امریکا، چین عارضی تجارتی سیز فائر

ایڈیٹوریل  منگل 4 دسمبر 2018
دنیا کی دو بڑی اقتصادی طاقتوں کی ٹریڈ وار میں کوئی فاتح نہیں بن سکتا۔ فوٹو: فائل

دنیا کی دو بڑی اقتصادی طاقتوں کی ٹریڈ وار میں کوئی فاتح نہیں بن سکتا۔ فوٹو: فائل

چین اور امریکا نے یکم جنوری سے 90 دنوں کے لیے کوئی نیا تجارتی محصول عائد نہ کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر اس مدت کے خاتمے کے بعد طرفین کسی معاہدے پر نہیں پہنچتے تو پھر محصول دس فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کر دیا جائے گا۔

چین اور امریکا کے مابین شدید تجارتی اور ٹیرف کشمکش کے تناظر میں حالیہ ڈیل کو عالمی اقتصادی اور تجارتی ماہرین عارضی ڈیل قراردیتے ہیں تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ دنیا کی دو بڑی اقتصادی طاقتوں کی ٹریڈ وار میں کوئی فاتح نہیں بن سکتا۔ میڈیا کے مطابق بیونس آئرس میں منعقدہ دنیا کے 20 مضبوط ترین معاشی ممالک کے اجلاس جی 20 کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چینی ہم منصب شی جن پنگ کے درمیان تقریباً ایک گھنٹے تک ملاقات ہوئی۔

ملاقات کے دوران دونوں رہنماؤں نے تجارتی تنازع پر بات چیت کی، ملاقات میں دونوں ملکوں کے اعلیٰ عہدیدار بھی شریک تھے۔ اس موقع پر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امید ہے امریکا اور چین جلد معاملات حل کر لیں گے، کچھ ایسا کرنے جا رہے ہیں جو دونوں ملکوں کے لیے اچھا ہوگا۔ چینی صدر نے کہا کہ تجارتی تنازع کا حل تلاش کرنے کی ذمے داری دونوں ممالک پر عائد ہوتی ہے، دو طرفہ تعاون سے ہی امن و خوشحالی ممکن ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ نے برسراقتدار آنے سے پہلے چین کے تجارتی طرز عمل کو نشانہ بنانا شروع کردیا تھا ، وہ اپنی انتخابی مہم میں چین پر نکتہ چینی اور امریکا چین ٹریڈ توازن کے حوالے سے چین کے خلاف کئی محاذ کھول چکے تھے، ٹرمپ کا کہنا تھا کہ چین نے عالمی اقتصادی نظام کو نقصان پہنچایا ہے، انٹلکچوئل پراپرٹی رائٹس ایکٹ کی خلاف ورزیوں کے ذریعہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے تجارتی مفادات پر حملے کیے گئے، ایک طرف چین نے طویل عرصہ تک تجارتی سسٹم کو ’’ابیوز‘‘ کیا، دانشورانہ حقوق اور ایکٹ کے خلاف ناجائز ذرائع استعمال کیے، صدر ٹرمپ چین کی تجارتی بالادستی کے حصول کی کوششوں پر سنگین الزامات بھی لگا چکے ہیں اور ان کی یہ نرالی دھمکی سب کو یاد ہے کہ وہ چین کو’’ فکس اپ‘‘ کردیں گے۔

تاہم چین نے امریکا کے الزامات کی سختی سے تردید کی، امریکا ٹریڈ وار اور ٹیرف پر زبردست کشمکش کے دوران ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کو ایک رسمی درخواست دیتے ہوئے یہ استدعا کرچکا ہے کہ چین اپنے دائرہ اختیار میں انٹلیکچوئل ملکیتی حقوق کے سرقے کا مرتکب ہوا ہے، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اگست 2017ء میں یہ موقف اختیار کیا کہ چین نے صدر شی جن پنگ حکومت نے ایسا قانونی لیور بھی استعمال کیا ہے جس کے تحت وہ دانشورانہ ملکیتی حقوق سمیت تجارتی پارٹنرز کے خلاف ناجائز ذرائع استعمال کرتے ہوئے امریکی مفادات کو ضرر پہنچا رہا ہے۔امریکا کا الزام ہے کہ امریکا اور اس کے حلیفوں کے تقریباً 600 بلین ڈالر سالانہ نقصان پہنچایا گیا جب کہ چین نے ان تمام الزاماتی پینڈورا باکس کو لاحاصل کوشش سے تعبیر کیا ہے۔

چین کا کہنا ہے کہ وہ عالمی منصفانہ تجارتی نظام کے حق میں ہے مگر کسی طاقت کو چین کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ یاد رہے ستمبر 2018 ء میں عالمی ماہرین تجارت اور ترقی یافتہ ملکوں نے اندیشہ ظاہر کیا تھا کہ اگر چین اور امریکا کے درمیاں ٹیرف ، تجا رتی مفادات کے تحفظ کے لیے آپس کی کشیدگی ختم نہ ہوئی تو دنیا کے کمزور ممالک ناقابل تلافی نقصان سے دوچار ہوجائیں گے، ماہر اقتصادی پنڈت کہتے رہے کہ ٹریڈ وار کے خاتمہ کے جلد کوئی امکانات نہیں ہیں، تاہم اگلے روز ٹرمپ اور چینی صدر کے مابین جو ڈیل ہوئی ہے اس سے دنیا نے سکھ کا سانس لیا ہے۔

چین نے صبروتحمل کا مظاہرہ کیا ہے ، چین کے تجاری ذرائع اور حلیفوں کا کہنا ہے کہ امریکا اور چین تجارتی معاملات کا حجم غیر معمولی ہے، چین ایک نئی اقتصادی طاقت بن کر ابھر رہا ہے ،اس کی تجارتی پالیسیاں شفاف ہیں جب کہ امریکا چین کی ہمہ گیر ترقی سے خائف ہے اور اس کے تجارتی مفادات کی تحدید کے نت نئے بہانے ڈھونڈ رہا ہے۔

بہرحال چینی سرکاری میڈیا نے سربراہی اجلاس کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ بیونس آئرس میں دونوں ممالک کے صدور کے درمیان ہونے والی ملاقات میں یکم جنوری کے بعد کوئی نیا ٹریڈ ٹیرف عائد نہ کرنے پر اتفاق ہوا۔ دوسری جانب وائٹ ہاؤس نے ڈونلڈ ٹرمپ اور شی جن پنگ کی ملاقات کے نتائج پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

یاد رہے کہ امریکی صدر نے یکم جنوری 2019 سے چین کی 200 ارب ڈالر کی درآمدات پر ٹیرف 10 سے بڑھا کر 25 فیصد کرنے کی دھمکی دی تھی۔ صنعتی ممالک کے گروپ جی ٹوئنٹی کا سالانہ اجلاس ختم ہوگیا ہے۔ امریکی صدر کی ضد کے باعث اعلامیے کے بجائے مشترکہ بیان جاری کیا گیا۔ادھر مبصرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں آزاد تجارت بین المملکتی مساوات کے لیے ناگزیر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔