اسٹاک ایکسچینج 18 شہروں میں آگہی مہم شروع کریگی

اے پی پی  پير 1 جولائی 2013
حیدرآباد، بدین، رحیم یار خان اور سکھر میں آگہی سیمینار منعقد کیے جائیں گے، شاہد علی۔ فوٹو: فائل

حیدرآباد، بدین، رحیم یار خان اور سکھر میں آگہی سیمینار منعقد کیے جائیں گے، شاہد علی۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: دس سال کے دوران ملک کی سب سے بڑی کراچی اسٹاک ایکسچینج 100 انڈیکس  نے اوسطاً سالانہ 34 فیصد کی شرح سے ترقی کی ہے۔

ماضی کی روایات سے ہٹ کر مقامی بروکیج کمپنیاں درمیانی آمدنی والے پاکستانیوں کو اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری پر راغب کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ کے ایس ای کے اقدام سے ملک میں سرمایہ کاری کو فروغ حاصل ہوگا۔ اس وقت دو لاکھ 50 ہزار پاکستانی اسٹاک مارکیٹ میںبراہ راست یا میوچل فنڈز کے ذریعے سرمایہ کاری کرتے ہیں جو مجموعی ملکی آبادی کا صرف 0.1 فیصد بنتا ہے جبکہ بھارت میں سرمایہ کاروں کی تعداد 18 ملین اور بنگلہ دیش میں 3.5 ملین افراد پر مشمل ہے۔ کے ایس ای کے جنرل منیجر پراڈکٹ ڈیولپمنٹ کا کہنا ہے کہ ملک کی اسٹاک مارکیٹس میں 85 فیصد سرمایہ کاروں کا تعلق کراچی جبکہ لاہور سے 12 فیصد اور اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے سرمایہ کاروں کا تناسب 3 فیصد کے قریب ہے۔

انہوں نے کہا کہ سرمایہ کاروں کے تناسب میں اضافہ اور ملک کے دیگر شہروں سے اسٹاک مارکیٹس میں سرمایہ کاری کے فروغ کیلیے کے ایس ای ملک کے 18 بڑے شہروں میں آگہی مہم شروع کرے گا اور آئندہ بارہ مہینوں کے دوران حیدرآباد ، بدین، رحیم یار خان اور سکھر میں بروکیج کمپنیوں کی معاونت سے آگہی سیمینار منعقد کیے جائیں گے۔ عارف حبیب لمیٹڈ کے سی ای او محمد شاہد علی نے کہا ہے کہ سرمایہ کاری کے فروغ کیلیے منعقدہ سیمینارز میں شرکت کرنے والے 99 فیصد سرمایہ کاری کی استطاعت رکھنے والے افراد کا کسی بھی اسٹاک مارکیٹ میں ٹریڈنگ اکائوٹینٹ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ دس برسوں کے دوران سیونگ اکائونٹس ، ٹریژری بلز اور سونے پر سالانہ بالترتیب 5،10 اور 16 فیصد کی شرح سے منافع حاصل ہوا ہے جبکہ کے ایس ای سے گزشتہ دس سال کے دوران سرمایہ کاروں کو اوسط 34 فیصد سالانہ نفع حاصل ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اوسط درجے کی آمدنی والے سرمایہ کار اتنی استطاعت رکھتے ہیں کہ اگر انہیں بہتر رہنمائی فراہم کی جائے اور بروکیج کمپنیاں انکو سرمایہ کاری پر راغب کرنے میںکامیاب ہو جائیں تو ہمیں غیر ملکی اور اداروں کی سرمایہ کاری کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔