میڈیا اور عوام کے سنگین مسائل

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 6 دسمبر 2018
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

میں فطری طور پر تنہائی پسند ہوں لیکن پچھلے ڈیڑھ دو ماہ سے میں یہ محسوس کر رہا تھا کہ نیوز پیپر انڈسٹری کرائسس میں جاری ہے ۔ آج ہمارے ایک دوست نے بتایا تو ہم حیران رہ گئے کہ ہر ماہ پچاس ساٹھ صحافی نوکریوں سے نکالے جا رہے ہیں۔ صحافی بہت مشکل میں ہیں۔ بعض اداروں میں تین، تین ماہ سے تنخواہیں نہیں ملیں ۔ صحافی بھی ایک قلمی مزدور ہوتا ہے، اسے ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو تنخواہ نہ ملے تو اس کے بچے بھوکے رہ جاتے ہیں، ان کی تعلیم کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے۔

صحافی برادری سخت مشکلات سے دوچار ہے ، ہمارے ملک میں لوٹ مار کا جو سلسلہ جاری ہے اس کی مخالفت صحافتی برادری نے بھی کی کیونکہ اس لوٹ مار کے کلچر سے عام آدمی سب سے زیادہ پریشان تھا۔ صحافی عوام میں سے ہوتے ہیں اور عوام جن مسائل کا شکار ہوتے ہیں، صحافی بھی انھی مسائل کا شکار ہوتے ہیں سوائے ان چند صحافیوں کے جن پر نادیدہ قوتوں کا خاص سایہ ہوتا ہے۔ پاکستان میںیہ انڈسٹری اونچ نیچ سے گزرتی رہی ہے وہ لوگ جو یہ سمجھ رہے تھے کہ عمران خان کے آنے سے ملک کے حالات بہتر ہو جائیںگے۔

کیونکہ نئی حکومت زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح میڈیا انڈسٹری کو بھی کرائسس سے نکالے گی لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ نامعلوم وجوہ سے حکومت میڈیا کے مسائل سے قطعی بے توجہی کا مظاہرہ کر رہی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی کا دور لوٹ مار کا دور تھا لیکن ہم نے دیکھا کہ میڈیا کرائسس سے بچا ہوا تھا۔ دنیا کے ہر جمہوری ملک میں میڈیا کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ پاکستان کی میڈیا انڈسٹری بھی یہی توقع کر رہی تھی کہ عمران حکومت میڈیا کی ترقی کے لیے خصوصی توجہ دے گی لیکن صحافی حیران ہیں کہ جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔

رائے عامہ کی تبدیلی میں میڈیا انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے وہ اہل قلم جو برسہا برس سے عوام کو سسکتے دیکھ رہے تھے وہ امید کر رہے تھے کہ اب غریب عوام کی زندگی میں کچھ بہتری آئے گی وہ حیران ہیں کہ اور زیادہ سنگین مسائل کا شکار ہو رہے ہیں۔ کیا موجودہ حکومت نے اپنے کام کے لیے کچھ ترجیحات طے کی ہیں؟ اگر کی ہیں تو کیا ان میں میڈیا کی بہتری بھی شامل ہے؟

سرمایہ دارانہ نظام میں کوئی کام بغیر معاوضہ نہیں کیا جاتا لیکن میڈیا کے وہ لوگ جو اشرافیہ کے چنگل میں پھنسے ہوئے بائیس کروڑ عوام کو اس عذاب سے نکالنا چاہتے تھے، انھوں نے اس امید کے ساتھ 2018ء کے الیکشن میں تحریک انصاف کو ووٹ دیے اور تحریک انصاف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد وہ حکومت سے توقع رکھ رہے تھے کہ شاید اب ان کے مسئلے حل ہوں گے اسی طرح میڈیا انڈسٹری بھی توقع کر رہی تھی کہ میڈیا کو بھی اس کے پیروں پر کھڑا رہنے کی سبیل کی جائے گی لیکن یہ کس قدر دکھ کی بات ہے کہ میڈیا کی حالت بہتر ہونے کے بجائے بد تر ہو رہی ہے۔

صحافی کوئی سرمایہ دار نہیں ہوتا بلکہ قلمی مزدور ہوتا ہے ہر ماہ جب اسے تنخواہ ملتی ہے تو اس کا گھر چلتا ہے ورنہ فاقہ کشی کی نوبت آ جاتی ہے ترقی یافتہ ملکوں میں صحافی بھی اپنی محنت کا مناسب معاوضہ لیتا ہے۔ ایک آسودہ زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ اسکولوں میں پڑھاتا بھی ہے لیکن پاکستان میں میڈیا انڈسٹری میں کام کرنے والے انتہائی نامناسب معاشی حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ بعض صورتوں میں یہ حضرات مزدور سے بھی کم معاوضہ حاصل کرتے ہیں جو باعث شرم ہے۔

اس حوالے سے سب سے المناک صورتحال یہ ہے کہ صحافیوں کو تین تین ماہ سے تنخواہیں نہیں مل رہی ہیں جس کی وجہ سے صحافی برادری سخت معاشی مشکلات کا شکار ہے ہمارا خیال تھا کہ عمران حکومت میڈیا کے مسائل کو اپنی اولین ترجیح بنائے گی لیکن یہ امید امید ہی رہی۔ صحافیوں کی انجمنیں فعال ہیں ان کی ذمے داری ہے کہ وہ میڈیا کی مالی مشکلات کا اپنی اولین فرصت میں حل بگوش کرنے کی کوششیں کریں۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کہ عمران خان کو مقروض ملک ورثے میں ملا ہے۔ عوام کے مسائل حل طلب ہیں لیکن میڈیا انڈسٹری کی ایک اپنی اہمیت ہوتی ہے جس کی وجہ ہر جمہوری ملک میں اس کو اولین ترجیح دی جاتی ہے۔ سابقہ حکومتوں کے دوران بھی میڈیا کو بد ترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن جو گہرے بادل میڈیا انڈسٹری پر آج چھائے ہوئے ہیں اس کا تقاضا ہے کہ عمران حکومت میڈیا کے مسائل کو اپنی اولین ترجیح بنائے۔

پاکستانی معاشرے کی تربیت میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ فوجی آمروں کے دور میں صحافیوں نے بہت مشکلات کا مقابلہ کیا۔ اب جب کہ ایک مڈل کلاس حکومت پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار برسراقتدار آئی ہے تو میڈیا کی اہمیت میں دو چند اضافہ ہو گیا ہے۔ سابق اشرافیائی حکومتیں ہر قیمت پر عمران حکومت کو گرانا چاہتی ہیں سرمایہ دارانہ نظام میں ہر شعبہ زندگی میں دولت اہم کردار ادا کرتی ہے اس پس منظر میں حکومت کی اولین ترجیح عوام کے روز مرہ کے مسائل حل کرنا ہونا چاہیے، عوام کے مسائل حل ہوںگے تو میڈیا انھیں ہائی لائٹ کرے گا اور اگر عوام کے مسائل حل نہ ہوںگے تو عوام میں مایوسی پیدا ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔