- سیاسی نظریات کی نشان دہی کرنے والا اے آئی الگوردم
- خاتون ڈاکٹرز سے علاج کرانے والی خواتین میں موت کا خطرہ کم ہوتا ہے، تحقیق
- برطانیہ میں ایک فلیٹ اپنے انوکھے ڈیزائن کی وجہ سے وائرل
- فیصل واوڈا نے عدالتی نظام پر اہم سوالات اٹھا دیئے
- پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط 29 اپریل تک ملنے کا امکان
- امریکی اکیڈمی آف نیورولوجی نے پاکستانی پروفیسر کو ایڈووکیٹ آف دی ایئر ایوارڈ سے نواز دیا
- کوہلو میں خراب سیکیورٹی کے باعث ری پولنگ نہیں ہوسکی
- 9 ماہ کے دوران 9.8 ارب ڈالر کا قرض ملا، وزارت اقتصادی امور ڈویژن
- نارووال: بارات میں موبائل فونز سمیت قیمتی تحائف کی بارش
- کراچی کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے
- کوئٹہ: برلن بڈی بیئر چوری کے خدشے کے پیش نظر متبادل جگہ منتقل
- گجرات میں اسپتال کی چھت گرنے سے خاتون سمیت تین افراد جاں بحق
- سعودی فرمانروا طبی معائنے کیلیے اسپتال میں داخل
- امریکی سیکریٹری اسٹیٹ سرکاری دورے پر چین پہنچ گئے
- ہم یہاں اچھی کرکٹ کھیلنے آئے ہیں، جیت سے اعتماد ملا، مائیکل بریسویل
- پچھلے میچ کی غلطیوں سے سیکھ کر سیریز جیتنے کی کوشش کرینگے، بابراعظم
- امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی کا بل سینیٹ سے بھی منظور
- محمد رضوان اور عرفان خان کو نیوزی لینڈ کے خلاف آخری دو میچز میں آرام دینے کا فیصلہ
- کے ایم سی کا ٹریفک مسائل کو حل کرنے کیلئے انسداد تجاوزات مہم کا فیصلہ
- موٹروے پولیس اہلکار کو روندنے والی خاتون گرفتار
چھٹیاں: بچوں کو خود سے دور نہ کریں
بچوں کی چھٹیوں کا آغاز ہوتے ہی مائوں کی فکرات میں اضافہ ہو جاتا ہے کہ بچوں کو کس طرح مصروف رکھنا ہے کہ ان کی چھٹیاں اچھی اور بہ آسانی گزر جائیں۔
اس تعلیمی وقفے کے دوران ان کے معمولات میں کس طرح توازن رکھا جائے کہ وہ اپنے معمولات سے بالکل دور نہ ہو جائیں اور جب چھٹیاں ختم ہوں تو انہیں دوبارہ ان معمولات کو اپنانے میں دقت ہو۔
ماں کی گود کو پہلی درس گاہ کہا جاتا ہے، لیکن آج ایک ڈھائی برس کے بچے کی ماں بھی اس کی چھٹیوں کے دوران کسی ایسے ادارے کی تلاش میں نظر آتی ہے، جہاں وہ خود بھی بے فکر ہو جائے اور بچے کا وقت بھی اچھا گزر جائے، یعنی زمانے کی بدلتی ریت نے اسے ڈھائی سال کی عمر میں ہی اس سے دور کر دیا ہے اور اب جب ان ننھے بچوں کو چھٹیوں کے سہارے کچھ وقت گھر میں گزارنے کا موقع مل رہا ہے تو اسے بھی ’’سمر کیمپ‘‘ کے نام پر خود سے پرے دھکیل دیا جائے۔
کیا ہی اچھا ہو کہ اگر اس وقت کو غنیمت جان کر بچوں کی اس فرصت سے خوف زدہ ہونے کے بجائے اسے اپنی صلاحیت سے نبھانے کی کوشش کریں تو یہ بچے کی ذہنی وجذبانی نشونما کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوگا۔ ان دنوں میں تھوڑا سا وقت اور توجہ دے کر بچوںکی علمی استعداد بڑھانے کی طرف راغب کیا جا سکتا ہے۔ جو ان کی زندگی میں نہ صرف ایک نئے پن کا باعث ہوگا، بلکہ ان کی تعلیم وتربیت میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔
آج کل بچے مطالعے اور کتب بینی سے دور ہوگئے ہیں۔ اس میں خاصا دوش ان کے والدین کا بھی ہے۔ ان چھٹیوں میں آپ انہیں اس کا شوق دلا سکتی ہیں۔ انہیں کسی لائبریری کا دورہ کرائیں، اس کے بعد انہیں کتابوں کی دُکان پر لے جائیں۔ اس سے انہیں کتابوں سے رغبت پیدا ہوگی۔ وہ اپنے ذوق کے مطابق اچھی کتابوں کا انتخاب کرنا سیکھ جائیں گے اور اپنی فرصت کے وقت کتب خانے میں بِتانا پسند کریں گے۔ کتابوں سے رغبت پیدا کرنے کا مقصد یہ نہیں کہ آپ انہیں جدید ذرایع ابلاغ سے بالکل الگ کر ڈالیں، بلکہ انہیں کتابوں کے ساتھ انٹرنیٹ کے ذریعے بھی مثبت اور کار آمد چیزیں نکال کر دیں تاکہ ان کی مصروفیت پوری طرح کار آمد رہیں اور ان کے ذوق کی تسکین بھی ہو سکے۔
اس کے ساتھ انہیں ان دو مہینوں میں ان کے اپنے من کا کام بھی کرنے دیں۔ جو وہ کرنا چاہتے ہیں۔ اسے اپنی نگرانی میں بہتر اور مفید راستے سے تشفی کرائیں، تاکہ ان کے اندر چھپی خواہشیں اور تمنائیں بھی آسودہ ہو سکیں۔ یہ چیزیں ان کی نفسیاتی تسکین کے لیے ضروری ہے کیوں کہ وہ ہر وقت اسکول اور گھر میں اپنے بڑوں اور اساتذہ کے حکم کی تابع داری کرتے ہیں۔ اس طرح انہیں کُھل کر زندگی جینے کا موقع ملے گا اور پھر وہ زیادہ دل جمعی اور دل چسپی سے اپنی معمول کی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگیں گے۔
بچوں سے مختلف رشتے داروں کے ہم عمر بچوں کو خطوط لکھوائیں، کارڈ بنوائیں اور انہیں باقاعدہ پوسٹ کروائیں، تاکہ انہیں گفتگو اور تحریر کے فن سے آشنائی ہونے کے ساتھ رشتوں کی اہمیت کا بھی اندازہ ہو۔ ڈرائنگ اور پھر تصویر کہانی کے سلسلے بھی اس ضمن میں خاصے مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔
اسی طرح انہیں مختلف تاریخی مقامات کی سیر کرائی جا سکتی ہے۔ یہ جگہیں خالصتاً تفریحی ہونے کے ساتھ اگر تاریخی اہمیت کی حامل بھی ہوں تو یہ ایک پنتھ دو کاج والی بات ہوگی اور یہ سلسلہ تفریح کے ساتھ ان کی معلومات میں بھی اضافے کا باعث ہوگا۔ ساتھ ہی انہیں پیسے دے کر سودا سلف منگوانے اور اپنی من پسند اشیا کی خریداری کے لیے بھی بھیجیں۔ یہ امر ان میں احساس ذمہ داری پیدا کرنے کا باعث ہوگا۔ ساتھ ہی ان سے پھر خریدی ہوئی اشیا کا حساب لیں تاکہ انہیں ریاضی کی مشق بھی ہو جائے۔ اسی طرح وقت کی بہتر تنظیم کے لیے انہیں چھوٹی موٹی ذمہ داریاں سونپی جا سکتی ہیں۔ جس سے انہیں پتا چلے کہ کہیں جانا ہے تو راستے میں کتنا وقت سفر میں لگے گا اور بروقت پہنچنے کی تیاری کس طرح کرنی چاہیے۔ آپ بچوں کو جہاں بھی سیر و تفریح کے لیے لے جائیں۔ وہاں سے واپسی پر ان سے سفر کا احوال لکھنے کو کہیں۔ اگر وہ مصوری کا شوق رکھتے ہیں تو ان سے وہاں کی ڈرائنگ بھی بنوائی جا سکتی ہے۔ اس سے ان کا حافظہ اور چیزیں محفوظ کرنے کی صلاحیت بڑھے گی۔
اسی طرح بچوں کی انسانیت کی خدمت کرنے والے مختلف اداروں میں بھی لے جایا جا سکتا ہے۔ مثلاً ایدھی سینٹر اور ایس آئی یو ٹی وغیرہ۔ اس طرح ان میں ہم دَردی، مدد اور شکر گزاری کا جذبہ پیدا ہوگا۔ اسی طرح بچوں کو پودے لگا نے کی ترغیب دیں۔ ان کی کانٹ چھانٹ سکھائیں۔ ان کا خیال رکھنا سکھانا بھی ایک بہترین مشغلہ ہوسکتا ہے۔
ان تمام باتوں میں اس بات کا خیال رہے کہ ہر بچے کی عمر، ذہنی صلاحیت اور دل چسپیوں میں فرق ہوگا، لہٰذا اس کو مد نظر رکھتے ہوئے جو کام وہ زیادہ بہتر کر سکتے ہیں، وہی کام ان کے سپرد کیے جائیں، تاکہ وہ بور ہوں اور نہ ہی خود اعتمادی متاثر ہو۔ اس چھوٹی سی مشق سے نہ صرف بچے محظوظ ہو ں گے، بلکہ آپ کا اپنے بچوں کے ساتھ وقت بھی اچھا گزرے گا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔