دل کے پیس میکر کے لیے کپاس سے بنا فیول سیل

ویب ڈیسک  بدھ 5 دسمبر 2018
جارجیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ماہرین نے کپاس کے ریشوں کو استعمال کرنے والا بایو فیول بنایا ہے جو جسمانی گلوکوز سے کام کرتا ہے (فوٹو: فائل)

جارجیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ماہرین نے کپاس کے ریشوں کو استعمال کرنے والا بایو فیول بنایا ہے جو جسمانی گلوکوز سے کام کرتا ہے (فوٹو: فائل)

 واشنگٹن: گلوکوز سے توانائی لینے والا ایک ایسا بایو فیول جلد ہی عام استعمال ہوگا جس کے برقیرے (الیکٹروڈ) سوتی ریشوں سے بنے ہوں گے اس سے جسمانی برقی پیوند اور سینسر لگانے میں مدد ملے گی۔

روایتی بایو فیول سیل کے مقابلے میں یہ نیا فیول سیل دگنی توانائی پیدا کرتا ہے، اسے کسی بھی بیٹری یا سپر کیپسٹر کے ذریعے جوڑ کر انسانی جسم کے اندر نصب آلات کو بجلی پہنچائی جاسکتی ہے۔

جارجیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے پروفیسر سیونگ وو لی ووڈرف اسکول آف مکینکل انجینئرنگ سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بایوفیول انسانی جسم میں موجود گلوکوز کو کیمیائی توانائی میں بدل کر مستقل بنیادوں پر بجلی بناتا رہتا ہے۔

پروفیسر سیونگ اور ان کی ٹیم نے سونے کے نینوذرات کو کپاس کے ریشوں سے جوڑا تو ریشے نہایت تیزرفتار اور مؤثر الیکٹروڈ (برقیروں) میں ڈھل گئے جس سے ایندھنی سیل کی افادیت بڑھ گئی۔

اس طرح ماہرین نے جسم کے اندر کام کرنے والے بایو فیول کو درپیش ایک اہم چیلنج عبور کرلیا اور کسی الیکٹروڈ کی مدد سے گلوکوز آکسیڈائز کرنے کے لیے اسے ایک اینزائم (خامرے) سے جوڑنے کا ایک کامیاب تجربہ کیا ہے۔

سونے کے نینو ذرات کو پرت در پرت بنایا گیا ہے جو بیک وقت الیکٹروکیٹے لیٹک کیتھوڈ اور اینوڈ کے لیے بھی سبسٹریٹ کا کام کرتا ہے۔ اسی بنا پر یہ توانائی کو بڑھا کر فی مربع سینٹی میٹر 3.7 ملی واٹ تک لے جاتا ہے۔ ماہرین نے تار بنانے کے لیے کپاس کے خاص باریک ریشے منتخب کیے اور ان میں 8 نینو میٹر قطر کے سونے کے نینو ذرات کو ایک نامیاتی (آرگینک) گوند سے جوڑا گیا ہے۔

اپنے خواص کی بنا پر یہ بایوفیول بدن کے درجہ حرارت پر کام کرتا ہے اور ان سے بجلی کا بہاؤ بھی قدرے تیز اور آسان ہوتا ہے۔

اسی بنا پر دل کی دھڑکن منظم رکھنے والے پیس میکر میں اس بایوفیول کو بہت سہولت سے استعمال کیا جاسکتا ہے اور وہ دن دور نہیں جب کپاس سے بنے بایوفیول انسانی جسم میں لگائے جانے والے کئی آلات کو بلارکاوٹ بجلی فراہم کرسکیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔