سو دن: ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  منگل 4 دسمبر 2018
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

کراچی شہر میں بھی موجودہ حکومت کے سو دن پورے ہوگئے، ان سو دنوں میں کہیں نیا پاکستان بنا ہو یا نہ بناہو،کم ازکم کراچی شہرمیں ضرور بنا اور نئے پاکستان کی یہ ’’تعمیر‘‘ ابھی جاری ہے۔ پی ٹی آئی کا میڈیا ونگ نہایت کمزور ہے ورنہ حکومت کے سو دنوں کی کار کردگی دکھانے کے لیے صرف کراچی شہرکی’’مصروفیت‘‘ دکھانے سے ہی ان کے اخبارات کے کواٹر پیچ کا اشتہار ’’فل‘‘ ہو جاتا اور پورا پاکستان سمجھ جاتا کہ حکومت واقعی مصروف ہے بس یہ مصروفیت آج کل کراچی میں زوروں پر ہے۔

یہ بات اور ہے کہ کراچی کے کچھ باسیوں کو یہ مصروفیت پسند نہیں آرہی، ایک عالم دین اور ایک ٹی وی فنکارکی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر چل رہی ہے۔ ٹی وی فنکارکہتے ہیں کہ ہمیں اس ’’صفائی‘‘ سے زیادہ اس بات کا جواب چاہیے کہ یہ صفائی کلفٹن میں واقع بااثر سیاسی شخصیات کی تجاوزات کے خلاف کیوں نہیں ہوئی؟ نیز جن لوگوں نے حکومتی اداروں میں بیٹھ کر ان تمام غلط تعمیرات کی اجازت دی ، ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جا رہی؟ صرف عام لوگوں کے مکانات اور دکانوں کو مسمارکیوں کیا جا رہا ہے؟

اسی طرح ایک بہت بڑے عالم دین اپنے ویڈیو میں فرما رہے ہیں کہ راستے کی رکاوٹوں کو ہٹانے کی حد تک تو آپریشن درست ہے مگر لوگوں کے جمے جمائے کاروبار، دکانوں کو جو حکومتی اداروں کو باقاعدہ ٹیکس بھی دیتے ہیں، یوں گرا دینا شرعی اعتبار سے بھی غلط ہے اوراگر یہ فیصلہ درست ہو تب بھی ان تمام کوکچھ وقت دینا چاہیے تھا اور متبادل جگہ دینے کے بعد آپریشن کرنا چاہیے تھا، آپریشن کرنے کے بعد یہ کہنا کہ جو لوگ قانونی کاغذات رکھتے ہیں، ان کو متبادل جگہ دی جائے گی ظلم ہے۔

ہم نے جب یہ ویڈیو دیکھی تو اندازہ ہوا کہ واقعی کچھ لوگوں کے ساتھ زیادتی ہوگئی ہے مگر جب ہم نے واٹس ایپ پر ایک نہیں کئی اشتہارات دیکھے تو اندازہ ہوا کہ واقعی یہ ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے جس میں روزانہ اضافہ ہی ہورہا ہے۔ یہ اشتہارات معروف خیراتی ادروں کے تھے ، جن میں اس آپریشن سے متاثرہونے والوں سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنی مشکلات کے لیے ان سے رجوع کریں۔ ان اشتہارات کودیکھ کراندازہ ہوا کہ حکومتی سو دن کی کارکردگی میں خیراتی اداروں سے رجوع کرنے والے شہریوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ کل ہی کی بات ہے کہ میں کسی دکان سے سودا لے رہا تھا کہ وہاں ایک صاحب قصہ سنا رہے تھے کہ جب بلڈوزر سرجانی ٹاؤن میں ’’چائنا کٹنگ‘‘ کے مکانات توڑ رہے تھے تو وہاں چھوٹے بچے بھی بلک بلک کر رو رہے تھے۔

ہمارے ایک دوست پریشان ہیں وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ ایک اسکول چلا رہے ہیں مگر نوٹس مل گیا ہے کہ اسکول کو کمرشل جگہ پر منتقل کردیں، خبر آئی ہے کہ اب پندرہ روز میں رینجرزکی مدد سے رہائشی علاقوں میں قائم اسکولوں اور دکانوں کے خلاف آپریشن ہوگا ۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک تو ان کے پاس اتنی بڑی رقم نہیں کہ کسی کمرشل علاقے میں اسکول کے لیے کوئی عمارت لے سکیں، دوسرے یہ کہ وہ تو محلے کے اسکول میں بچوں سے ہزار، ہزار روپے فیس لیتے ہیں، کمرشل علاقے میں تو ایک پلاٹ بھی کروڑوں روپے سے کم کا نہیںہوتا تو عمارت کہاں سے کوئی لے اوراگر لے بھی تو پھر ہزار روپے کی فیس میں تو بجلی کا بل بھی پورا نہ ہوگا، ایسی جگہوں پر قائم اسکول چھ سات ہزار سے کم فیس نہیں لیتے جب کہ ہمارے اسکول میں مڈل اور لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے بچے پڑھتے ہیں جو اپنی بچوں کی ہزار روپے کی فیس بھی وقت پر مشکل سے دیتے ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب علاقے کے اسکول والوں اور دکانداروں نے بلدیہ کے نمائندوں سے پوچھاکہ اس کا کوئی اور حل بھی ہے تو انھوں نے کہا کہ متبادل حل یہ ہے کہ اپنے اسکولوں اور دکانوں کی کمرشل فیس بھی ادا کرکے یہ مسئلہ حل کرسکتے ہیں اور یہ فیس ڈیڑھ ، دوہزار روپے فی مربہ فٹ ہوگی۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ اس میں کس حد تک حقیقت ہے لیکن اگر کمرشل فیس کی یہ بات درست ہے تو اس کا مطلب سیدھا سا یہ ہوا کہ اب ہر چھوٹا دکاندار بھی اپنی دکان کی کم ازکم چار ، پانچ لاکھ روپے فیس ادا کرکے بلدیہ کے محکمے سے جان چھڑائے گا، یہی کام اسکول والے بھی کریں گے اور پھر اس کی ماہانہ کمرشل فیس بھی ادا کریں گے، یو ں کراچی شہر سے حکومت کو اربوں روپے کی آمدنی شروع ہو جائے گی اور اس میں ڈھکے چھپی کرپشن بھی چلے گی مگر عام آدمی اس عمل میں پس جائے گا کیونکہ یہ ساری رقم دکاندار اور اسکول والے اپنے صارف اور طلبہ سے وصول کریںگے، یعنی اشیاء کی اور فیسوں کی قیمتوںمیں اضافہ کر دیا جائے گا یوں اسکولوںمیں طلبہ کی تعداد کم ہوجائے گی یعنی تعلیم پر اس کے منفی اثرات پڑیں گے اس کے ساتھ اسکولوں کی تعداد میں بھی خاصی کمی آجائے گی جس سے تعلیم کے مواقعے مزید کم ہو جائیں گے۔

ماضی میں جب پرویز مشرف کی حکومت نے نوازشریف کی حکومت ختم کی تو اقتدار میں آتے ہی جی ایس ٹی سولہ فیصد عائدکردیا اور کاروباری اداروںنے یہ رقم دھڑلے سے خریداروں سے وصول کرنا شروع کردی۔ آج بھی آپ کوئی دوا بھی خریدیں تو اس پر لکھا ہوتا قیمت پلس جی ایس ٹی۔

ابھی کالم تحریرکررہا ہوں، سامنے آج کا ایکسپریس اخبار ہے جس کی شہ سرخی ہے،

’’سو دن میں راستے کا تعین کردیا:وزیر اعظم‘‘

قابل غور بات ہے کہ کس راستے کا تعین کر دیا ؟ سو دنوں میں بجلی،گیس اور ڈالرکے مسلسل مہنگا ہونے کی خبریں عوام کو ملیں، کیایہی راستہ ہے؟ کھوکھرا پار کے راستے کھولنے کا کوئی ذکر نہیں نہ ہی، ان محصورین کا کوئی ذکر جو سن 1971ء سے اپنے ہی وطن پاکستان آنا چاہ رہے ہیں، ان کو لانے کا اعلان توکیا اجازت بھی نہیں اور دوسری جانب کرتار پور کوریڈور کے لیے راستے کھولے جارہے ہیں، پل بنائے جا رہے ہیں کہ اقلیتی لوگ باآسانی آکر عبادت کر سکیں۔ اسی طرح آمنہ جنجوعہ انتظار میں ہیں کہ کب لاپتہ افراد کے معاملے کو حل کرنے کے لیے کوششیں کی جائیں۔

معلوم نہیں حکومت کو کوئی غلط مشورے فراہم کر رہا ہے یا کہ وہ خود عوام خاص کرکراچی کے شہریوں کو پستیوں میں دھکیلنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اس عمل میں اہم ترین بات یہ ہے کہ شہریوں کو ہر طرف سے معاشی بحران میں مبتلا کیا جا رہا ہے مثلاً اگر وقت پر انکم ٹیکس ریٹرن نہ جمع کرائے تو بیس ہزار جرمانہ، موٹر سائیکل چلانے والے نچلے طبقے پر مختلف قانونی خلاف ورزیوں پر ہزار سے تین ہزار تک کے جرمانے (پہلے یہ صرف چند سو تک ہوتے تھے)، گیس، سی این جی اور بجلی کی قیمتوں میں تاریخ کے بڑے اضافے، قانون کے نام پر ساٹھ، اسی اور ایک سو بیس گھروں میں رہنے والوں کے گھروں کو مسمارکرنا، پتھاروں کے ساتھ پکی دکانوں کو ملبے میں تبدیل کرنا اور اب رہائشی علاقوں میں کاروباری سرگرمیوں کے نام پر اسکولوں اور دکانوں کو ختم کرنے کا عندیہ۔

سوال صرف یہ ہے کہ کیا کسی حکومت نے شہریوں کی ضرورت کے مطابق یہاں اسکول اورکمرشل دکانوں کا جال بچھایا؟ اب اگر ان کو ختم کردیا جائے تو نتیجہ کیا نکلے گیا؟ راقم کے خیال میں یہ ناقابل عمل ہے اور اگر عمل ہوا تو اس شہر میں ایک بہت بڑا بحران جنم لے گا مگر شاید وزیر اعظم کوکچھ نہیں پتہ، وہ تو فرما گئے ہیں کہ

ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔