافظہ غضب کا تھا، ایک بار جو پڑھ لیا اور ایک مرتبہ جو سن لیا اس کا فراموش ہوجانا ناممکن تھا اور شاید یہی ان کی کامیاب زندگی کا راز ہے جسکی شکل دیکھ لی، ہمیشہ یاد رہی۔ تاثیر کو زندگی سے محبت تھی، ہنستی کھیلتی زندگی سے اور ظاہر ہے کہ زندگی ان کے دفتر کی اداس تنہائیوں میں نہیں تھی بلکہ کالج کے برآمدوں میں اس کونے سے اس کونے تک طلبا کی ٹولیوں میں بکھری پڑی تھی۔‘‘

کالج کے ایک مشاعرے کا ذکرکرتے ہوئے عثمانی صاحب لکھتے ہیں ’’محفل میں نشست فرشی تھی۔ چاندنی بچھی تھی، گاؤ تکیے رکھے تھے۔ صدر میں میر مشاعرہ، دائیں بائیں مخصوص شعرا سامنے سامعین، صدرکے دائیں جانب کونے میں مستورات کی نشست۔ کچھ خود پسندی، کچھ جذبۂ افتخار کے تحت عرض کرتا ہوں کہ ایک نظم ’’ سرن کی وادی‘‘ میں نے بھی پڑھی مجھے فخر ہے تاثیر نے اسے پسند کیا اور ایک شعر کی اصلاح بھی وہیں بیٹھے بیٹھے کردی۔ محفل میں جب سب اپنے شعر سنا چکے تو تاثیر کی باری آئی۔ انھوں نے اپنی ایک پرانی غزل سنائی۔ اللہ اللہ کیا چیز تھی۔ میر مشاعرہ کا اصرار تھا کہ کوئی نئی غزل ہو۔ تاثیر نے پہلے انکارکیا اور جب اصرار زیادہ ہوا تو داغؔ کی زمین میں یہ غزل سنائی ۔

راہ رو راہِ محبت کا خدا حافظ ہے

اس میں دو چار بڑے سخت مقام آتے ہیں

داورِ حشر میرا نامۂ اعمال نہ دیکھ

اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔