کرتار پور نے یاد دلایا

مالک پلٹا اور پرنے سے آنسو صاف کیے۔ بلو دیر تک اپنے مالک کو جاتا دیکھتی رہی۔


Saeed Parvez December 04, 2018

کرتار پور بارڈر کھل جائے گا۔ سنگ بنیاد رکھ دیا گیا، یہ اچھا ہو گیا، ہندوستان کے 16 کروڑ سکھ کرتار پور بارڈر کھلنے پر بہت خوش ہیں۔ دربار صاحب وہ یادگار اور مقدس مقام ہے جہاں بابا گرو نانک نے اپنی حیاتی کے آخری 18 سال گزارے اور وہیں ان کی آخری آرام گاہ ہے۔ بابا گرو نانک کے وصال پر بہت بڑا مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ مسلمان بابا جی کو دفنانا چاہتے تھے جب کہ سکھ انھیں نذر آتش کرنے پر مصر تھے۔ ایک روایت کے مطابق بابا گرونانک کے جسد خاکی سے جب چادر ہٹائی گئی تو بابا جی کا جسد خاکی پھولوں سے ڈھکا ہوا تھا۔

کرتار پور تحصیل شکرگڑھ ضلع نارو وال میں واقع ہے دربار صاحب کا مقام ، سکھوں کے لیے بہت زیادہ قابل احترام ہے۔ اب جب کہ یہ بارڈر کھولا جا رہا ہے تو سکھ قوم کے لیے بہت آسانی ہو جائے گی وہ بارڈر کراس کرتے ہی دربار صاحب پہنچ جایا کریں گے۔

جب سے میں نے کرتار پور بارڈر کھلنے کی خبر سنی ہے۔ مجھے اپنی جنم بھومی ہمارا گاؤں میانی افغاناں بہت یاد آنے لگا ہے۔ واہگہ بارڈر سے ہمارا گاؤں 70 میل کے فاصلے پر ہے۔ اب شاید کرتار پور بارڈر کھلنے سے یہ فاصلہ اور کم ہو گا۔ میرا گاؤں میانی افغاناں تحصیل دسوہہ ضلع ہوشیار پور میں ہے۔ کرتار پور بارڈر کھلنے کی خبر نے دل میں خوشی کی لہریں جگا دی ہیں۔ وہ میرا گاؤں جہاں ستمبر 1946ء میں، میں پیدا ہوا۔ وہی کچا کوٹھا جہاں میرے سارے بہن بھائی پیدا ہوئے۔ میری خوش نصیبی کہ میں بھی وہیں پیدا ہوا۔

میری پیدائش کے گیارہ مہینے بعد بٹوارہ ہو گیا اور میں اپنی اماں کی گود میں بیٹھ کر پاکستان آ گیا۔ ریل گاڑی کراچی آ کر رکی تو فضا میں ایک ہی نعرے کی گونج تھی ''پاکستان زندہ باد''۔ یہ نعرہ لاہور پہنچتے ہی گونجنے لگا تھا، ریل گاڑی کی بند کھڑکیاں کھل گئی تھیں، پاکستان کی ٹھنڈی ہوائیں جسم و جاں کو سیراب کر رہی تھیں۔ ریل گاڑی سندھ کی حدود میں داخل ہوئی تو ٹھنڈک میں اور اضافہ ہو چکا تھا کراچی پہنچنے پر ٹھنڈی ہوائیں ہی ہوائیں تھیں۔ میں بڑا ہوا تو بھائی حبیب جالبؔ کی شاعری پڑھ پڑھ کر اپنے گاؤں کا نقشہ خاکہ سا دل و نگاہ میں سما گیا۔ اور بڑے ہوتے ہوئے ان دیکھے گاؤں کا تصور گہرے سے گہرا ہوتا گیا۔ بھائی حبیب جالبؔ کی تقریباً آدھی شاعری اپنے گاؤں کی یاد لیے ہوئے ہے۔ انھوں نے گاؤں کا استعارہ لے کر شاعرانہ اظہار کیا ہے۔

پہاڑوں کی وہ سبز و شاداب وادی

جہاں ہم دلِ نغمہ خواں چھوڑ آئے

حسیں پنگھٹوں کا وہ چاندی سا پانی

وہ برکھا کی رُت وہ سماں چھوڑ آئے

بہت مہرباں تھیں وہ گل پوش راہیں

مگر ہم انھیں مہرباں چھوڑ آئے

کبھی جالبؔ اپنے گاؤں کو اس طرح یاد کرتے ''لوک گیتوں کا نگر یاد آیا /آج پردیس میں گھر یاد آیا / پاکستان آ کر جس طرح سے سنہرے خواب ٹوٹے اور بکھرے تو شاعر کو نئے وطن کو پردیس کہنا پڑا۔ انھی بکھرے خوابوں نے بٹوارے کے زخم ہرے کیے رکھے ''درخت سوکھ گئے رک گئے ندی نالے/ یہ کس نگر کو روانہ ہوئے گھروں والے/۔ صدیوں سے جہاں آباد تھے، پرکھوں کی قبریں تھیں ''یہ بجا زیست پا پیادہ تھی/دھوپ سے چھاؤں تو زیادہ تھی/۔ مگر گھروں کو چھوڑنے والے، پرکھوں کی قبروں سے منہ موڑنے، گھنے پیڑوں کے ٹھنڈے سایوں کو رگیدتے ہوئے پاکستان کی چاہ میں چلے آئے۔ جہاں ''آنے والوں'' پر کیا بیتی ''بگولوں کی صورت یہاں پھر رہے ہیں /نشیمن سرگلستاں چھوڑ آئے/ ہم سے پوچھو ساحل والو، کیا بیتی دکھیاروں پر/کھیون ہارے بیچ بھنور میں چھوڑ کے جب اس پار گئے۔

کرتار پور کا بارڈر کھلنے کی خبر نے مجھے اپنا ان دیکھا گاؤں یاد کرا دیا۔ جب میں اسکوٹر چلایا کرتا تھا تو میں نے ایک جگہ لکھا تھا ''جی چاہتا ہے رستے میں حائل زنجیر ہٹاؤں اور اپنے اسکوٹر پر ڈیڑھ گھنٹے میں واہگہ سے گاؤں پہنچ جاؤں۔'' آج بھی گاؤں جانے کی حسرت لیے جی رہا ہوں۔ میں ہی کیا ادھر ہندوستان میں بھی کروڑوں انسان یہی حسرت لیے قبروں میں جا لیٹے اور کروڑوں آج بھی حیدرآباد ، شکارپور، سکھر، کراچی، ملتان، لاہور، گوجرانوالہ، جھنگ، لائل پور (فیصل آباد، جہلم، راولپنڈی، پشاور اور دیگر شہروں کی یادوں میں آنکھیں بھگوتے ہیں، ملول ہوتے ہیں۔

یہ کیسا بٹوارہ ہوا، یقینا بٹوارے والوں سے جلد بازی میں کچھ غلطیاں بھی ہوئیں، جو اتنا انسانی خون بہا، میرا دل آج بھی خون کے آنسو روتا ہے، جب میں اپنے چچا صادق علی کی کتیا ''بلو'' کو یاد کرتا ہوں۔ بٹوارے میں چچا گاؤں سے گھر والوں کے ساتھ پیدل قافلے میں لاہور کی طرف چلے تو ان کی ''بلو'' دور تک بھاگتی ہوئی قافلے کے ساتھ رہی، چچا نے بلو سے ڈانٹ کر کہا ''واپس چلی جا بلو!'' تو بلو اپنے مالک کو دیکھتے رہ گئی۔ جس مالک نے زندگی بھر بلو سے پیار کیا آج وہ پہلی بار اسے ڈانٹ رہا تھا، مالک کے کہنے پر بلو زمین پر بیٹھ گئی۔

مالک پلٹا اور پرنے سے آنسو صاف کیے۔ بلو دیر تک اپنے مالک کو جاتا دیکھتی رہی۔ پھر پتہ نہیں وہ سکھ ہوگئی یا ہندو ہوگئی۔ آج کرتارپور بارڈر کے سنگ بنیاد پر مجھے بلو بھی یاد آگئی۔ جالبؔ نے ''یہ امن'' فلم کے لیے لکھا تھا ''کھنچی ہوئی ہے دل پہ میرے خونی سرخ لکیر/تو ہی بتا دے کب ٹوٹے گی پاؤں کی زنجیر/اے مرے کشمیر/ لگتا ہے یہ وحشی درندہ ابھی اور خون بہائے گا۔ محض اپنے راج سنگھاسن پر مزید بیٹھنے کے لیے۔ خدارا ! خدا کے لیے! بھگوان کے لیے! اب خون کے بہاؤ کو روک دو۔ اس کے آگے مضبوط بند باندھ دو۔ زمین جہاں ہے وہیں رہے گی۔ بس اس زمین پر بسنے والوں کو ان کا حق دے دو۔ ہندوستان اور پاکستان کے نیتاؤں سے میری بنتی ہے کہ انسان کی بہتری کے لیے کام کر جاؤ۔ اس سے پہلے کہ زلزلے اور سمندر تمہارے راج سنگھاسن کو مٹا دیں۔ آج کرتار پور سے ''کیا کیا مجھے یاد آیا/جب یاد تری آئی۔ (صوفی تبسم)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔