بلوچستان حکومت کے 100دن، سیاسی اتار چڑھاؤ نے الجھائے رکھا

رضا الرحمٰن  بدھ 5 دسمبر 2018
ماضی میں ہونے والی نا انصافیوں اور زیادتیوں کے ازالے کیلئے مزید اقدامات کی ضرورت وقت کا تقاضا ہے۔فوٹو: فائل

ماضی میں ہونے والی نا انصافیوں اور زیادتیوں کے ازالے کیلئے مزید اقدامات کی ضرورت وقت کا تقاضا ہے۔فوٹو: فائل

کوئٹہ: وفاقی حکومت کی طرح بلوچستان کی حکومت نے بھی اپنے100 دن پورے کر لئے ہیں ۔100 دن کی جام حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے مختلف آراء ہیں، تاہم ان100 دنوں میں جام حکومت نے جو کام کئے وہ بھی سیاسی و عوامی حلقوں میں زیر بحث ہیں۔

بعض سیاسی حلقوں کے مطابق وزیراعلیٰ جام کمال ان سو دنوں میں کافی اُلجھے رہے گو کہ ان کی حکومت نے مختلف فیصلے کئے لیکن عملدرآمد کافی سست روی کا شکار ہے اس کے علاوہ انہیں پارٹی کے اندر سے بھی کافی دباؤ کا سامنا رہا۔خواہ وہ معاملہ وزراء، مشیروں کے انتخاب کا ہو یا محکموں کے قلمدان سونپنے کا، انہیں مشکلات کا سامنا رہا۔ حال ہی میں اسپیکر اور ایک وزیر کے استعفے نے بھی وزیراعلیٰ جام کمال کو پریشان رکھا۔

بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ اور اسپیکر میں وقتی طور پر جو اختلافات تھے وہ دور کر لئے گئے ہیں لیکن طوفان ابھی تھما نہیں کیونکہ ابھی تک اس حوالے سے بیٹھکیں ہو رہی ہیں، سیاسی ہلچل ابھی ختم نہیں ہوئی۔ سیاسی حلقے سابق وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری کی اچانک کوئٹہ آمد اور اُن کی سیاسی سرگرمیوں کو اہم قرار دے رہے ہیں جبکہ سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی بھی سرگرم دکھائی دے رہے ہیں۔ کوئٹہ میں حال ہی میں سابق وزراء اعلیٰ نواب محمد اسلم رئیسانی اور نواب ثناء اللہ زہری کی ملاقات کو بھی سیاسی حلقے تبدیل ہوتی سیاسی صورتحال میں اہمیت کا حامل قرار دے رہے ہیں۔

سیاسی حلقوں کے مطابق بلوچستان اسمبلی کی اپوزیشن جماعتیں اور اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے دو وزراء اعلیٰ کی سیاسی سرگرمیاں اور رابطے جبکہ برسراقتدار پارٹی بلوچستان عوامی پارٹی کے اندرونی اختلافات نے بلوچستان کے سیاسی درجہ حرارت میں ’’گرمی‘‘ پیدا کردی ہے۔ ان سیاسی حلقوں کے مطابق جام حکومت کیلئے معاونین خصوصی کا تقرر سیاسی طور پر پریشانی کا باعث بنا ہے جہاں ایک معاون خصوصی کے تقرر پر اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو ناراض ہیں وہاں ایک اور معاون خصوصی کے تقرر پر وزیراعلیٰ جام کمال کی اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی نے اپنے پارلیمانی لیڈر اور صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی کے حلقہ انتخاب میں مداخلت قرار دیتے ہوئے اس حوالے سے اپنے سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

مخلوط صوبائی حکومت کی اتحادی جماعت اے این پی نے اس بات کا بھی اظہار کیا ہے کہ ایک اتحادی ہونے کے ناطے وزیراعلیٰ نے معاونین خصوصی کی تقرری کا فیصلہ کرتے وقت کسی کو اعتماد میں نہیں لیا حالانکہ اُنہیں ایسے فیصلے کرتے وقت تمام حلیف جماعتوں کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا ۔ سیاسی حلقوں کے مطابق وزیراعلیٰ جام کمال کو اب’’کمال‘‘ دکھانا ہوگا کہ وہ اس سیاسی بحران سے کیسے اپنے آپ کو نکالتے ہیں؟۔ اور پارٹی سمیت تمام اتحادیوں کو مطمئن کرکے ساتھ لے کر چلتے ہیں؟ ۔ سیاسی حلقوں کے مطابق یہ کہنا بھی درست نہیں کہ جام کمال کی اپوزیشن جماعتیں خاموش ہیں؟ اپوزیشن جماعتیں تمام صورتحال کا بغور جائزہ لے رہی ہیں اور اندرون خانہ رابطوں میں بھی ہیں ان حلقوں کے مطابق تمام سیاسی صورتحال کے پیش نظر اپوزیشن جماعتوں نے اپوزیشن لیڈر کے انتخاب کیلئے بھی سنجیدگی سے غور شروع کردیا ہے اس حوالے سے اُن کے مابین مشاورتی عمل بھی اپنے آخری مراحل میں ہے۔

ریکوڈک، سیندک پراجیکٹ سمیت صوبے کے دیگر وسائل کے حوالے سے اپوزیشن جماعتوں نے سخت رویہ اپنانے کا فیصلہ کرلیا ہے مسلم لیگ (ن) کے رہنما و سابق وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر ریکوڈک سمیت صوبے کے دیگر وسائل پر کوئی سودے بازی کی گئی تو وہ اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ملکر نہ صرف احتجاج کریں گے بلکہ مزاحمت کرنا پڑی تو اُس سے بھی گریز نہیں کریں گے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ پہلے وہ بلوچ اور اس سرزمین کے وارث ہیں اس کے بعد کسی جماعت کے رہنما ہیں۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہیں اگر اپنی سرزمین کے دفاع کیلئے اپنے کسی بدترین دُشمن کے پاس بھی جانا پڑا تو وہ جائیں گے۔

جبکہ سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی نے ایک مرتبہ پھر نئے عمرانی معاہدے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاق کو مضبوط کرنے کیلئے قومی وحدتوں کو زیادہ سے زیادہ اختیارات دیئے جائیں۔ 1940ء کی قرار داد کی دستاویز کو بنیاد بنا کر نیا عمرانی معاہدہ کیا جائے سی پیک کے مین اسٹیک ہولڈر بلوچستان اور خیبر پختونخوا ہیں لہٰذا جو بھی اس حوالے سے معاہدے اور مذاکرات کئے جائیں وہ کوئٹہ اور پشاور میں بیٹھ کر کئے جائیں۔ لاہور، اسلام آباد اور بیجنگ میں ہونے والے معاہدے اور مذاکرات ہمارے لئے قابل قبول نہیں ہم انہیں کسی صورت تسلیم نہیں کریں گے۔

بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ایک طرف بلوچستان میں سیاسی ہلچل جاری ہے لیکن دوسری جانب اگر وزیراعلیٰ جام کمال کے سو دن کی کارکردگی کو مدنظر رکھا جائے تو ان سو دنوں کی قلیل مدت میں اُنہوں نے نظام کی بہتری کیلئے بہت سے ایسے اقدامات کئے ہیں جن کے مستقبل قریب میں مثبت نتائج برآمد ہونے کی توقع ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان اقدامات پر عملدرآمد سست روی کا شکار ہے لیکن جو اقدامات کئے گئے ہیں وہ خالصتاً عوامی فلاح و بہبود کیلئے کئے گئے ہیں اور باہمی اعتماد اور افہام و تفہیم کے ساتھ کئے جانے والے ان فیصلوں میں بہت سے ایسے فیصلے ہیں جن کے دور رس نتائج برآمد ہونگے۔

سو دنوں میں مخلوط صوبائی حکومت نے کابینہ کے چار اہم اجلاس منعقد کئے اور ان اجلاسوں میں ہونے والے فیصلوں پر عملدرآمد کیلئے متعلقہ محکموں کو فوری طور پر ہدایات جاری کرنے کے ساتھ ساتھ مانیٹرنگ کے نظام کو بھی فعال کیا گیا جبکہ ڈویژنل اور ضلعی سطح پر کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں کو ترقیاتی منصوبوں، اسکولوں، ہسپتالوں اور عوام کو پانی کی فراہمی کے منصوبوں کی نگرانی کی ذمہ داری سونپی گئی تاکہ عوام کو صحت و تعلیم اور پینے کے صاف پانی جیسی بنیادی سہولیات فراہم ہو سکیں اور ترقیاتی منصوبوں کی معیاری اور بروقت تکمیل بھی ممکن ہو سکے۔ ہسپتالوں میں صحت و صفائی پرخصوصی توجہ دی جا رہی ہے خاص طور سے گائنا کالوجسٹ کے شعبے میں زچہ و بچہ کی زندگیوں کی حفاظت کو یقینی بنانا اور ان کی غذائی ضروریات کو پورا کرنا بھی حکومت کی ترجیحات کا حصہ ہے۔

پبلک سروس کمیشن کے قواعد میں بعض اہم ترامیم کی منظوری موجودہ مخلوط حکومت کا اہم فیصلہ ہے جس سے کمیشن کی کارکردگی اور افادیت میں مزید اضافہ ہوگا ان ترامیم میں کمیشن کے اراکین کی تعداد بمع چیئرمین 12 ہوگئی ہے جن میں کم از کم دو خواتین بھی شامل ہونگی اور تمام ڈویژنز کی نمائندگی بھی ہوگی اسی طرح عوامی ضروریات اور علاقوں کی یکساں ترقی کے منصوبوں کو بھی فوقیت دی جا رہی ہے جس سے براہ راست صوبے کے تمام عوام کو بلا تخصیص فائدہ ہوگا۔اس کے علاوہ پوسٹنگ ٹرانسفر میں بھی تمام محکموں میں سیاسی اثر و رسوخ سے ہٹ کر فیصلے کئے جا رہے ہیں تاکہ گڈ گورننس کے دعوؤں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکے۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کے حوالے سے ایک مربوط پالیسی اور ماضی میں ہونے والی نا انصافیوں اور زیادتیوں کے ازالے کیلئے مزید اقدامات کی ضرورت وقت کا تقاضا ہے اور موجودہ صوبائی حکومت سے عوام ایسی ہی توقعات وابستہ رکھے ہوئے ہیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔