فہمیدہ ریاض۔۔۔۔ بحرِ بیکراں

ش فرخ  جمعـء 7 دسمبر 2018

غالب لائبریری کا دعوت نامہ تھا۔ فہمیدہ ریاض کے شعری مجموعے ’’بدن دریدہ‘‘ کی تقریب رونمائی تھی۔ مرزا ظفر الحسن کی زندگی میں غالب لائبریری میں آئے دن تقریبات ہوتی رہتی تھیں۔ حاضرین کی تعداد بس واجبی سی ہوتی تھی۔ لیکن اس روز ہال حاضرین سے چھلک رہا تھا۔ فہمیدہ جوان تھیں، خوبصورت تھیں لیکن اس وقت تک وہ اس قدر مشہور نہیں ہوئی تھیں کہ اتنے سارے لوگوں کو کھینچ لیتیں۔

دراصل کتاب کے عنوان نے ستم ڈھایا تھا۔ ان میں بیشتر ایسے حضرات تھے جو بدن دریدہ پر بھڑک اٹھے تھے، جیسے پورنوگرافک فلموں سے لذت حاصل کرتے ہیں۔ مجھے یہ نہیں معلوم کہ انھیں کتنی مایوسی ہوئی۔ وہ فہمیدہ کے سخن کی گہرائی تک پہنچ پائے یا منٹو اور عصمت کو یاد کر کے سر کھجاتے رہے۔

رات کے ساڑھے دس بجے تھے۔ میں نے فیس بک کو کھولا تو جیسے آسمان سر پرگر پڑا ہو۔ دوستوں کو فون کیے کہ کوئی اس خبرکی تردید کر دے کہ فہمیدہ چلی گئیں۔ اس روز غالب لائبریری کی تقریب کے بعد لوٹنے لگی تو ایک آواز کان میں پڑی کہ ’’فہمیدہ کے اشعار بہت بے بحر ہیں‘‘ کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ وقت کے ساتھ یہ لا ابالی شاعرہ بحرِ بیکراں بن جائے گی۔ وہ شعر کہے گی یا نثر لکھے گی اس کی ہر موج کی لہک بے مثال ہو گی۔

بدن دریدہ پرکالم لکھنے لگی تو بہت سے سوال تھے کہ فہمیدہ نے اپنے شوہر کو کیوں چھوڑا؟ وہ تو اچھا آدمی تھا۔ فہمیدہ لندن چھوڑ کرکیوں آئیں، کا جواب یوں تھا کہ فہمیدہ کو اچھے شوہر اور اچھے شہر اچھے نہیں لگتے۔ یہ میری صحافیانہ خباثت تھی، لیکن کچھ دوستوں کو میرا یہ جملہ بہت بھایا۔ فہمیدہ، انیس ہارون کی بچپن کی دوست تھیں، اکثر ہمارے دفتر آ جاتیں۔ ضیا الحق نے چھاپا مارا تو فہمیدہ پر کڑا وقت آ گیا اور وہ دہلی چلی گئیں۔ ان کے جلاوطنی کے دور میں مارشل لا سے خوفزدہ لوگ دہلی جا کر بھی ان سے ملنے نہیں جاتے تھے۔

سن 86ء میں، میں دہلی گئی۔ سوچا کچھ بھی ہو مجھے اس سے ضرور ملنا ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ نیشنل پریس ٹرسٹ کی میری نوکری چلی جائے گی۔ فہمیدہ کہہ رہی تھیں بچے چھوٹے تھے، میں انھیں چھوڑ کر جیل نہیں جا سکتی تھی۔ وہاں بھی بے یقینی اور بے اعتمادی کا عالم تھا۔ دہلی میں پاکستان کے ایک سفارتکار کا فون آیا کہ میں رات میں کسی وقت آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔ فہمیدہ نے انکار کر دیا۔ فہمیدہ کے ہاں جو عورت کام کرتی تھیں اس کے بارے میں یہ جاننا مشکل تھا کہ وہ کون ہے۔ کس کے لیے کام کرتی ہے۔ جاسوس ہے یا مخبر ہے بینظیر بھٹو وطن لوٹیں تو فہمیدہ بھی واپس آگئیں اور انھیں معقول ملازمت مل گئی، عرصے تک ہمارے مابین کوئی رابطہ نہ ہوا۔ کراچی پریس کلب میں مشاعرہ تھا۔ فہمیدہ اسلام آباد سے اس میں شرکت کے لیے آئی تھیں۔ مشاعرے کے بعد رات گئے گھر لوٹی تو لیٹر بکس میں ایک چٹ پڑی تھی۔

فہمیدہ سیدھی میرے گھر آئی تھیں اور میری غیر موجودگی میں یہ تحریر چھوڑ گئی تھیں کہ مصروفیات کی بنا پر تم سے رابطہ نہ کر سکی۔ تمہاری آنکھوں میں شکایتوں کی نمی دیکھی تو تم سے ملنے چلی آئی۔ ایک بار اچانک آگئیں۔ ہمارا ایک دوست بیمار ہے۔ مجھے اس کا گھر معلوم نہیں۔ چلو قریب میں ہی ہے۔ ایک بار رات گئے آئیں۔ کہا شاہد آرکیٹکٹ کو فون کرو، کہو کہ آ کر مل جائے۔ سمجھایا کہ اس کا گھر یہاں سے کافی دور ہے۔ وہ اس وقت نہیں آسکے گا۔ اکثر یہ ہوتا کہ مجھے کہیں جانا ہو تو فون آتا کہ مجھے لیتی ہوئی جانا۔ میں ایسا ہی کرتی اور واپسی پر چھوڑ دیتی۔ اس روز نجانے کیا تھا۔ مجھے کہیں اور جانا تھا۔ میں نے کہا میں نہیں چھوڑوں گی۔ خاموش ہو گئیں۔ پھر ایک دوست سے شکایت کی ’’ش کہتی ہے کہ وہ مجھے لے کر نہیں جائے گی۔‘‘ لیکن بعد میں اپنے آپ میں شرمندہ ہوتی رہی کہ میں نے ایسے کیوں کہا۔

فہمیدہ کا تعلق اقلیتی طبقے سے تھا، وہ طبقہ جس کے ارکان انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں۔ انتہا پسندی کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں بڑھتی ہوئی مذہب پرستی نے تنگ نظروں کا ایک جم غفیر پیدا کر دیا ہے۔ جو دکھ سکھ کے ہر موقعے پر ہزاروں کی تعداد میں جمع ہوتے ہیں جب کہ کوئی بڑا ادیب یا شاعر چلا جائے تو اسے الوداع کرنے والے چند لوگ ہوتے ہیں۔ فہمیدہ کی آخری آرام گاہ کے لیے زمین کا مسئلہ تھا۔ کسی حکومتی ادارے کو اس سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ ایک ادیب نے بہت تگ و دو کے بعد فہمیدہ کی قبر کے لیے زمین حاصل کی۔

فہمیدہ کی رحلت کی خبر سنتے ہی فاطمہ حسن، انیس ہارون، نزہت شیریں اور عطیہ داؤد، انھیں خدا حافظ کہنے لاہور پہنچیں جب کہ لاہور کے چند ترقی پسند دانشور انھیں آخری سلام کرنے گئے تھے کسی نے کہا کہ کسی یونیورسٹی میں فہمیدہ ریاض کی چیئر قائم کی جائے، کاش کسی صاحب اختیار کو یہ سمجھ آ جائے کہ فہمیدہ کے فن پر تحقیق کے لیے ادارہ قائم کیا جائے تاکہ ہماری نوجوان نسل کو معلوم ہو سکے کہ فہمیدہ کون تھیں ان کا مقام کیا تھا۔

فہمیدہ کو اس بے رحم دنیا سے گئے کئی دن گزر گئے۔ بس ان پر لکھنے کا حوصلہ نہیں ہو رہا تھا۔ میں اس دوپہر کو یاد کرتی رہی جب انیس نے اگست میں پیدا ہونے والے اسد ستارے والے دوستوں کو بلایا تھا اورکیک کا ٹکڑا ہر ایک نے کھایا۔ میں آنے لگی تو کمرے کے دوسرے کمرے میں بیٹھیں فہمیدہ اٹھ کر آئیں گلے ملیں۔ کہا عرصے بعد تم سے ملنا اچھا لگا۔ نجمہ سے وہ میری پہلی ملاقات تھی۔ وہ بھی خوش تھیں۔ پھر انیس ہی نے فہمیدہ کے ساتھ شام منانے کا اہتمام کیا۔ جس میں اقلیتی طبقے کی خواتین نے شرکت کی۔ معاشرے کی ناانصافیوں کے خلاف لڑنے جھگڑنے والی عورتیں۔ فہمیدہ اس روز بڑی اچھی لگ رہی تھیں۔ بڑی دلجمعی سے اپنا کلام سنایا۔

عرصے سے فہمیدہ کے دل میں اکیلے سفر کرنے کا خوف سا بیٹھ گیا تھا وہ کچھ عرصہ پہلے اپنی بیٹی ویرتا کے پاس چلی گئی تھیں۔ ایک دوست کو بتایا کہ وہ وہاں ویرتا اور بچوں کے ساتھ خوش ہیں۔ ایک بار ٹالسٹائی کو نہ جانے کیا سوجھی کہ ٹرین میں بیٹھ گئے کبھی واپس نہ آنے کے لیے۔ فہمیدہ لاہور چلی گئیں کبھی لوٹ کر نہ آنے کے لیے۔ چل دیں بلا خوف، اکیلی، کہیں دور۔۔۔۔ فہمیدہ خدا حافظ !

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔