جدید دنیا کے تقاضے
دنیا میں جتنی برائیاں جتنی تباہیاں دیکھی جاتی ہیں اس کی بنیادی وجہ انسان کی مختلف حوالوں سے تقسیم ہے۔
ISLAMABAD:
یہ کرہ ارض پر رہنے والے انسان کا کتنا بڑا المیہ کتنی بڑی نااہلی ہے کہ وہ جس دنیا میں رہتا ہے اس کے بارے میں یا تو کچھ نہیں جانتا یا پھر جانتا ہے تو بس اتنا جانتا ہے کہ دنیا گول ہے۔ اسے اس حوالے سے اتنا معلوم ہے کہ سورج مشرق سے نکلتا ہے اور مغرب میں غروب ہو جاتا ہے۔ اسے بس اتنا معلوم ہے کہ سورج نکلتا ہے تو دن ہوتا ہے سورج غروب ہوتا ہے تو رات ہوتی ہے۔ اسے یہ بالکل معلوم نہیں کہ سورج گردش نہیں کرتا، صرف گردش کرتا نظر آتا ہے۔
ہماری زمین سورج کے گرد گردش کرتی ہے اس کا جو حصہ سورج کے سامنے آتا ہے وہاں دن ہوتا ہے اور جو حصہ سورج کے سامنے نہیں رہتا وہاں رات ہوتی ہے، اسے یہ تو معلوم ہے کہ دنیا میں بے شمار نظریے اور مذاہب ہیں لیکن اسے اس بات کا ادراک نہیں کہ انسانوں کی تقسیم کے کیا فائدے ہیں اور کیا نقصانات ہیں۔
دنیا یعنی کرہ ارض پر رہنے والا انسان کس کس طرح تقسیم ہے اور اس تقسیم میں اس کا دخل ہے؟ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ہمیشہ انسانی مسائل پر لکھنے والا کالم نگار آج سورج زمین جیسے مسائل کے ساتھ انسانوں کی تقسیم پر کیوں بات کر رہا ہے؟ کرہ ارض پر گفتگو کا خیال اس لیے آیا کہ ہمارے ذہن میں یہ بات پتھرکی لکیر کی طرح بیٹھ گئی ہے کہ دنیا میں جتنی برائیاں جتنی تباہیاں دیکھی جاتی ہیں اس کی بنیادی وجہ انسان کی مختلف حوالوں سے تقسیم ہے۔
ان تقسیموں میں سب سے بڑی سب سے خطرناک تقسیم مذہبی تقسیم ہے ہزاروں سال پر مبنی اس تقسیم نے دنیا کی تاریخ میں جتنا خون بہایا شاید کسی تقسیم نے اتنا خون نہیں بہایا۔ اس تقسیم یعنی مذہبی تقسیم میں کسی مذہب کا بذات خود کوئی دخل نہیں، بس انسان نے مذہب کے نام پر نہ صرف انسانوں کا خون بہایا بلکہ انسانوں کے درمیان نفرتیں تعصبات پھیلا کر خون خرابے کے لیے راہ ہموار کی۔ دنیا میں مذاہب کی جڑیں ہزاروں سال گہری ہیں۔ یہ جڑیں انسانوں کے ذہنوں میں بھی اتنی ہی گہری ہیں۔
خدا نے خود کو رب العالمین یعنی سارے عالموں کا رب کہا ہے۔ انسانوں کے جد امجد حضرت آدم علیہ السلام ہیں۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اربوں انسان حضرت آدم ہی کی اولاد ہے۔ دنیا میں دو عالمی جنگوں کے بعد انسانی جانوں کا سب سے بڑا نقصان مذہب کے نام پر کیا گیا۔ صلیبی جنگوں سے لے کر 1947ء کی تقسیم ہند میں کہا جاتا ہے، 22 لاکھ انسان انتہائی بیدردی سے مارے گئے۔ یہ ظلم مذہب نے نہیں کیا بلکہ مذہب کے نام پر انسان نما حیوانوں نے کیا۔ فلسطین میں اور کشمیر میں مذہب کے نام پر لاکھوں انسانوں کی جانیں لی گئیں اور لی جا رہی ہیں۔
قتل و غارت کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ دنیا کے وہ انسان جو انسانی خون کی اس ارزانی سے سخت رنجیدہ ہیں وہ سوچتے رہتے ہیں کہ مذاہب کو انسانوں کا دشمن بناکر نفرتوں کی آبیاری میں کیا وہ مذاہب کو انسان دوستی امن و محبت اور بھائی چارے کے لیے استعمال نہیں کر سکتے؟ یہ کام مفکروں دانشوروں ادیبوں کا ہے۔ کیا یہ لوگ انسانوں کے درمیان محبت، اخوت، بھائی چارہ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ کیا مذہبی رہنما مذہب کو انسانوں کے درمیان محبت اور بھائی چارہ پیدا کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں، اگر نہیں کر رہے ہیں تو کیوں نہیں کر رہے ہیں؟ دنیا کے ہر مذہب میں ایسے لوگ موجود ہیں، جو انسانوں کے درمیان تعصبات، نفرتوں، خون خرابے سے رنجیدہ رہتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ انسانوں کے درمیان نفرت کی جگہ محبت، تعصب کی جگہ بھائی چارہ پیدا ہو۔ اس حوالے سے ادیب، شاعر، فنکار اہم اور موثر کردار ادا کرسکتے ہیں۔
1947ء میں جب انسان نما شیطان مذہب کے نام پر ایک دوسرے کا خون بہا رہے تھے، حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کر کے ماؤں کے پیٹ میں پلنے والے بچوں تک کو پیٹ سے نکال کر قتل کیا۔ حیوانیت کے اس دور میں ادیبوں، شاعروں، مفکروں، دانشوروں نے ان حیوانوں کی حیوانیت کے خلاف لکھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نفرتوں کی آگ ٹھنڈی پڑ گئی۔ آج کشمیر اور فلسطین میں یہ آگ جل رہی ہے اور بے گناہ انسان اس آگ میں جل رہے ہیں اور دنیا بھر میں جنگوں کی آگ بھڑکانے والے وہ شیطان ہیں جو انسانوں کی تقسیم چاہتے ہیں جو اپنا اسلحہ غریب اور پسماندہ ملکوں کو بیچ کر اربوں ڈالر کمانا چاہتے ہیں۔ ان انسان دشمنوں کی ایک ہی خواہش ہے کہ کسی طرح ان کا اسلحہ فروخت ہوتا رہے۔ ان کا اسلحہ کشمیر میں استعمال ہو رہا ہے، فلسطین میں استعمال ہو رہا ہے، ایک انسان کسی نہ کسی حوالے سے دوسرے انسان کا خون بہا رہا ہے۔
میں نے اپنے کالم کا آغاز سورج زمین اور گردش کواکب سے کیا تھا اب ہماری دنیا ہزار دو ہزار سال پرانی دنیا نہیں اب سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا ہے ماضی میں انسان کو صرف اتنا معلوم تھا کہ سورج اور چاند کو اس لیے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ انسان کو روشنی فراہم کریں۔ آج کا انسان جانتا ہے کہ چاند کی اپنی کوئی روشنی نہیں وہ سورج کی روشنی سے روشن ہوتا ہے۔ چاند میں کوئی بڑھیا چرخہ نہیں کات رہی ہے چاند پر نظر آنے والے دھبے چاند کی وادیاں اور پہاڑ ہیں۔ انسان ہزاروں سال تک زمین ہی کو کل کائنات سمجھتا تھا لیکن آج کا انسان زمین کو کائنات کے پس منظر میں ایٹم کے ذرے سے بھی چھوٹا نظام شمسی کا ایک چھوٹا سا سیارہ سمجھتا ہے۔
ان معلومات کی روشنی میں انسان موت اور زندگی کے اسرار سے واقف ہو رہا ہے آج کا شاعر اسی حوالے سے زندگی اور موت کی حقیقت یوں بیان کرتا ہے:
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انھی اجزاء کا پریشان ہونا
ان حقائق کو سمجھنے کے بعد انسانوں کی تقسیم کے نام پر ایک انسان کی دوسرے انسان سے نفرت کرنا، سب بے معنی اور غیر منطقی نظر آتے ہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ بے جواز تقسیم بے جواز نفرتوں کے فسوں سے باہر نکل کر انسانوں کے درمیان امن وآشتی، محبت ،بھائی چارہ، ایک دوسرے پر اعتماد، ہتھیاروں کی تیاری و تجارت میں انسان دشمنی کی مخالفت کریں ۔