جدید ڈکشنری کا ایک سیمپل

وسعت اللہ خان  پير 1 جولائی 2013

چونکہ یہ فیوژن ( اختلاط ) کا دور ہے۔ وہ زمانہ ہے جب ہماری عادات و اطوار ، نیت ، درست و نادرست کے پیمانے، نگاہیں ، وعدے، نظریات، حروف وغیرہ یا تو اصل مطالب کھو چکے ہیں یا پھر انھوں نے جدید معنی میں پناہ لے لی ہے۔لہذا ضرورت ہے ایک ایسی لغت تیار کرنے کی جو موجودہ دور اور اس کے لسانی و مصلحتی تقاضوں سے کما حقہ ہم آہنگ ہو۔اس ضمن میں یہ ایک ٹوٹی پھوٹی کوشش ہے۔ امید ہے کہ ماہرینِ لسانیات اس سمپل کو سائنسی بنیادوں پر مزید آگے بڑھانے پر غور فرمائیں گے۔۔۔۔

( سچ ) ایک افسانوی پرندہ ہے جو کسی کو دکھائی نہیں دیتا لیکن سب اس کی تلاش میں مارے مارے گھوم رہے ہیں۔
( جھوٹ ) سچ کے جڑواں بھائی کو جھوٹ کہتے ہیں۔ مگر جس طرح خالص سونے سے زیور بنانے کے لیے اس میں کھوٹ ملانا پڑتا ہے، اسی طرح خالص جھوٹ بھی آج کل کام نہیں آتا۔کیونکہ سچ ہو کہ جھوٹ ، خالص استعمال سے دونوں دیسی گھی کی طرح قبض کرتے ہیں۔لہذا جھوٹ کو سچ میں تھوڑا تھوڑا ملا کر صبح شام استعمال کرنا کہنے اور سننے والے کے لیے زیادہ مفید اور ہاضم ہے۔

(سیاست ) کبھی یہ سوشل سائنسز کا مضمون تھا۔ اب فزکس ، کیمسٹری اور ریاضی کی طرح سیاست بھی سائنس کی ایک شاخ ہے۔جس طرح موسیقی کے گھرانے ہوتے ہیں اسی طرح سیاسی راگ اور فارمولے بھی سینہ بسینہ نسل در نسل گھرانوں میں منتقل ہوتے ہیں۔مگر میتھ کے برعکس سیاست کیمسٹری کی طرح ایک لچکدار مضمون ہے۔سیاست میں ضروری نہیں کہ دو جمع دو چار ہی ہوں۔ وقت ، حالات اور ماحول کے مطابق دو اور دو پانچ ، پونے تین یا دو جمع دو بائیس بھی ہوسکتے ہیں۔جسے سیاست میں صرف دو اور دو چار کرنے کی خواہش ہے، اس کے لیے بہتر ہے کہ وہ سیاست سے نو دو گیارہ ہو کر کسی کالج یا اسکول میں سیدھا سیدھا میتھ پڑھائے۔

( ترقی ) اس سے مراد وہ اسکیمیں ہیں جو عوامی فائدے کے نام پر بنائی جاتی ہیں۔ان اسکیموں سے عوام کی ترقی بھلے ہو نا ہو لیکن بنانے والے ضرور ترقی کر جاتے ہیں۔
( فی کس آمدنی ) یہ ایک ایسی نشہ آور گولی ہے جومنہ میں رکھتے ہی وعدے کی طرح گھل جاتی ہے اور محمود و ایاز ، کالے گورے ، غریب اور امیر کا فرق دل سے نکال دیتی ہے۔اسے نگلنے والے چپراسی کو بھی لگتا ہے کہ وہ بھی سال بھر میں اتنے ہی پیسے کماتا ہے جتنے بل گیٹس کماتا ہے۔ہر حکومت بجٹ کے موقع پر یہ گولیاں بڑی تعداد میں تیار کرکے مفت تقسیم کرتی ہے۔

( بجٹ ) یہ وہ معمہ ہے جسے متوسط طبقے کو سال بھر مصروف رکھنے کے لیے ایجاد کیا گیا ہے۔کیونکہ امیر کو بجٹ کی ضرورت نہیں اور غریب کو بھی اس کی ضرورت نہیں۔

( تجارت) کبھی یہ پیغمبری پیشہ کہلاتا تھا۔آج کل صرف پیشہ ہے۔بلکہ خریدار کے سر پر پڑنے والا تیشہ ہے۔ایک زمانے میں یہ حدیث اکثر جمعہ کے وعظ میں سنائی دیتی تھی کہ قیامت کے دن ایماندار تاجر صحابہ کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔لیکن جب سے تجارت اور عقیدے کا اتحاد ہوا ہے تب سے یہ حدیث کسی عالم کے منہ سے سنے کان ترس گئے۔

( خارجہ پالیسی ) یہ پالیسی جن لوگوں کے نام پر بنائی جاتی ہے، انھیں بتائی نہیں جاتی۔چونکہ وہ اس پالیسی سے ہی خارج ہوتے ہیں، اس لیے اسے خارجہ پالیسی کہتے ہیں۔
( داخلہ پالیسی ) کبھی یہ حکومت بنایا کرتی تھی۔ اب صرف تعلیمی ادارے بناتے ہیں۔

( حب الوطنی ) یہ ایک ایسے جذبے کا نام ہے جس کے تحت ہر وطنی خود سے محبت کرتا ہے اور دوسرے سے توقع رکھتا ہے کہ وہ وطن سے محبت کرے۔پہلے یہ جذبہ خود بخود پرورش پاتا تھا۔جب سے سرکار نے اسے گود لے لیا تب سے لوگ بھی اس کی طرف سے بے فکر ہوگئے۔

( شہادت) اس کے پرانے معنی ہیں گواہی۔جدید معنی ہیں جھوٹی گواہی۔کیونکہ سچی شہادت کی صورت میں گواہ کی شہادت بھی ہوسکتی ہے۔شہادت حق پر جان دینے کو بھی کہتے ہیں۔لیکن جدید لغت میں اس کی ایک تشریح یہ ہے کہ ’’ حق اچھا، پر اس کے لیے کوئی اور مرے تو اور اچھا ‘‘۔

( جمہوریت ) یہ ایک خوشنما پودا ہے جسے بیج کے مرحلے سے درخت تک لانے کے لیے کاشتکار کو بہت محنت کرنی پڑتی ہے۔تب جا کے چار یا پانچ سال میں پھل دینا شروع کرتا ہے۔لیکن یہ اتنا لذیذ پھل ہے کہ اکثر کچا ہی توڑ کے کھا لیا جاتا ہے۔جب کہ اس کے پتے بکریوں اور گائے بھینسوں کے کام آجاتے ہیں۔اکثر گدھ اس درخت کے اندر کا گودا بہت شوق سے کھاتے ہیں۔

( اسمبلی ) مختلف ملکوں میں اس کے مختلف نام ہیں۔کہیں یہ لفظ جانوروں کے باڑے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔کہیں گونگوں بہروں کی پنچایت کو اسمبلی کہتے ہیں۔کہیں یہ منتخب نمایندوں کے اجتماع کا نام ہے تو کہیں دنگل کے اکھاڑے کو تو کہیں مچھلی بازار کو پیار سے اسمبلی کہتے ہیں۔پاکستان میں اسمبلی کو ہر وقت سب ہی کچھ نا کچھ کہتے رہتے ہیں لیکن اسمبلی مسکین کسی کو کچھ نہیں کہتی۔

( فوج ) دنیا کے دو ایک ممالک کو چھوڑ کر یہ ہرجگہ پائی جاتی ہے۔کہیں یہ ملک کے لیے ہوتی ہے اور کہیں ملک اس کے لیے ہوتا ہے۔دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔کہیں چولی آگے تو دامن پیچھے اور کہیں دونوں ایک دوسرے کے پیچھے پیچھے۔۔

( این جی او ) پیاز کی ایک قسم ہے جوگول گول کھلتی چلی جاتی ہے اور آخر میں ہاتھ میں بس چھلکا اور آنکھوں میں پانی رھ جاتا ہے۔مگر دیکھنے میں یہ پیاز بھلی لگتی ہے اور ذائقے میں بھی لاجواب ہے۔ جس طرح کافی ، چیری اور اسٹرابری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے مغرب سے لا کر مشرق میں کاشت کیا گیا۔اسی طرح این جی او کا بیج بھی مغرب میں تیار ہوا لیکن اسے مشرق کی زمین خوب راس آئی۔افریقہ ، ایشیا اور لاطینی امریکا میں اس کی کاشت وسیع پیمانے پر ہوتی ہے۔یہ ایک منافع بخش پیداواری فصل ہے۔اگر زمین نم دار ہو تو موقع شناس زمیندار سال میں دو فصلیں بھی اٹھا سکتے ہیں۔

( انصاف) ایسے خیالی بستر کو کہتے ہیں جس پر ایک بے بس آدمی سر رکھتے ہی سو جاتا ہے اور پھر بے انصافی کے سورج کی گرم شعاعوں سے اس کی آنکھ کھل جاتی ہے اور وہ صافا جھاڑ کے کھڑا ہوجاتا ہے۔جیسے بلی کو خواب میں چھیچھڑے نظر آتے ہیں۔اسی طرح غریب آدمی کو اکثر انصاف کے خواب آتے ہیں۔

( وکیل ) پہلے زمانے میں دلیل سے مسلح لفظوں کے جادوگر کو وکیل کہتے تھے۔مگر آج اس کا مطلب ہے ایسا قانونی ماہر جو قانون کو لاقانونیت اور لاقانونیت کو قانون ثابت کرسکے۔زبان کے ساتھ ساتھ ہاتھ بھی چلا سکے۔شکاری کے ساتھ بھی دوڑ سکے اور خرگوش کے بھی شانہ بشانہ کھڑا ہو اور دونوں سے داد اور فیس بھی لے سکے۔

( صحافی) ایک زمانے میں یہ پرندہ اکثر حقائق کے جنگلات میں پایا جاتا تھا۔چونکہ اس کی کھال اور پر مہنگے بکتے تھے لہذا وقت کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے کاروباریوں نے اس کی فارمنگ شروع کردی۔لیکن فارمی صحافیوں کے پر جنگلی صحافیوں کے مقابلے میں چھوٹے ہوتے ہیں اور وزن بھی زیادہ ہوتا ہے، اس لیے وہ بہت لمبی پرواز نہیں کرسکتے۔چنانچہ ذہین کاروباری آم اور کینو کی طرح فارمی صحافیوں کی کراس بریڈنگ اور گریڈنگ بھی کرتے ہیں۔اے کیٹگری کا پرندہ سب سے زیادہ ڈیمانڈ میں ہونے کے سبب مہنگا بکتا ہے اور آج کل چینل والے اسے فوراً اٹھا لیتے ہیں۔جب کہ بی اور سی کیٹگری والے جہاں دانا دنکا مل جائے وہیں گھونسلہ بنا لیتے ہیں۔ اس پرندے کو پالتو بنانے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں لیکن اب تک اس میں جزوی کامیابی ہی ہو سکی ہے۔

(شاعر ) ایسے دیوانے کو کہتے ہیں جو دوسرے شاعر کو دیوانہ سمجھے۔کچھ عرصے پہلے تک ان دیوانوں کے قدردان بھی بڑی تعداد میں پائے جاتے تھے۔لیکن دال روٹی کے چکر نے اس دیوانے کو ہوشیار اور پرستاروں کو دیوانہ بنا دیا ہے۔

( مولوی ) کلاسیکی لغت میں مولوی ایسے شخص کو کہتے ہیں جو دین کا علم رکھتا ہو اور اسے امانت کے طور پر درست اور آسان طریقے سے عام لوگوں تک پہنچا سکتا ہو۔جدید ڈکشنری کے مطابق مولوی ، راہب، پادری ، پنڈت ، بھکشو ، سادھو ، درویش اور رابی کا ایک ہی مطلب اور کم و بیش ایک ہی سوچ ہے۔البتہ کسی کی تعلیم و طبیعت میں بارودی مصالحہ کم اور کسی میں زیادہ ہوسکتا ہے۔پہلے کے اساتذہ بہت محنت اور ذوق و شوق سے با علم و عمل مولوی تیار کرتے تھے۔لیکن اب ہائبریڈ ٹیکنالوجی نے اساتذہ کا کام آسان کردیا ہے۔

( اسکول ) پرانے وقتوں میں اسے درس گاہ کہتے تھے۔لیکن جب سے جہالت درس کو بھگا کر لے گئی ہے تب سے اسکول کی عمارت عالم سازی کے بجائے روبوٹ سازی کے کام آ رہی ہے۔اسکول کی ایک قسم گھوسٹ اسکول ہے جس میں جن بھوت پڑھتے ہیں۔ لیکن اس میں بھی تعلیمی معیار کم و بیش اینٹ پتھر سے بنے سرکاری اسکول جیسا ہی ہوتا ہے۔
( استاد) پہلے یہ نکمے طلبا کو پیٹتا تھا۔اب نکمے طلبا اور حکومت اسے مل کے پیٹتے ہیں۔

( لوک فن کار ) پرانی ڈکشنری میں اس کا مطلب تھا زمین سے اگنے والی موسیقی کا نگہبان۔لیکن جب سے پیشہ وربازیگروں نے اپنی سیاسی گائیکی کے عوض دائرے میں کھڑے مجمع کے سامنے رومال پھیلا کر ویلیں وصول کرنے کا کام شروع کیا ہے، بچارا لوک فن کار سائڈ پر ہوگیا ہے۔
( آج کے لیے اتنا ہی۔ جلد بازی میں ہم حروفِ تہجی کے اعتبار سے الفاظ ترتیب نا دے پائے۔امید ہے یہ کام قارئین خود کرلیں گے )

( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.comپر کلک کیجیے )

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔