وہ جب اعلان کرتے ہیں بجٹ کا

سعید پرویز  پير 1 جولائی 2013

’’غریبوں ہی کا ہوجاتا ہے جھٹکا‘‘ حبیب جالب صاحب نے کوئی 30 سال پہلے بجٹ کے اعلان پر یہ منظوم تبصرہ کیا تھا اور آج اتنا طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی حال وہی ہے، کھال وہی ہے مال وہی ہے، فال وہی ہے، جال وہی ہے، کال وہی ہے، بس بدلا ہے تو سال کا ہندسہ بدلا ہے۔

امید تھی بلکہ بڑی پکی امید تھی کہ اتنے برے حالوں کو پہنچنے والے عوام کا آنے والی نئی حکومت اتنا تو خیال ضرور رکھے گی کہ مہنگائی میں مزید اضافہ نہ ہو۔ پہلے بھی غریب آدمی مہنگائی اور بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ ہے۔ اس پر ستم یہ کہ 2013 کے الیکشن میں غریبوں کے ووٹوں سے بہت بڑی اکثریت لے کر آنے والی حکومت نے بھی غریبوں کا ہی جھٹکا کرڈالا !

صورت حال یہ ہے کہ تاجر حضرات بھی ٹیکس میں اضافے پر چراغ پا ہیں، تاجر حضرات پہلے ہی پانچ سالہ ’’بھتہ ٹیکس‘‘ کا عذاب عظیم سہہ چکے ہیں، بھتے کی مد میں کروڑوں اربوں روپے لٹا چکے ہیں، اور انکار پر سیکڑوں ساتھیوں کو منوں مٹی تلے دفن بھی کرچکے ہیں۔ الیکشن 2013 میں اتنی بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے کے لیے گھروں سے نکلنے والوں نے ’’تبدیلی‘‘ کے نام پر ووٹ ڈالے تھے۔ پاکستان کی تاریخ میں ریکارڈ ووٹ ڈالے گئے۔ 60 فیصد سے زیادہ ووٹ ڈال کر ملک کے غریب، امیر، تاجر، کسان، مزدور، چھوٹے بڑے سرکاری غیر سرکاری ملازمین، بیرون ملک سے خاص طور پر ووٹ ڈالنے کے لیے آنے والے پاکستانیوں نے بڑے جذبے سے الیکشن 2013 میں حصہ لیا تھا۔

پچھلے کئی سال سے ملک کے حالات نہایت خراب چل رہے ہیں، خصوصاً گزرے پانچ سال تو انتہا کے خراب گزرے۔ بلوچستان جلتا رہا۔ کراچی شہر پاکستان کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی! اس شہر کو تباہ و برباد کردیا گیا، بھتہ گردی، ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکے، علماء کے قتل، وکلاء ڈاکٹرز کے قتل، اور یہ تمام سنگین جرائم کے مرتکب ’’نامعلوم‘‘ مجرم نامعلوم ہی رہے۔ ہزاروں رینجرز اور پولیس موجود، مگر مجرم نامعلوم۔ کراچی شہر کی تجارت کو مفلوج کردیا گیا۔کھلم کھلا لیاری گینگ وار بناکر انسانیت سوز واقعات سرزد کرکے شہر میں خوف و ہراس پھیلایا گیا اور حکومت محض خاموش تماشائی بنی رہی۔صوبہ خیبرپختونخوا میں امریکی ڈرون حملوں اور طالبان خودکش حملوں کے نتیجے میں لوگ مرتے رہے اور مر رہے ہیں۔

بلوچستان،کراچی اور صوبہ خیبرپختونخوا کے حالات کا ہی نتیجہ تھا کہ عوام نے الیکشن 2013 میں پاکستان پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی کا صفایا کردیا اور متحدہ قومی موومنٹ کی بھی چولیں ہلادیں۔ نئی آنے والی مرکزی حکومت مسلم لیگ (ن) ملک کے انتہائی برے حالات سے بخوبی واقف تھی اور ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے یعنی پنجاب میں بھی بہت بڑی اکثریت سے یہی جماعت جیتی ہے۔ لوگوں کو نواز شریف اور شہباز شریف سے بہت امیدیں ہیں۔ لوگ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ یہ دونوں بھائی بہت جلد بجلی،گیس، پانی کا بحران ختم کردیں گے۔ مگر یہ بحران دنوں میں نہیں، سالوں میں ختم ہوں گے۔ وہ بھی اگر کوششیں جاری رہیں۔ چلو جی! یہ بحران تو گزشتہ پانچ سال سے جاری تھے۔ دو ڈھائی سال اور سہی۔ مگر بحران زدہ غریبوں پر مہنگائی کا مزید عذاب نازل کرکے نئی حکومت نے کیا سندیسہ دیا ہے۔ بحران زدہ غریبوں کے ساتھ یہ سلوک کیا جاتا ہے۔ اپنا ایک شعر یاد آگیا:

امیر شہر سے بھی پوچھنا ہے
یونہی رکھتے ہیں سر پر ہاتھ پیارے

مسلم لیگ (ن) کو آئے چند ہی دن ہوئے ہیں۔ نئی حکومت کے اعلانات بڑے اچھے اور عوامی ہیں۔ 1۔وزیر اعظم آفس کا 45 فیصد خرچ کم کردیا گیا۔2۔وزیر اعظم ہاؤس کا 44 فیصد خرچ گھٹا دیا گیا۔3۔بیرون ملک وزراء کے دوروں پر پابندی لگادی گئی۔ 4۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار نے اہم شخصیات کے پروٹوکول ختم کر دیے۔ 5۔ خواجہ سعد رفیق نے اسمبلی تنخواہ اور ٹی اے ڈی اے نہ لینے کا اعلان کیا ہے۔6۔سپریم کورٹ کے پوچھنے پر نواز حکومت نے پرویز مشرف کے خلاف آئین کی دفعہ 6 کے تحت مقدمہ چلانے کا اعلان کردیا ہے۔ یہ ساری باتیں اچھی ہیں۔ عوام ان اقدامات کو سراہیں گے، مگر عوام خاک سراہیں گے؟ کہ جب حکومت نے محض ایک فیصد سیلز ٹیکس میں اضافہ کرکے غریبوں کو مہنگائی کے مزید بوجھ تلے کچل کے رکھ دیا ہے۔

اس ایک فیصد اضافے نے غریب کے روزمرہ استعمال کی تمام اشیاء کی قیمتوں میں مزید اضافہ کردیا ۔آٹا، چینی، گھی، تیل، سبزیاں، دالیں، پٹرول، مٹی کا تیل، بسوں، ویگنوں کے کرائے، سب میں اضافہ ہوگیا۔ غریب پہلے ہی شدید پریشان ہے۔ حکومت نے اسے مزید پریشان کردیا ہے۔ اے حکمرانو! اپنے اچھے اقدامات کی غریبوں سے داد تو وصول کرلیتے، وزیر اعظم ہاؤس اور آفس کے اخراجات میں کی، حکومتی بیرونی دوروں پر پابندی وغیرہ۔ تم حکمرانوں نے غریب کو خوش ہونے ہی نہیں دیا۔ اور وہ بے چارا مزید مہنگائی کے رونے دھونے میں لگ گیا۔ بازاروں میں غریب مہنگائی کے ہاتھوں رسوا ہورہے ہیں، اجڑے چہرے لیے حسرت و یاس کی تصویر غریب بازاروں میں پھر رہے ہیں۔

خدارا ! ایک فیصد سیلز ٹیکس واپس لو، قیمتوں کو واپس نیچے لاؤ اور ٹیکس میں نہیں ’’ٹیکس دینے والوں‘‘ میں اضافہ کرو۔ ایف بی آر کے پاس سروے کا عملہ موجود ہے۔ اسے مزید فعال کرو۔ بہت بڑے بڑے اور چھوٹے ٹیکس چور لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں۔ انھیں ٹیکس نمبر الاٹ کرو۔ اور ابتداء اپنی اسمبلیوں اور سینیٹ سے کرو۔ سب کو نیشنل ٹیکس نمبر دے کر ہر سال ان سے ٹیکس وصول کرو اور غریب کا جھٹکا بند کرو۔ اب وہ نظم سن لیجیے جسے حبیب جالب نے برسوں پہلے لکھا تھا۔

وہ جب اعلان کرتے ہیں بجٹ کا
غریبوں ہی کا ہو جاتا ہے جھٹکا
وہ ایوانوں میں سرمست و غزل خواں
وطن قرضے کی سولی پر ہے لٹکا
مقدر ہے ہمارا تشنہ کافی
بھرا رہتا ہے کم ظرفوں کا مٹکا
وہ کہتے ہیں‘ سناؤ شعر گا کے
ادھر اپنا گلے میں دم ہے اٹکا
جو وہ محسوس کرتا ہے لکھے گا
کہ جالبؔ بھی ہے پکا اپنی ہٹ کا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔