سانحہ ماڈل ٹاؤن کی نئی جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ

ویب ڈیسک  بدھ 5 دسمبر 2018

 اسلام آباد: پنجاب حکومت کی جانب سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی نئی جے آئی ٹی بنانے کے فیصلے پر سپریم کورٹ نے عوامی تحریک کی درخواست نمٹا دی جب کہ دوران سماعت چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ طاہر القادری نے دھرنا دیا لیکن عدالتوں میں نہیں آئے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی دوبارہ تحقیقات اور نئی جے آئی ٹی بنانے کیلئے درخواست کی سماعت کی۔ پنجاب حکومت کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب پیش ہوئے اور کہا کہ پنجاب حکومت نے سانحہ ماڈل ٹاوٴن پر جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے اور حکومت چاہتی ہے واقعے کی شفاف تحقیقات ہوں۔ سپریم کورٹ نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے بیان کی روشنی میں عوامی تحریک کی درخواست نمٹادی۔

دوران سماعت عوامی تحریک کے سربراہ طاہرالقادری عدالت کے روبرو پیش ہوئے اور خود دلائل دیتے ہوئے عدالت کو واقعے کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ واقعے کا مقدمہ درج نہ ہونے پر اسلام آباد میں دھرنا دیا۔

طاہرالقادری نے واقعے کی جے آئی ٹی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کسی مظلوم کا بیان تفتیش میں ریکارڈ نہیں کیا گیا، کسی جے آئی ٹی نے زخمی کا بیان ریکارڈ نہیں کیا، ایسی تفتیش کو تفتیش کہا جا سکتا ہے؟ یتیم لوگ کہتے تھے ہمیں انصاف نہیں ملے گا، طاہر القادری عدالت میں آبدیدہ ہو گئے اور کہا کہ کیا ہم فلسطینی تھے جو ہم پراسرائیلی فوج نے گولیاں چلائیں۔

طاہر القادری نے کہا کہ ٹرائل دوبارہ صفر کی سطح پر آگیا ہے، چار سال ہمارے ملزم اقتدار میں تھے، اس کیس میں تفتیش کے تقاضے پورے نہیں کئے گئے، پولیس نے پہلی جے آئی ٹی میں اندراج مقدمہ کی درخواست تسلیم کی، دو ماہ دھرنا دینے کے بعد ایف آئی آر درج ہوئی، لیکن دوبارہ تفتیش میں ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر کا ذکر نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے بھی روزانہ کی بنیاد پر ٹرائل کا حکم دیا تھا، اس سے زیادہ تیز انصاف کیا دے سکتے تھے؟۔ طاہر القادری نے کہا کہ یہ جاننا ضروری تھا کہ واقعہ کیوں پیش آیا، کڑیاں نہ ملائی جائیں تو تفتیش ہی نہیں ہوگی، ہمارے کیس کی آج تک تفتیش نہیں ہوئی ، ہم بنیادی طور پر ازسرنو تفتیش کروانا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس نے طاہر القادری سے کہا کہ آپ نے دھرنا دے دیا لیکن عدالتوں میں نہیں آئے، عدالت سمیت ہر کام کو دھرنا دیکر مفلوج کیا گیا، آپ کو پہلے ہی اس عدالت میں آنا چاہیے تھا، جن لوگوں کے پاس آپ جاتے تھے وہ عدلیہ سے بڑے نہیں، آپ ان کے پاس گئے جن کا مقدمہ سے تعلق نہیں تھا، دھرنے والوں نے عدالت پر پھٹی پرانی قمیضیں لٹکائی، کیا یہ عدالت کی تکریم ہے؟، ججز کا بھی راستہ روکا گیا، آپ نے مناسب قانونی حکام سے رجوع نہیں کیا۔

نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ عوامی تحریک جے آئی ٹی میں پیش نہیں ہوئی، جے آئی ٹی میں حساس اداروں کے لوگ بھی شامل تھے۔ طاہر القادری نے جواب دیا کہ گرفتاریاں ہو رہی تھی جے آئی ٹی میں کون اور کیسے جاتا؟ بار بار کہا پنجاب حکومت اور وزیر اعظم ہمارے ملزم ہیں، کیا ڈی ایس پی وزیر اعظم اور وزیراعلی کے خلاف تفتیش کر سکتا ہے، الزام چاہے غلط ثابت ہو جائیں لیکن تفتیش ہونی چاہیے، بیریئر ہٹانے کیلئے ہمیں کوئی نوٹس نہیں ملا تھا بلکہ اصل ایجنڈا لانگ مارچ کو روکنا تھا، نئی جے آئی ٹی بنائی جائے، تمام لوگ نئی جے آئی ٹی میں پیش ہوں تو بہتر تفتیش ہو سکے گی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے دیکھنا ہے جے آئی ٹی آزاد تھی یا نہیں اور آپ کا نکتہ ہے کہ تحقیقات شفاف نہیں ہوئیں، یہ بھی دیکھنا ہے کیا عدالت شفاف ٹرائل کے حکم کا اختیار نہیں رکھتی، ریاست مجرمانہ طور پر ملوث ہو تو کیا عدالت حکم نہیں دے سکتی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں ہم ایسی جے آئی ٹی بنائیں جس کی رپورٹ بطور ثبوت پیش نہ ہو سکے۔

پنجاب حکومت نے نئی جے آئی ٹی کے قیام کی حمایت کی اور ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ ہم نے نئی جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس پر عدالت نے درخواست نمٹا دی۔

اس خبرکوبھی پڑھیں: چاہتا ہوں کہ نواز شریف کلیئر ہوں، چیف جسٹس

پس منظر

17 جون 2014 کو لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے باہر قائم تجاوزات کے خاتمے کے لیے پولیس کی جانب سے آپریشن کیا گیا جس کے دوران مزاحمت پر پولیس کی فائرنگ سے 14 افراد جاں بحق اوردرجنوں زخمی ہوگئے تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔