ہندو انتہا پسندی کا شکار بابری مسجد

شکیل فاروقی  منگل 4 دسمبر 2018
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

ایسے موقعے پر جب کرتار پور راہداری کھول کر پاکستان کی جانب سے امن پسندی، صلح جوئی اور اقلیتی سکھ برادری اور اس کے مقدس مقامات کے تحفظ و تقدس کے حوالے سے انتہائی خیر سگالی کے جذبے کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے بھارت کے 25 کروڑ مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔

بھارت کے صوبے اتر پردیش (یوپی) کے شہر ایودھیا میں 1992 کے بعد ایک بار پھر جنونی ہندو لاکھوں کی تعداد میں جمع ہو رہے ہیں اور شہید بابری مسجد کی خالی جگہ پر رام مندر کی غیر قانونی تعمیر کرنا چاہتے ہیں، حالانکہ اس کا مقدمہ بھارتی سپریم کورٹ کے زیر سماعت ہے۔

یاد رہے کہ 26 دسمبر 1992 ہندوستان کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن تھا جب پورے ملک سے آکر ایودھیا میں اکٹھے ہونے والے جنونی ہندوؤں نے جن کی تعداد دو لاکھ کے لگ بھگ تھی دیکھتے ہی دیکھتے صدیوں پرانی عظیم الشان تاریخی بابری مسجد کو شہید کرکے ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا تھا ۔

سب سے زیادہ افسوس اور دکھ اس بات کا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے تمام بھارتی ادارے اس موقعے پر محض تماشائی بنے رہے۔ حالانکہ اس وقت مرکز میں کانگریس پارٹی کی حکومت تھی جو سیکولرازم کی دعویدار ہے اور مسلمانوں کے ووٹوں کی بیساکھیوں کے سہارے سے برسر اقتدار آتی ہے۔ اس وقت جب لاکھوں جونی کار سیوک بابری مسجد کو شہید کرنے کے ناپاک ارادے سے لاکھوں کی تعداد میں ایودھیا میں اکٹھا ہونا شروع ہوئے تھے تو حکام کی توجہ تمام صورتحال کی جانب مبذول کرائی گئی تھی جس کے جواب میں مسلمانوں کو یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ وہ مطمئن رہیں کچھ نہیں ہوگا اور نہ ہی بابری مسجد کو کوئی نقصان پہنچے گا لیکن اس جھوٹی یقین دہانی کے بعد وہی ہوا جو ہونا تھا۔ جنونی ہندوؤں نے نہ صرف بابری مسجد شہید کردی بلکہ وہاں سے نکل کر بھارت بھر میں تین ہزار مسلمانوں کا خون بھی کردیا۔

تاریخ ایک بار پھر خود کو دہرا رہی ہے۔ 6 دسمبرکی تاریخ جوں جوں قریب آرہی ہے، ہندوستان کے مسلمانوں کی تشویش اوربے چینی بڑھتی جارہی ہے۔ ایودھیا کے مسلمانوں پر ایک مرتبہ پھر قیامت صغریٰ کا خوف طاری ہے۔ بدنام زمانہ ہندو انتہا پسند بال ٹھاکرے کے بیٹے اودھو ٹھاکرے کی قیادت میں انتہا پسند تنظیمیں بھارت میں آیندہ سال منعقد ہونے والے عام انتخابات سے پہلے رام مندرکی تعمیر کے لیے میدان میں آچکی ہیں اور ان کی جانب سے مسلمانوں کو بار بار دھمکیاں دی جارہی ہیں اور طرح طرح سے خوف زدہ کیا جا رہا ہے۔ خوف وہراس کے ماحول کی وجہ سے ہزاروں مسلمان نقلِ مکانی کرکے ایودھیا کو چھوڑ کر ملک کے دیگر مقامات کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ علاقے کی فضا پر چھائے ہوئے خوف میں لمحہ بہ لمحہ اضافہ ہو رہا ہے اور کسی بھی وقت ہولناک مسلم کش فسادات کے شعلے بھڑک اٹھنے کے واضح آثار نظر آرہے ہیں۔

پچھلی بار 6 دسمبر 1992 کو جب بابری مسجدکا عظیم اور المناک سانحہ پیش آیا تھا اس وقت بھی اتر پردیش میں بی جے پی کی حکمرانی تھی اور آج بھی اس صوبے پر بی جے پی کا راج ہے ۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اب تو مرکزی حکومت کی باگ ڈور بھی بی جے پی ہی کے ہاتھوں میں ہے۔گویا ’’سیاں بھئے کوتوال اب ڈر کاہے کا ‘‘ چنانچہ بی جے پی اور آر ایس ایس کی من مانی کے لیے پورا راستہ صاف اور بالکل کھلا ہوا ہے۔ اتر پردیش کے موجودہ وزیراعلیٰ ادتیا یوگی جو اس سے پہلے ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کے اہم رہنما رہ چکے ہیں ۔ ہندو دہشت گردوں کی بھر پور پشت پناہی کر رہے ہیں۔ یوگی مسلمانوں سے شدید نفرت کرتے ہیں اور ان کے خون کے پیاسے ہیں ۔ ان کا بس چلے تو صرف اتر پردیش ہی نہیں پورے ہندوستان کے مسلمانوں کا صفایا کرکے ان کا نام و نشان تک مٹا دیں۔

الٰہ آباد کا نام بدل کر پریاگ راج اور فیض آباد کا نام تبدیل کرکے ایودھیا رکھنا اس بات کا کھلا ثبوت ہے۔ ہندوستان کے مشہور شہر بنارس کا نام بھی اس ہندو انتہا پسند ذہنیت کے سبب تبدیل کرکے وارانسی (Vrranasi) کر دیا گیا تھا۔ اس حوالے سے ہندوستان کی مشہورومعروف علمی وادبی شخصیت خواجہ احمد عباس کے دلچسپ تاثرات قابل ذکر ہیں، جو صرف جب بنارس ریلوے اسٹیشن پر اترے تو بنارس کی جگہ وارانسی نام کا بورڈ لکھا ہوا پایا۔ پھر جب وہ ڈاک خانہ گئے تو ڈاک بابوکو خطوں پر شہرکے نئے ہندوائے گئے نام ’’وارانسی‘‘ کی مہر لگائے ہوئے پایا۔ لیکن جب انھوں نے اس سے یہ پوچھا کہ ہم اس وقت کس شہر میں ہیں تو اس کا برجستہ جواب تھا ’’بنارس‘‘ بنارسی پان، بنارسی ساڑھی اور بنارسی ٹھمہری کی پہچان آج بھی بنارس ہی کے حوالے سے کی جاتی ہے نہ کہ وارانسی کے حوالے سے۔

مسلم ناموں سے بی جے پی اور آر ایس ایس کی عداوت کے حوالے سے ہمارا سوال ہے کہ بی جے پی کی صدر امیت شاہ کا نام ابھی تک کیوں تبدیل نہیں کیا گیا جب کہ لفظ ’’شاہ‘‘ مسلمانوںکے ناموں کے ساتھ بکثرت استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح بی جے پی کی قیادت سے یہ سوال بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ اپنے نام کے آخری حصے میں استعمال ہونے والے فارسی لفظ ’’قرنویس‘‘ کو کیوں تبدیل نہیں کررہے جو فارسی لفظ ہے اور مسلمانوں کے نام سے مماثلت رکھتا ہے۔

ایک سوال یہ بھی ہے کہ مسلمانوں سے نسبت رکھنے والے ناموں مثلاً جلیبی، حلوہ اور قلفی جیسے ناموں کو ابھی تک ہندو ناموں سے کیوں تبدیل نہیں کیا گیا؟ ایک سوال یہ مہاراشٹر کے ہندو ابھی تک اپنے نام کے آخر میں آنے والے لفظ ’’پیشوا‘‘ کو مسلسل کیوں استعمال کررہے ہیں؟ انتہا پسند بی جے پی اور آر ایس ایس کے پیروکاروں کی پست ذہنیت کے حوالے سے ہمیں اس وقت گھوپتی سہائے۔ فراقؔ گورکھپوری کا یہ شعر یاد آرہاہے۔

سر زمین ہند پر اقوام عالم کے فراقؔ

قافلے بستے گئے ہندوستاں بنتا گیا

انتہا پسند ہندو تنظیم آر ایس ایس کی بنیاد ڈاکٹرکیٹسو بالی رام نے برصغیر کی آزادی سے دو عشروں قبل رکھی تھی۔ اس مسلم دشمن تنظیم کا خمیر ویر ساور کر، مسٹر مونجے، بال گنگا دھر تلک اور گروگول والکر جیسے مسلم دشمن انتہا پسند ہندو لیڈروں کی خاکستر سے اٹھاتھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تنظیم زور پکڑتی گئی۔ بی جے پی بجرنگ دل اور شیو سینا نے اسی کے بطن سے جنم لیا ہے۔

6 دسمبر 1992 کو دو لاکھ انتہا پسند ہندو جنونیوں نے بابری مسجد پر یلغار کی تھی جب کہ اس مرتبہ یہ تعداد پانچ لاکھ تک بتائی جارہی ہے۔ سنگین صورتحال کے پیش نظر فوج بلانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے مگر ریاستی حکومت مسلسل ٹال مٹول کررہی ہے، اگرچہ بابری مسجد کا کیس ابھی تک بھارتی سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے لیکن امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ عدالت عظمیٰ نچلی عدالت کے فیصلے میں کچھ ترمیم کرکے بابری مسجد کی زمین کے مسلمانوں اور ہندوؤں میں بٹوارے کا فیصلہ دے گی۔

تاہم قیاس کیا جا رہاہے کہ جنونی ہندو اس پر راضی نہیں ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ پوری زمین رام مندر کے نام لکھ دی جائے اور یہ فیصلہ وہ طاقت کے زور پر لکھوانا چاہتے ہیں۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ لاکھوں انتہا پسند ہندو عدالتی فیصلے کا انتظار کیے بغیر ہی بابری مسجد کی زمین پر رام مندر کی بنیاد رکھ دیں گے جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے جذبات بھڑک اٹھیں گے اور پھر ان کے خون سے ہولی کھیلی جائے گی۔ حالات کا تقاضا ہے کہ او آئی سی اور پاکستان مل کر اس معاملے کو عالمی سطح پر اٹھائیں اور بھارتی حکومت کو بابری مسجد کی مقدس زمین اور بھارتی مسلمانوں کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے موثر اقدامات پر مجبور کریں۔

دنیا بھر میں اقلیتوں کے حقوق کے نام پر سیاست کرنے والے ملکوں اور عالمی اداروں کو بھی اس نازک موقعے پر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور بھارتی مسلمانوں کو کسی بڑے المیے کا نشانہ بننے سے بچانے کے لیے مودی سرکار پر دباؤ ڈالنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔