معاشی مسیحا صورتحال سنبھالیں

ایڈیٹوریل  جمعرات 6 دسمبر 2018
وفاقی وزیر خزانہ کا دعویٰ ہے کہ ملک کے اقتصادی اشاریے بہتری کی طرف گامزن ہیں۔ فوٹو:فائل

وفاقی وزیر خزانہ کا دعویٰ ہے کہ ملک کے اقتصادی اشاریے بہتری کی طرف گامزن ہیں۔ فوٹو:فائل

وفاقی وزیرخزانہ اسد عمر نے کہا ہے کہ ملک میں کوئی فوری معاشی بحران نہیں ہے، اس حوالے سے ہیجانی کیفیت پیدا کرنا درست نہیں ، ان کا کہنا تھا کہ برآمدات بڑھ رہی ہیں ،کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہورہا ہے، فنانسنگ گیپ ختم ہو چکا ہے، ملک میں جلد بھاری سرمایہ کاری آئے گی، بنیادی مسائل کے حل کے لیے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ وہ منگل کو گیارہویں جنوبی ایشیائی اقتصادی سمٹ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ چار روزہ کانفرنس کا اہتمام پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) نے کیا ۔

ملک کو درپیش معاشی اور مالیاتی چیلنجز، حکومت کے 100دن کے عمومی وعبوری نتائج ، ڈالرکی ہوشربا اڑان اور پاکستانی روپے کی بے قدری کے پیش نظر اقتصادی مبصرین نے اس ضرورت پر زور دیا ہے کہ حکومت اور وزارت خزانہ معاشی حقائق پر ڈالے گئے پردے ہٹائے اور میڈیا میں معاشی معاملات سے متعلق خبروں اور معروضی حقائق سے عوام کوآگاہ کرے ۔

شنید ہے کہ حکومتی اور وزارتی شعبوں میں رابطہ اور ہم آہنگی کے فقدان کی قیاس آرائیاں بلاجواز نہیں،کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے،اس کا فوری سد باب ہونا چاہیے جب کہ ٹھوس عملی اقدامات سے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ معاشی اور مالیاتی اموروفیصلوں پر وزیراعظم ہاؤس ، اسٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ میں کوئی دوری،کشمکش اور بحران نہیں۔ حقیقت میں سیاسی تکرار اور حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی بات جمہوری عمل کا حصہ ضرور ہے مگر معیشت پرکسی قسم کی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ ملکی مفاد میں ہرگز نہیں ہوسکتی ۔

اس لیے گزشتہ چند روز میں پیدا شدہ معاشی صورتحال پر اپوزیشن اور حکومت کے مابین جو شو ڈاؤن جاری ہے اسے ’’ اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ ‘‘ ہی کہا جاسکتا ہے مگر اس کشمکش کو اور بے یقینی کو پوائنٹ آف نو ریٹرن تک نہیں جانا چاہیے اور ضرورت تحمل ، درست معاشی اقدامات اور میڈیا میں ٹھوس بات کرنے کی ہے تاکہ عوام اور کاروباری حلقوں میں سراسیمگی نہ پھیلے اور سرمایہ کاری کے خواہاں ملکوں کو ملکی اقتصادی صورتحال کے شفاف حوالے سے ایک مربوط ، موثر اور غیر مشروط و غیر مبہم اقتصادی روڈ میپ کی قطعی شفاف جھلک مل جانی چاہیے اور لازم ہے کہ دنیا پاکستان کے معاشی پروگرام اور اقتصادی و مالیاتی پالیسیوں پر کسی قسم کے شکوک وشبہات میں مبتلا نہ ہو۔

وزیر خزانہ نے معاشی بحران یا ہیجان پیدا کرنے سے گریزکی ایک صائب استدعا کی ہے اگرچہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے، تاہم معاشی فیصلوں سے ہونے والے ارتعاش کی ذمے داری حکومت پر عائد ہوتی ہے اور جہاں تک حکومتی معاشی اقدامات، بلنڈرز، تذبذب، تضاد بیانی کا تعلق ہے تو اس کا سارا ملبہ اپوزیشن پر نہیں گرایا جاسکتا، حکمراں پہلے تولیں پھر بولیں کے اصول پر چلیں گے توکوئی ہیجان پیدا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگا۔ یہ عمل اور رد عمل کا سائنسی اصول ہے،اسد عمر سے زیادہ اس چیز سے کون واقف ہوگا۔

وفاقی وزیر خزانہ کا دعویٰ ہے کہ ملک کے اقتصادی اشاریے بہتری کی طرف گامزن ہیں، ایکسچینج ریٹ کا فیصلہ اسٹیٹ بینک کا اختیار ہے اور بینک اس حوالے فیصلہ کرنے کا اختیار برقرار رکھے گا البتہ ضرورت پڑی تو اسٹیٹ بینک کا طریقہ کار مضبوط کیا جائے گا، مرکزی بینک اور میرے درمیان ہفتے میں کئی بار رابطہ ہوتا ہے لیکن ایکسچینج ریٹ کا فیصلہ مرکزی بینک کے پاس ہوتا ہے، پی ٹی آئی کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، اسٹیٹ بینک کی غیر جانبدار اور خود مختار ادارے کی حیثیت برقرار رہے گی،گورنر اسٹیٹ بینک سے رابطہ رہا ہے تاہم اس حوالے سے میکنزم کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

ادھر بتایا جاتا ہے کہ وزیر اعظم آفس اور وزیر خزانہ کے درمیان روپے کی گرتی قدرکے حوالے سے معلومات کے تبادلے کا فقدان دیکھنے میں آیا ہے۔

ایک انگریزی معاصر کے مطابق اسٹیٹ بینک کے گورنر نے وزیرخزانہ اسد عمر کو عرصہ قبل ہی آنے والی صورتحال سے آگاہ کردیا تھا تاہم صحافیوں سے بات چیت کے دوران وزیراعظم نے کہا کہ روپے کی گرتی قدرکا میڈیا سے پتہ چلا۔ اس انکشاف سے پتا چلا کہ معاشی سمت کی درستگی کی ضرورت ہے، وزیراعظم کو ہمہ جہتی مستعدی اورچابک دستی سے اقتصادی معاملات پر اپنی گرفت مضبوط رکھنا ہوگی۔

وزیرخزانہ کے لیے ملکی معیشت کو منزل مراد تک لانے کے لیے چیلنج اعصاب شکن ہے، حکومت پر سب سے بڑا الزام اس کے 100 دنوں کی حد بندی کا لگایا جاتا ہے، اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ ڈیڈ لائن کسی نے حکومت پر مسلط نہیں کی، حکومت نے خود اس کا تعین کیا، وزیراعظم عمران خان اس عرصے میں انقلابی اقدامات کا اعلان کرتے رہے، عام آدمی کی توقعات اور حکومت سے وابستہ امیدوں اور بے شمار امکانات پر میڈیا میں چرچا رہا مگر معاشی ترقی اور بریک تھرو کے لیے جس استقامت، وژن ، ادارہ جاتی ہم آہنگی اور ریلیف مہیا کرنے کی ضرورت تھی اس کی کیمسٹری سے چشم پوشی مہنگی پڑگئی ، بہرحال اب بھی وقت ہے۔ معاشی مسیحا اپنی سمت درست رکھتے ہوئے صورتحال کو سنبھال سکتے ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔