میڈیا گھٹن کا شکار

نادر شاہ عادل  جمعـء 7 دسمبر 2018

سی پی این ای کی ایک قرارداد میں کہا گیا ہے کہ اس وقت میڈیا گھٹن اور پابندیوں کا شکار ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ پورا معاشرہ پژمردہ ہے۔ جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا ۔ میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی غیر دانش مندانہ قدم اور پرنٹ میڈیا کے لیے خطرناک فیصلہ ہے۔

اس مصلحت شکن بیانیے کی خود توضیحی بنیاد اتنی مضبوط ہے کہ اس میں آزادی صحافت واظہار کی مسلمہ اقدار کی بھرپور ترجمانی کی گئی ہے، قرارداد میں موجودہ حکومت کو صحافت پر شب خون مارنے کی مہم جوئی سے گریزکا صائب مشورہ بھی دیا گیا ہے، مگر عجیب ستم ظریفی ہے کہ ارباب اختیار سے میڈیا کشمکش کے سیاق وسباق میں اگر کچھ مشورے وفاقی وزیراطلاعات و نشریات سے باہم ہوئے بھی ہیں یا مزید ہونگے مگر وزیراعظم کے مشیروں نے جو وضاحتیں پیش کی ہیں اور بیانات جاری کیے ہیں۔

ان سے دل گرفتہ اہل صحافت کے دلوں کی الجھنیں بڑھنے لگی ہیں ۔ طاقت و اقتدارکی غلام گردشوں اور دشت صحافت کے آبلہ پاوں میں رنجشوں کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا دکھائی دیتا ہے،کھلا سا اعلامیہ ہے کہ پرنٹ میڈیا مر رہا ہے یا اس کی تدفین کے بہانے ڈھونڈھے جارہے ہیں، سیاسی افق پر سیاہ بادل چھائے ہوئے ہیں، اگرچہ ایک طرف مالکان ومدیران اخبارات و جرائد اور صحافتی تنظیموں کی جانب سے اصلاح احوال کی اپیلیں جاری ہیں، دوسری طرف سیاسی افراط وتفریط بے حساب ہے، اخبارات کو غیر محسوس دباؤ کا سامنا ہے، شاید پرنٹ میڈیا سے بدگمانی کچھ اور ہے بعینہ اہل قلم سے ان کی پیشہ ورانہ کمٹمنٹ کو اچکنے کے لیے کسی نئے منظر نامے کی تیاری ہے۔

زمانہ گزرا جب سابق گورنر سندھ میر رسول بخش تالپور نے 70 ء کی دہائی میں ایک اخباری انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’ صحافی قلم سے ازار بند کا کام لے رہے ہیں‘‘ لیکن سچ تو یہ ہے کہ جمہوری معاشرے میں صحافی اپنے قلم، زبان اور ضمیر کا قیدی ہوتا ہے اسے کوئی لالچ آزادی صحافت کے باب میں کسی سمجھوتے پر مجبور نہیں کرسکتی ، ہمارے اکابرین اور اساتذہ نے آزادی صحافت کے لیے اپنی زندگیاں وقف کی ہیں، آمروں کے سامنے رکے تو کوہ گراں کی طرح اٹل رہے، ہاں آمریت و جمہوریت دونوں کے ناخوشگوار دورانیے میں پاکستان کے جرات مند اہل صحافت نے صحافتی اقدارکے تحفظ کی خاطر کوئی یو ٹرن کبھی نہیں لیا،اس لیے آج صحافت بظاہر کمزور وکٹ پر ہونے کی سرکاری وش لسٹ کے باوجود اپنی امنگ ، ترنگ اور پیشہ ورانہ جنگ میں کبھی پیچھے نہیں ہٹی،کسی کو آیندہ بھی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔

آج جن کو پرنٹ میڈیا کے پر کترنے کی بے تابی ہے اور وہ جمہوری دور میں اس ستم آرائی پرکمربستہ ہیں تو پلیز ایک منٹ ٹہریں اور سی پی این ای کی قرارداد پر ایک نظر پھر سے دوڑائیں تو چوتھے ستون کی جمہوری ضرورت ان کی سمت درست کرسکتی ہے۔ آخرکون سی جمہوریت ،آزادی صحافت کے بغیر ریاستی استحکام اور سلطانی جمہورکا زمانہ لے آئے گی، وقت آگیا ہے کہ حکومت اور صحافت بھی ایک پیج پر اس خیال سے آہی جائے کہ چوتھے ستون کی تنقید طرز کہن کی حکمرانی کو قانون کی حکمرانی سے کسی دوسری طرف لے جانے سے روکتی ہے، ورنہ ’’تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں‘‘ کا باب کبھی ختم نہیں ہوگا ۔ حکومت اور صحافت کے درمیان کشیدگی ختم ہونی چاہیے، ٹرمپ نے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے خلاف جو موقف اختیارکیا ہے اسے امریکی صحافی عہد حاضرکا عظیم المیہ قراردے چکے ہیں۔

تھامس جیفرسن نے کہا تھا کہ جہاں پریس آزاد ہو وہاں کوئی آزاد نہیں ۔کیا گہری اور فکر انگیز بات کی آزادی ذہن وضمیر سے سرشار اس مرد قلندر نے۔یہ بھی مشہور ہے کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ ابھی پیدا ہی نہیں ہوا۔ اسی طرح جس نے مارشل میکلوہن کی کتاب understanding media: extension of man نہیں پڑھی وہ صحافی کہلانے کا مستحق ہی نہیں ۔ ایک جہاںدیدہ اور تعلیم یافتہ اور بے داغ شخصیت کا مالک صحافی اپنے پیشے کی حرمت سے واقف ہوتا ہے اور اسے اپنے پورے کیریئر میں اس بات کی فکر اور جستجو ہوتی ہے کہ اس کا قلم قوم کی امانت ہے، اور سوچ اخبارکی پالیسی اور سماج و ریاست کی رگوں میں دوڑتے خون کی طرح معاشرتی حقائق کی معروضی رپورٹنگ یا تجزیے اس کا متاع حیات ہیں۔ فیک نیوز سے گریز ہمیشہ صحافتی اقدارکی بنیادی ضرورت رہی ہے، تمام سینئر صحافی اپنے نو آموز جونیئرزکو اس بات کی ڈیسک پر یا کسی شعبہ ہائے ادارت میں معروضیت کی بار بار تلقین کرتے تھے، مگرکیا تماشا ہے کہ فیک نیوزکی بے قابو روایت رپورٹنگ کی جنت امریکا میں رسوائیوں سے دوچار ہے۔

اب آئیے ! اپنے اندر جھانکتے ہیں کہ آزادی صحافت اور قانون کی حکمرانی کے مابین رشتے کی تقدیس کیوں پارہ پارہ ہوئی ۔ نان ایشوز پر صبح وشام اور رات گئے تک بحث وتکرار سے قومی مزاج یا عام آدمی کے مرکزی اعصابی نظام کوکتنی تقویت ملی ہے، کیا وجہ ہے کہ ایک برطانوی صحافی کو یہ کہنے پر مجبور تھا کہ ’’کبھی نیوز پیپر اور آئینہ پر اعتبار مت کرنا۔‘‘ مجھے خبر دینے یا اسے روکنے کی بابت تجزیہ کار مظہر عباس کی حساسیت اورکھلی آنکھ نے چونکا دیا۔ یہ  2015-16ء کی ایک دوپہر تھی کہ ایکسپریس کی کنٹین میں گینگ وارکا تذکرہ چھڑگیا اور بات پہنچی شیرازکامریڈ کی وحشیانہ واردات تک، راقم نے لیاری میں اپنے ذاتی واقعے کے استفسار پر سارا سچ بیان کیا ، مظہرعباس سوچتے رہے، مجھے کسی طور اندازہ نہ تھا کہ وہ گینگ وار کارندوں کی اس بزدلانہ واردات کی خبر نہ چھپنے سے کتنے مضطرب ہونگے لیکن کھانے کی میز پر میری مضمحل بدن بولی نے انھیں رنجیدہ کردیا اور وہ اپنے کرنٹ افیئرز کے کمرے میں جاکر اس واقعے کو ویب سائٹ پرمشتہر کرگئے، فیس بک پر اس کا جواب امریکا سے احمر مستی خان نے بروقت دیا، عذیر بلوچ اور اس کے کارندوں کی لیاری میں سرگرمیوں پر شدید تنقید ہوئی ۔

بعد ازاں معلوم ہوا کہ اس واقعے کی خبر سینئر رپورٹر احتشام مفتی کی کوشش پر روکی گئی، استدلال مضبوط تھا کہ خبر چھپنے سے گینگ وارکارندوں سے مزید مہم جوئی اور دہشتگردی کا خطرہ تھا۔ اسی رپورٹر نے لندن میں مقیم حبیب جان کو بھی شیرازکامریڈ اور گینگ وار کمانڈروں کی غیر انسانی وارداتوں سے آگاہ کیا، مجھ سے حبیب جان نے تفصیل لے کر عذیر بلوچ سے رابطہ کیا، چنانچہ افطار سے دوگھنٹے قبل مجھے شیرازکامریڈ نے دفتر میں فون کرکے شرمندگی کا اظہارکیا، تاہم بات کسی قانون شکن کارندے کی کارروائی تک محدود نہ تھی ۔ شیرازکامریڈ کا اس وقت طوطی بولتا تھا، لی مارکیٹ ، صرافہ بازار،جونا بغدادی، سیفی لین میں اس کے مسلح دستے آپریٹ کرتے تھے۔

اس کا محفوظ ٹارچر سیل ’’رام گڑھ‘‘ بغدادی اورکلری تھانے سے چند فرلانگ کے فاصلے پر تھا، مجھے اسی ٹارچر سیل سے اپنے بیٹے تیمور شاہ کو ان سے چھڑا کر لے جانا تھا، تیمورشاہ جب ٹارچر سیل سے باہر لایا گیا تو وہ لہو لہان تھا، اس کے سر پرگینگ وارکارندوں نے آہنی مکے مار مارکر اسے نیم جان کردیا تھا ۔ یہ سب ہونے کے باوجود ساتھی صحافیوں کا بنیادی سوال یہی تھا کہ ’’شاہ جی ! آپ تھانے کیوں نہیں گئے‘‘ میں کیا کرتا ، کس کے ہاتھ پر لہو تلاش کرتا کہ پوری لیاری نے دستانے پہنے ہوئے تھے، پی پی کی جمہوری حکمرانی گینگ وار کے سامنے سرنڈرکرچکی تھی، میں اپنی لب بستگی اور بے چارگی کے خنجر سے آپ ہی زخمی ہوکرگرپڑا تھا ، یہی شیراز کامریڈ گینگ وارکے آغاز سے قبل راستے میں جب کبھی ملتا اس کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلتی، میں اس کے سامنے سے گزر کر لی مارکیٹ پہنچتا اور H بس میں سوارہوکر قیوم آباد میں ایکسپریس کے دفتر پہنچتا۔

آج صورتحال مختلف ہے، گینگ وارکی تدفین ہوچکی، گینگ لیڈر مارے جا چکے یا بیرون ملک فرار ہوگئے، لیاری کی سیاسی شناخت اور سماجی وکاروباری رونقیں لوٹ آئی ہیں، رینجرز اور پولیس نے مشترکہ آپریشن سے امن بحال کیا ہے مگرلیاری کو گینگ وار نے 50 سال پیچھے دھکیل دیا ہے۔ علاقے کی نئی نسل کو حسین و تانبدہ مستقل کے لیے شہر قائد کے باضمیر حلقوں کی رفاقت حاصل ہوئی ہے جو اس استدلال کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے کہ لیاری کو ماضی کے جرائم ، سیاسی دلدل میں بلاوجہ گھسیٹا نہ جائے بلکہ اس پرامن لیاری کی صورت گری کی جائے جس نے تعلیمی ، ادبی، صحافتی اور ثقافتی شعبوں میں اپنی الگ انفرادیت برقرار رکھی ۔یہ وہی لیاری ہے جس کے مایہ ناز فٹ بالر محمد عمر سے جواہر لال نہرو اور دلیپ کمار نے درخواست کی تھی کہ ’’پلیز! بھارت چھوڑ کر نہ جائیں۔‘‘ نئی نسل کو وہی لیاری چاہیے جہاں قدم قدم پر برازیلین ’’پیلے‘‘ کے پرستار موجود ہیں جن میں سیکڑوں پیلے اور عثمان ڈمبلے بن کھلے مرجھا گئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔