افغانستان میں امن پاکستان سے مشروط

ایڈیٹوریل  جمعـء 7 دسمبر 2018
سارا دارومدار ٹرمپ اور عمران خان کے مابین خیرسگالی اور تنازعات کے تصفیے کی مثبت کوشش کا ہے۔ فوٹو : فائل

سارا دارومدار ٹرمپ اور عمران خان کے مابین خیرسگالی اور تنازعات کے تصفیے کی مثبت کوشش کا ہے۔ فوٹو : فائل

وزیراعظم عمران خان نے افغانستان میں امن اور استحکام کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا ہے جب کہ خطے میں امن کے کاز، امن و مصالحت کے مشترکہ مقصد کے حصول میں امریکی صدر ٹرمپ کے حالیہ مکتوب کا خیر مقدم کیا ہے۔

افغانستان امن عمل کے خواب کی حقیقت پسندانہ تعبیر ڈھونڈنے کی مسلسل کوششوں میں ایک نئی پیش رفت سامنے آئی ہے جو اس اعتبار سے خوش آیند ہے کہ امریکی جنرل میکنزی  نے اعتراف کر لیا ہے کہ افغانستان میں جنگ کے خاتمے اور امن کے قیام میں کامیابی پاکستان کے بغیر ممکن نہیں۔

اس سلسلے میں امن کے نئے امکانات کے لیے بدھ کو وزیراعظم عمران خان سے افغان مصالحتی عمل کے لیے امریکی نمایندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے خیرسگالی کی ملاقات کی، زلمے خلیل زاد نے وزیراعظم کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے نیک خواہشات کا پیغام دیتے ہوئے کہاکہ امریکی قیادت افغانستان تصفیے کے سیاسی حل کے ذریعے خطے میں قیام امن کے مشترکہ مقصد کے حصول کے لیے وزیراعظم کے ساتھ کام کرنے کی خواہاں ہے۔

سفارتی حلقوں کے نزدیک یہ کام ٹرمپ انتظامیہ اپنے ابتدائی ایام میں سرانجام دیتی تو خطے کی صورتحال اور افغان طالبان سے مذاکرات کو منطقی سمت دینے میں مشکلات کم ہوتیں۔ تاہم صدر ٹرمپ کی طرف سے وزیراعظم عمران خان کے نام موصولہ مکتوب پاک امریکا تعلقات میں جمود اور تناؤ میں کمی کا امید افزا پیغام اور افغانستان کی مخدوش سیاسی ، سماجی، معاشی اور جنگی صورتحال میں پیراڈائم موڑ ثابت  ہوسکتا ہے، چنانچہ دیر آید درست آید کے مصداق امریکا کا حقیقت پسندانہ اعتراف امن کے مشترکہ مقاصدکے پرامن حصول کے لیے ایک بنیاد بھی بن سکتا ہے لیکن امریکا کو افغانستان میں امن کے لیے پاکستان سے اپنی کمٹمنٹ کی تکمیل کے لیے ہر حد تک جانا ہوگا جب کہ افغان طالبان سے مذاکرات بھی اس وقت تک نتیجہ خیز نہیں ہوں گے جب تک ٹرمپ خود افغان طالبان سے غیر مشروط بات چیت پر آمادہ نہیں ہوتے۔

امریکا کے لیے افغان طالبان کے مطالبات کو ماننا کڑوی گولی ضرور ہے مگر اس میں امن کا راستہ کلیئر ہونے کا روشن امکان بھی ہے، جنگ افغانستان کے مسئلے کا حل نہیں، وزیراعظم پاکستان نے مفاہمت اور مصالحت کے ذریعے افغان تنازع کے حل کی جس خواہش کا اظہار کیا ہے یہ پاکستان کی امن عمل کے لیے اولین کلیدی حکمت عملی رہی ہے، پاکستان نے بار ہا اس پالیسی کی حمایت کی ہے کہ پرامن افغانستان خطے اور پاکستان کے مفاد میں ہے۔

پاکستان کے اس انداز نظر سے یہ نتیجہ اخذ کرنا بے جا نہ ہوگا کہ امریکا اپنی طویل ترین جنگ کے نتائج سے مطمئن نہیں اور نہ ہی اسے افغان حکومت کی استقامت ، افغان طالبان سے کامیاب مذاکرات اور عسکری لحاظ سے افغان سیکیورٹی فورسز کے دم خم پرکلی اعتبار ہے، اس لیے اب ٹرمپ کو پاکستان یاد آگیا ہے، ادھر جنرل میکنزی نے گزشتہ روز افغان پیس پروسس کے ضمن میں پاکستان کے خطے میں امن بحالی کے کردار کی تعریف کی وزیراعظم نے دوطرفہ تناظر میں ترجیحی شعبوں بالخصوص تجارت، سرمایہ کاری، تعلیم، صحت اور سماجی شعبے کی ترقی میں دوطرفہ رابطوں کو وسعت دینے کی ضرورت پر زور دیا۔

دریں اثنا مائیکروسافٹ کمپنی کے بانی بل گیٹس نے وزیراعظم عمران خان کو پاکستان میں پولیوکے خاتمے پر خراج تحسین پیش کیا ہے، دونوں رہنماؤں نے پاکستان میں آئی ٹی کے شعبے کو تقویت دینے کے لیے بھی تبادلہ خیال کیا اورمختلف شعبوں میں تعاون جاری رکھنے کی یقین دہانی کرائی۔ بل گیٹس پاکستان کے بارے میں ہمیشہ سے حسن ظن رکھتے آئے ہیں، پولیو مہم اور مائیکروسافٹ کا آئی ٹی شعبہ میں تعاون  پاکستان کے لیے ایک اچھی خبر ہے۔

وزیراعظم عمران خان سے پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی ملاقات میں اہم سیکیورٹی اور افغان امن عمل سمیت مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ جاری اعلامیہ کے مطابق وزیراعظم سے آرمی چیف کی ملاقات میں ملکی سلامتی اور فوج کے پیشہ ورانہ امور، دہشتگردی کے خلاف جاری آپریشنز، داخلی و سرحدی سیکیورٹی صورتحال پربات چیت کی گئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ملاقات میں امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے افغان امن عمل میں تعاون بڑھانے کے معاملے پر بھی غورکیا گیا۔

وقائع نگار کے مطابق آرمی چیف سے جاپان کے وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی نے ملاقات کی جس میں باہمی دلچسپی کے امور، پاک جاپان دو طرفہ تعلقات پر بات چیت کی گئی، جاپان کے مشیر قومی سلامتی نے مسئلہ افغانستان کے سیاسی حل کی حمایت کی۔

افغان صورتحال اور صدر ٹرمپ کے وزیراعظم عمران خان کو خط لکھنے کے حوالہ سے امریکی اخبار ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ پاک امریکا تعلقات کی برف پگھلنے کا سارا دارومدار ٹرمپ اور عمران خان کے مابین خیرسگالی اور تنازعات کے تصفیے کی مثبت کوشش کا ہے۔ بہرکیف یہ تجزیہ پاکستان کے تزویراتی کردارکی غمازی کرتا ہے۔ اب ٹرمپ کو فیصلہ کرنا ہے کہ افغانستان میں امن وہ کس طرح لاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔