پشاور اور کوئٹہ میں دہشت گردی

ایڈیٹوریل  پير 1 جولائی 2013
 پشاور کے نواحی علاقے بڈھ بیر میں سیکیورٹی فورسز کے قافلے پر بم حملے سے دو ایف سی اہلکار‘ خاتون اور بچے سمیت 18 افراد شہید اور 9 اہلکاروں سمیت 40 کے قریب زخمی ہو گئے۔ فوٹو: اے ایف پی

پشاور کے نواحی علاقے بڈھ بیر میں سیکیورٹی فورسز کے قافلے پر بم حملے سے دو ایف سی اہلکار‘ خاتون اور بچے سمیت 18 افراد شہید اور 9 اہلکاروں سمیت 40 کے قریب زخمی ہو گئے۔ فوٹو: اے ایف پی

اتوار کو پشاور اور کوئٹہ میں دہشت گردی کے افسوسناک واقعات پھر رونما ہوئے۔ پشاور کے نواحی علاقے بڈھ بیر میں سیکیورٹی فورسز کے قافلے پر بم حملے سے دو ایف سی اہلکار‘ خاتون اور بچے سمیت 18 افراد شہید اور 9 اہلکاروں سمیت 40 کے قریب زخمی ہو گئے۔ کوئٹہ میں ہزارہ ٹاؤن میں امام بار گاہ کے قریب خود کش دھماکے میں 9 خواتین اور 2 بچوں سمیت 30 افراد شہید ہو گئے۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ بلوچستان‘ خیبرپختون خوا اور کراچی میں بم دھماکے اور قتل و غارت کے واقعات روز مرہ کا معمول بن چکے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب یہاں دہشت گردی کاکوئی نہ کوئی واقعہ رونما نہ ہوتا ہو۔ کوئٹہ میں ہزارہ برادری پر یہ حملہ پہلی بار نہیں ہوا‘ اس سے قبل بھی ہزارہ برادری پر حملے سے درجنوں افراد مارے جاچکے ہیں۔ ہزارہ منگول برادری اس ظلم اور زیادتی کے خلاف کئی بار دھرنے بھی دے چکی ہے لیکن اس کے باوجود حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

مرکز اور صوبوں میں نئی جمہوری حکومتیں آنے کے بعد یہ امیدیں لگائی جا رہی تھیں کہ بم دھماکوں اور قتل و غارت گری کا سلسلہ روکنے کے لیے کوئی حکمت عملی اختیار کی جائے گی مگر افسوس ایساکچھ نہ ہو سکا اور نئی حکومت کو آئے ابھی ایک ماہ کا عرصہ بھی نہیں گزرا کہ بم دھماکوں اور قتل و غارت گری کے واقعات تواتر سے رونما ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ پیر کو بھی دہشت گردوں نے پشاور میں ایک پولیس چوکی کے قریب فائرنگ کر کے 2 پولیس اہلکاروں کو شہید کردیا۔لیکن مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے کوئی ایسی مربوط حکمت عملی سامنے نہیں آ سکی جس سے یہ ظاہر ہو کہ یہ حکومتیں دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنا چاہتی ہیں۔صوبائی حکومتیں مرکز کی طرف دیکھ رہی ہیں اور مرکز صوبائی حکومتوں کی طرف۔

خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گرد گروپوں نے یہ دھماکے کر کے واضح پیغام دے دیا ہے کہ وہ مذاکرات پر یقین نہیں رکھتے اور دہشت گردی کی وارداتیں کر کے موجودہ حکومت کو بھی بے بس اور مفلوج کرنا اور اپنے مذموم عزائم پورا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ سیاسی اور غیر سیاسی حلقے جو حکومت پر یہ دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا فیصلہ نہ کرے اور گولی کا جواب گولی سے دینے کے بجائے گفتگو کا راستہ اپنائے تو اس مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے‘ ان خون ریز وارداتوں سے ان حلقوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں کہ یہ مسئلہ بات چیت سے حل ہونے والا نہیں‘ اس کے لیے بالآخر سخت آپریشن کرنا پڑے گا۔

دہشت گرد مسلسل سیکیورٹی اہلکاروں اور بے گناہ عام انسانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں جس میں اب تک ہزاروں اہلکار شہید اور زخمی ہو چکے ہیں جب کہ دوسری جانب دہشت گردوں کا کوئی نقصان نہیں ہو رہا ہے۔ وہ چھپے ہوئے ہیں اور گھات لگا کر وارداتیں کر رہے ہیں۔خیبر پختونخوا میں اب تک دہشت گردی کی جتنی بھی وارداتیں ہوئی ہیں ان کے مجرم گرفتار نہیں ہو سکے۔گزشتہ دنوں نانگا پربت پر جو دہشت گردی ہوئی اس کے حوالے سے یہ کہا جا رہا ہے کہ دہشت گردوں کی شناخت ہو گئی ہے اور ان کا مرکزی کردار ابھی تک روپوش ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ پاکستان میں حکومتی سطح پر دہشت گردی کے حوالے سے یکساں سوچ کا فقدان ہے۔ ملک کی سیاسی جماعتوں کی بھی یہی سوچ ہے۔ کچھ مذہبی رہنما اور سیاسی رہنما ایسے دلائل دے رہے ہیں جس سے ملک میں مزید ابہام پیدا ہو رہا ہے۔

ان کی باتوں سے عوام بھی ابہام کا شکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف حکومتی سطح پر ابھی تک کوئی کارروائی کرنے کا عندیہ ظاہر نہیں کیا گیا۔خیبر پختونخوا کی حکومت دہشت گردی کو مرکز کے کھاتے میں ڈال دیا۔اس سے سوال کیا جا سکتا ہے کہ کیا بندوبستی علاقوں میں امن و امان قائم کرنا اور ان علاقوں میں موجود دہشت گردوں کو گرفتار کرنا ‘ اس کی ذمے داری نہیں ہے؟اگر یہ اس کی ذمے داری نہیں ہے تو پھر کیا ان کی یہی ذمے داری ہے کہ وہ قومی خزانے سے تنخواہیں اور مراعات حاصل کریں اور عوام خود کش حملوں اور بم دھماکوں میں مرتے رہیں۔بلوچستان کی حکومت پر بھی یہی سوال کیا جا سکتا ہے۔ہزارہ منگول برادری کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس پر محض افسوس کا اظہار کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔

بلوچستان کی صوبائی حکومت کو کوئٹہ اور دیگر شہروں میں جاری دہشت گردی کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔سیکیورٹی اہلکاروں کی تعداد بڑھانے یا زیادہ سے زیادہ چوکیاں قائم کرنے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ جتنی زیادہ چوکیاں ہوں گی اتنا ہی ان کا دہشت گردوں کے نشانے پر آنے کا خطرہ رہے گا کیونکہ دہشت گرد خود کش حملے‘ ریموٹ بم دھماکے سمیت مختلف حربے استعمال کرکے تباہی مچا رہے ہیں۔ یہ بات بھی منظر عام پر آ چکی ہے کہ کراچی‘ بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں مختلف دہشت گرد گروپوں کے درمیان آپس میں رابطے ہیں اور وہ ایک دوسرے سے معلومات کا مسلسل تبادلہ اور معاونت کرتے رہتے ہیں۔ یہ گروہ انتہائی منظم ہیں۔

دوسری جانب اس امر کا بھی امکان ہے کہ سرکاری اور سیکیورٹی اداروں میں بھی ان کے ہمدرد موجود ہوں جو انھیں تمام معلومات فراہم کرتے ہوں لہٰذا اس معاملے پر بھی نظر رکھنا ضروری ہے۔ دہشت گردوں کے یہ گروہ اپنی وارداتوں سے مسلسل یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ مذاکرات پر یقین نہیں رکھتے اور حکومت کی خاموشی ان کے لیے کمزوری کا پیغام ہے۔اب یہ سوچنا پڑے گا کہ یہ دہشت گرد گروہ اسلام کے اصولوں سے قطعی انحراف کرتے ہوئے بے گناہ مسلمانوں اور سیکیورٹی اہلکاروں کو موت کے گھاٹ اتار کر ملکی بقا اور سالمیت کے لیے چیلنج بن چکے ہیں‘ یہ مجاہدین ہیں نہ حریت پسند بلکہ حقیقتاً مجرم گروہ ہیں۔

حکومت کو اب واضح لائن لینا ہو گی۔ فیصلہ کرنا ہو گا کہ مسلمانوں کا خون بہانے والے ان گروہوں سے مذاکرات کر کے ان کے آگے جھکنا ہے یا ان کے خلاف بھرپور آپریشن کر کے ملکی سالمیت اور تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔ دو رخی پالیسی یا سوچ سے یہ مسئلہ کبھی حل نہیں ہو گا اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا کہ کون سی قوتیں ان دہشت گردوں کو ہتھیار‘ تربیت اور مالی امداد فراہم کر رہی ہیں، ان ذرایع کا بھی سدباب کرنا ہو گا۔ ملک کے اندر جو سیاستدان یا مذہبی رہنما چونکہ چنانچہ کی باتیں کر کے ملک میں کنفیوژن پیدا کر رہے ہیں ‘ان کا بھی محاسبہ کیا جانا چاہیے۔ملک سے بڑھ کر کوئی سیاسی پارٹی ‘شخصیت یا ادارہ نہیں ہے۔

دوسری جانب تمام سیکیورٹی اداروں اور ایجنسیوں کو آپس میں رابطے کو منظم کرنا ہو گا جب تک ان اداروں کے درمیان ہم آہنگی اور رابطہ نہ ہو گا تو تنہا کسی ادارے یا ایجنسی کے لیے ان دہشت گردوں سے نمٹنا مشکل امر ہے۔ آج دہشت گردوں سے پاکستان ہی نہیں پوری دنیا کو خطرہ ہے۔ پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے بھی اس حقیقت کو محسوس کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف مل کر لڑیں گے۔

یہ خوش کن امر ہے کہ انھوں نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مہارت اور دھماکا خیز مواد کی تباہی کے لیے مزید سازو سامان پاکستان کو فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ پاکستان کے لیے بھی یہ ناگزیر ہو چکا ہے کہ وہ دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور ذرایع سے استفادہ کرے‘ روایتی طریقوں سے دہشت گردی پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ وفاق سمیت تمام صوبائی حکومتیں اور سیاستدان دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کریں اور ملک کے تحفظ اور سالمیت کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہو کر میدان عمل میں کود پڑیں ورنہ دوغلی پالیسی پاکستان میں کبھی استحکام نہیں آنے دے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔