ایک واقعے کے بطن سے جنم لینے والا وعدہ جس نے صابریہ حسین کی زندگی بدل دی

منیرہ عادل  منگل 4 دسمبر 2018
یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہم سب اگر خود سے کریں تو ہمارے سماج میں ایک زبردست تبدیلی آسکتی ہے۔ فوٹو: فائل

یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہم سب اگر خود سے کریں تو ہمارے سماج میں ایک زبردست تبدیلی آسکتی ہے۔ فوٹو: فائل

صابریہ حسین کی زندگی کا مقصد خیر کا پرچار، بھلائی کے کام اور انسانوں کی مدد کرنا ہے۔ ان کی عمر 70 برس ہے۔ وہ پچھلی تین دہائیوں سے مانٹریال، کینیڈا میں مفلس اور نادار افراد کو کھانا کھلا رہی ہیں۔

صابریہ حسین کی زندگی کے مختلف ادوار اور حالات جہاں آپ کو ہمّت اور بہادری کی داستان سنائیں گے، وہیں آپ یہ جانیں گے کہ کس طرح بظاہر ایک کم زور عورت اپنے عزم و ارادے سے مصائب اور مشکلات کو شکست دے کر دوسروں کے لیے مثال بنی۔

صابریہ حسین نے ایک بھرے پُرے گھر میں پرورش پائی۔ یہ چھے بھائی بہن تھے اور والدین نے بارہ دیگر بچوں کو بھی گود لیا ہوا تھا۔ بیس افراد پر مشتمل اس کنبے کے سرپرستوں نے ہمیشہ اپنے بچوں کو شکر گزاری اور قناعت کا سبق دیا، رحم دلی اور انسانیت کی خدمت کو اپنا شعار بنانے کی ترغیب دی۔ کھانے پینے کی اشیا سے لے کر استعمال کی ہر شے ضرورت کے مطابق دوسروں کے ساتھ مساوی بانٹنے کا درس دیا۔

کم سن صابریہ کو نارنگی کا میٹھا جوس بے حد پسند تھا۔ والدہ خاص مواقع پر نارنگی کے جوس کی ایک بوتل سب کو دیا کرتی تھیں۔ ایک دن صابریہ نے اپنی والدہ سے کہا کہ ’’جب میں بڑی ہوجاؤں گی اور میری شادی ہوجائے گی تو میں اپنے لیے یہ بڑی بوتل خریدوں گی اور اس میں جوس پیوں گی۔‘‘

بیٹی کی یہ معصوم سی خواہش سن کر ماں نے کہا۔ ’’بڑی ہوکر کیوں؟ تم ابھی جاکر خریدو اور پیو، لیکن شرط یہ ہے کہ تم تمام جوس پی کر گھر آؤ گی۔ اگر گھر لاؤ گی تو پھر سب کو اس جوس میں حصہ دینا پڑے گا۔‘‘ والدہ سے پیسے لے کر صابریہ خوشی خوشی قریبی دکان پر گئی، جوس خریدا اور دکان کے باہر بینچ پر بیٹھ کر پینے لگی۔ چند گھونٹ بہت میٹھے اور فرحت بخش محسوس ہوئے۔ وہ خوشی و سرشاری کی کیفیت میں تھی۔ مگر جلد ہی یہ کیفیت تبدیل ہوگئی۔ تیسرے گھونٹ پر اس کی نظروں کے سامنے تمام بھائی بہنوں کے چہرے گھومنے لگے۔ یوں محسوس ہوا کہ گویا سب اس کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ صابریہ نے جلدی سے بوتل کا ڈھکن بند کیا اور گھر آگئی۔ ہر بڑھتے قدم کے ساتھ اس کی خوشی بڑھتی جا رہی تھی کہ وہ اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ اس میٹھے نارنگی کے جوس سے لُطف اندوز ہوگی۔

گھر پہنچی تو والدہ نے پوچھا۔ ’’تم بوتل کے ساتھ گھر کیوں آگئی ہو، اب تمہیں سب کو اس میں سے پلانا پڑے گا۔‘‘ تب صابریہ نے ان سے اپنے دل کی بات کہہ دی اور بتایا کہ وہ تنہا اس جوس کا مزہ نہیں لے سکتی۔ وہ اسے خود غرضی سمجھتی ہے۔ اس نے کہا کہ وہ اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ اس جوس سے لطف اندوز ہونا چاہتی ہے۔ والدہ نے یہ جانا تو ان کو دعا دی اور ساتھ ایک نصیحت کی۔ ’’ایک دن تمہارا بہت بڑا نام ہوگا، خدا تمہیں بہت اعلیٰ مقام عطا کرے، مگر دوسروں کے ساتھ ہمیشہ اچھائی کرنا۔‘‘ صابریہ نے اس نصیحت کو پلو سے باندھ لیا۔ بڑے ہو کر صابریہ نے کوالالمپور سے کھانے پکانے کی تربیت حاصل کی۔

بطور شیف ان کی زندگی میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے ان کی سوچ کو تبدیل کردیا۔ مسلمان طلبا کی ایسوسی ایشن کے سمر کیمپ میں صابریہ رضاکارانہ طور پر بہ طور شیف کام کیا کرتی تھیں۔ بہ طور انچارج منظم انداز میں مینو بنانے، باورچی خانہ سنبھالنے اور کھانے کی تیاری کے ساتھ ان کی ذمہ داری تھی کہ تمام افراد شکم سیر ہوں۔ ایک رات اُن کی آنکھ کھلی تو خیال آیا کہ اگلے دن بیکڈ چکن بنانا ہے اور وہ مرغی فریزر سے نکالنا بھول گئی تھیں تاکہ وہ پگھل جائے۔ اس وقت رات کے سوا دو بج رہے تھے۔ وہ تیزی سے باورچی خانے کی طرف گئیں۔ سب اپنے کیبن میں تھے۔ لہٰذا کسی نے ان کو جاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ وہ فریزر میں سے مرغی کے بکس نکالنے لگیں۔ وہ عام فریزر نہ تھا بلکہ انڈسٹریل واک ان فریزر تھا۔ گویا ایک سرد کمرہ تھا۔ جب وہ چوتھا ڈبہ اٹھانے کے لیے اندر گئیں تو اچانک دروازہ بند ہوگیا اور تاریکی چھا گئی۔

اس دروازے میں اندر کی جانب کوئی ہینڈل موجود نہیں تھا۔ وہ یخ بستہ فرش پر کھری دروازہ کھولنے کی سعی کرنے لگیں، مگر تمام کوششیں ناکام گئیں۔ وہ جان گئی تھیں کہ وہ اس یخ بستہ کمرے میں پھنس چکی ہیں۔ ٹھنڈ کی شدت سے وہ کپکپا رہی تھیں۔ اسی کیفیت میں اس یخ فرش پر رب تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوگئیں اور گڑگڑا کر دعا مانگنے لگیں۔ ’’رب کریم! مجھے یہاں سے نکال، میں سیکڑوں لوگوں کا تیرے دیے ہوئے اناج سے پیٹ بھرنا چاہتی ہوں۔ رمضان میں سحر و افطار کا اہتمام کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ وہ ایسی دعاؤں کے ساتھ اپنے گناہوں کی معافی مانگتی رہیں۔ ساتھ دروازہ کھولنے کی کوشش کرتی رہیں، مگر ان کی کوشش بے سود جارہی تھی۔

دعا مانگتے مانگتے وہ رب کریم سے خیر اور نیکی کے کام کرنے اور انسانوں کی مدد کرنے کے وعدے کرنے لگیں۔ گوکہ اس سے قبل وہ اپنا کاروبار شروع کرنے کا ارادہ رکھتی تھیں، مگر اس لمحے ان پر اس راز کا انکشاف ہوا کہ زندگی تو درحقیقت دوسروں کے کام آنے کا نام ہے۔ اور دوسروں کو بھی یہ درس دینے کی ضرورت ہے۔ خصوصاً نوجوان نسل کو بھی یہ تعلیم دینی ہے کہ اپنے معاشرے کی فلاح کے لیے کام کرنا چاہیے۔ وہ دعا کرتی رہیں۔ خدا سے مدد مانگتی رہیں۔ رب تعالیٰ ہر شے پر قادر ہے۔

ان کو محسوس ہوا کہ ان کی ہڈیاں سردی کی شدت سے یخ ہو رہی ہیں۔ انھوں نے فیصلہ کیا کہ جب تک جان ہے وہ دروازہ کھولنے کی اپنی کوشش جاری رکھیں گی۔ تقریباً دو گھنٹے گزر چکے تھے۔ انھوں نے اپنی یخ بستہ انگلیوں سے دروازے کی نچلی سطح کو دھکیلنے کی کوشش کی اور یکایک دروازہ باہر کی جانب کھلنے لگا۔ وہ اتنا کھل گیا کہ وہ اس میں سے گزر کر باہر آسکیں۔ وہ اس منجمد کردینے والے کمرے سے باہر آچکی تھیں۔ باہر ویسی ہی خاموشی تھی۔ انھوں نے دوسروں کو جاکر بتایا اور یوں وہ زندگی کی طرف لوٹیں۔ ان کی طبیعت بہتر ہوئی تو اگلی صبح سب نے شکرانے کے نوافل ادا کیے۔

صابریہ نے اپنا وعدہ یاد رکھا اور شادی کے بعد مونٹریال چلی گئیں اور اس شہر میں انھوں نے اپنے کام کی ابتدا کی۔ اپنے فن کی مہارت اور انسانیت سے بھلائی کے جذبے کو مدنظر رکھتے ہوئے انھوں نے بلاتفریق رنگ و نسل اور مذہب مستحق اور مجبور افراد کے لیے کھانا تیار کرنا شروع کیا۔ وہ جہاں مساجد میں کھانا بھجواتیں، وہیں گرجا گھروں میں بھی ناداروں کو کھانا بھجواتیں۔ مال و زر، شہرت اور نام وری کی خواہش سے بالاتر ہوکر بس رب کی رضا کے لیے کوشاں صابریہ کو ان کے جذبے، انسانیت سے محبت کی وجہ سے عرفِ عام میں مسلمانوں کی مدر ٹریسا کہا جاتا ہے۔

اپنے ہی گھر میں انھوں نے بے گھر خواتین، طلبا کے لیے شیلٹر ہوم بھی قائم کیا ہے۔ بیرون ملک سے آنے والے طلبا کے لیے کینیڈا جیسے ملک میں جہاں رہائش بہت منہگی ہے کم قیمت میں مناسب گھر کا انتظام مشکل تھا۔ صابریہ نے اپنے گھر کے چند کمرے ایسے طلبا کے لیے مختص کردیے۔ اس کے علاوہ رضاکاروں کو اکٹھا کر کے فوڈ بینک اور سوپ کچن بھی چلا رہی ہیں۔ صابریہ کی آمدنی کا اہم ذریعہ وہ رول، سموسے، اسنیکس ہیں جو وہ جمعہ کے دن یونیورسٹیوں اور مساجد کے باہر جاکر فروخت کرتی ہیں۔ اس ضمن میں رضا کار اور طلبا ان کی مدد کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ لوگ ماہانہ عطیات بھی دیتے ہیں اور ہر مسجد میں اس کے لیے ایک ڈبہ رکھا جاتا ہے۔

ان دنوں صابریہ روہنگیا کے بچوں کے لیے یتیم خانہ بنانے کے لیے فنڈز اکٹھے کر رہی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ وہ ان بچوں کو ایسا گھر مہیا کریں جہاں وہ عزت سے رہ سکیں اور ان کی اچھی دیکھ بھال کی جاسکے۔ انھوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ میں جانتی ہوں کہ میری زندگی کی گھڑی کے کانٹے گھوم رہے ہیں اور ایک ایک دن مجھے رب تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے لہٰذا ہر روز میں خود سے یہ سوال کرتی ہوں کہ آج میں نے کس کی مدد کی؟‘‘

یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہم سب اگر خود سے کریں تو ہمارے سماج میں ایک زبردست تبدیلی آسکتی ہے اور یہ انفرادی زندگی پر بھی نہایت مثبت اثر ڈالے گا۔ ہر مذہب میں عبادت کے مختلف انداز دیکھے جاسکتے ہیں اور ان مذاہب کے ماننے والوں پر فرض ہے کہ وہ اپنے عقیدے کے مطابق ان احکامات اور ہدایات پر عمل کریں اور عبادت کریں، مگر انسانوں کی فلاح اور بہبود، خدمت، آپس میں تعاون اور مدد کرنا ایک آفاقی عمل ہے جو کسی قوم، مذہب اور رنگ اور نسل کے لیے مخصوص نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔