حکومتی کارکردگی پر وزیراعظم کی باتیں

ایڈیٹوریل  بدھ 5 دسمبر 2018
صحافیوں سے گفتگو کے دوران وزیراعظم نے ایک بار پھر اپنے اسی موقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یوٹرن عظیم لوگ ہی لیتے ہیں۔ فوٹو:فائل

صحافیوں سے گفتگو کے دوران وزیراعظم نے ایک بار پھر اپنے اسی موقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یوٹرن عظیم لوگ ہی لیتے ہیں۔ فوٹو:فائل

وزیراعظم عمران خان نے پیر کے روز ٹی وی اینکرز اورسینئر صحافیوں سے ملاقات کے دوران ملک کی سیاسی، معاشی صورتحال‘ کرتار پور بارڈر اور امور خارجہ سمیت مختلف امور پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس کی طرف سے اقربا پروری کے ریمارکس پر دکھ ہوا،آئندہ دس دنوں میں وفاقی کابینہ میں ردوبدل کا امکان بھی موجود ہے۔

قبل از وقت انتخابات ہو سکتے ہیں‘ ڈالرکی قدرمیں اضافے کا میڈیا سے پتہ چلا، اسٹیٹ بینک نے پوچھے بغیرروپے کی قدر میں کمی کی، کرتار پور راہداری کھولناگگلی نہیں سیدھا سادہ فیصلہ ہے، پاک فوج پی ٹی آئی کے منشورکیساتھ کھڑی ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اگر ایک پْل بھی بناتے ہیں تو وہ سو دن میں نہیں بنتا، سو دنوں میں حکومت کی سمت طے ہوتی ہے، ہم سرکاری ہسپتالوں کو بہتر بنانے پر کام کر رہے ہیں، ہیلتھ کارڈ پورے پاکستان میں لارہے ہیں۔ جوغریب اپنا مقدمہ نہیں لڑ سکتا، حکومت اسے وکیل کر کے دیگی۔ مرغی اورانڈے کی بات پرشور مچایا گیا، بل گیٹس نے جب مرغی اور انڈے کی بات کی تو اسے سراہا گیا، اصل غربت دیہات میں ہے۔

معلومات وہ شخص چھپاتا ہے جسے کوئی خوف ہوتا ہے، میں چاہتا ہوں ہماری حکومت شفاف ہو، سنسر شپ بری چیز ہے، اگرمیرا کوئی وزیر غلط کام کرتا ہے تو چاہتا ہوں وہ بے نقاب ہو، برآمدات بڑھنا شروع ہوگئی ہیں، منی لانڈرنگ پر اسی ہفتے قانون لارہے ہیں۔

تحریک انصاف پہلی بار برسراقتدار آئی ہے اس لئے حکومتی امور کا تجربہ نہ ہونے اور مختلف اداروں کو چلانے اور انہیں قابو کرنے کے گُر اور حکمت عملی سے آگاہ نہ ہونے کے بنا اسے شروع دن ہی سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اپوزیشن بھی حکومت کی اس کمزوری سے بخوبی آگاہ ہے اسی لئے وہ حکومت کی ہر پالیسی اور بیان پر نا تجربہ کاری کا شور مچاتے ہوئے اسے آڑے ہاتھوں لے رہی ہے۔

اس تناظر میں کبھی کبھار یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت سیدھے سادے معاملات میں بھی کنفیوژن کا شکار ہو جاتی اور اسے اپوزیشن کے اٹھائے گئے اعتراضات اور تنقید کے مقابلے میں اپنا بھرپور دفاع کرنا پڑ رہا ہے۔ وزیراعظم نے یوٹرن لینے کے عمل کی حمایت کی تو اپوزیشن نے اس بیان کا خوب مذاق اڑایا اور وزیراعظم کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

صحافیوں سے گفتگو کے دوران وزیراعظم نے ایک بار پھر اپنے اسی موقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یوٹرن عظیم لوگ ہی لیتے ہیں۔ وزیراعظم نے ملکی معاملات کو چلانے کے لئے سو دن کا ایجنڈا دیا کہ اس دوران وہ انقلابی تبدیلیاں لانے اور ترقی کا واضح رخ طے کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن ان سو دنوں میں کچھ ایسا نہ ہو سکا جس سے حکومتی موقف کی تائید ہو البتہ وزیراعظم نے اپنی گفتگو میں یہ بات ضرور کہی کہ سو دن میں پل بھی نہیں بنتا، سو دن میں تو سمت کا تعین ہوتا ہے۔

اب وزیراعظم نے غربت کے خاتمے کے لئے انڈے اور مرغیوں کے کاروبار کا مشورہ دیا ہے تو اس پر بھی مخالف حلقوں کی جانب سے خوب لے دے ہو رہی ہے۔ وزیراعظم نے اس بارے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ میں ڈیری اور پولٹری معیشت کا بڑا حصہ ہے‘ حلال گوشت کی تجارت 2ہزار ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے جس میں بدقسمتی سے پاکستان کا کوئی کردار نہیں اگر اس تجارت کو بھرپور انداز میں فروغ دیا جائے تو یہ دیہات میں موجود غربت کو کم کرنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔

وزیراعظم نے معاشی صورت حال پر سابق حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ جب ن لیگ کی حکومت آئی تو اڑھائی ارب ڈالر کا خسارہ تھا مگر جب اس نے اقتدار چھوڑا تو ہمیں ورثے میں 19ارب ڈالر کا خسارہ ملا۔ ابھی تک اسمبلی میں اپوزیشن فرینڈلی کردار ادا کر رہی ہے لیکن آنے والے دنوں میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان فاصلے بڑھتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں اور حکومت بھی اپوزیشن کا تعاون حاصل کرنے کے لئے سنجیدہ معلوم نہیں ہوتی۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے معاملے پر وزیراعظم نے اپنا موقف واضح کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن اس معاملے میں تعاون نہیں کر رہی اگر اس کا تعاون نہ ملا تو پھر بھی پی اے سی کا چیئرمین شہباز شریف کو نہیں بنائیں گے بلکہ اپنے طور پر کسی اور کو بنائیں گے۔

حکومت کی کارکردگی کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کے پی کے ہسپتالوں کا فضلہ ٹھکانے لگانے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی بلند بانگ دعوے کرتی تھی کہ کے پی کے کو جنت بنا دیا ہے مگر صورت حال یہ ہے کہ مریضوں کو ادویات نہیں ملتیں جو ملتی ہیں وہ زائد المیعاد ہوتی ہیں‘ ہسپتالوں کا تمام فضلہ ٹھکانے لگانے کے بھی مناسب انتظامات نہیں۔ امید ہے پی ٹی آئی حکومت اپنے ان وعدوں پر عمل درآمد کرائے گی جو اس نے قوم سے کر رکھے ہیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔