معلم انسانیت ﷺ

عمران احمد سلفی  جمعـء 7 دسمبر 2018
’’ پڑھیے اپنے ربّ کے نام سے جو ہر چیز کا خالق ہے۔‘‘ فوٹو : فائل

’’ پڑھیے اپنے ربّ کے نام سے جو ہر چیز کا خالق ہے۔‘‘ فوٹو : فائل

انسانیت جب ظلمت کی پستیوں میں گری ہوئی تھی، ایک مقدس رات، مقدس سرزمین مکّہ میں تقدس و عظمت کے مالک حقیقی کے مقرب و مقدس فرشتے جبرئیلؑ نے کائنات کی افضل و اکمل ہستی حضور کریمؐ پر پہلی وحی القا کی۔ جس نے سارے عالم کو علم کی اہمیت و فضیلت سے آگاہ کردیا۔

پہلی وحی کا آغاز عقیدے یا اعلان نبوت کے کسی خاص پیغام سے نہیں بل کہ لفظ ’’اقرا‘‘ سے ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر پڑھنے اور علم حاصل کرنے سے انسان کا تعلق قائم ہوجائے تو خالق و مالک کی معرفت حاصل ہوسکے گی۔ یہی وجہ ہے کہ پہلی وحی کی پہلی آیتِ مبارکہ میں ارشاد ہوا: ’’ پڑہیے اپنے ربّ کے نام سے جو ہر چیز کا خالق ہے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ ہر علم پسندیدہ اور محمود نہیں ہے، کیوں کہ بہت سے علوم تو ایسے بھی ہیں جو بہ جائے خود انسانیت کے لیے نقصان اور ضرر کا باعث ہیں۔ اس لیے علم وہی پسندیدہ، نافع اور باعثِ خیر و برکت ہوسکتا ہے جس کا تعلق خالق سے جُڑا ہوا ہو۔

اللہ تعالیٰ نے اس اُمتِ آخر کے لیے جس نبی رحمتؐ کا انتخاب فرمایا، اُ سے اُمّی رکھا کیوں کہ جسے مُعلم انسانیتؐ بننا تھا وہ کسی انسان کا شاگرد کیسے بنایا جاسکتا تھا۔ اس لیے سورۃ رحمٰن میں ارشاد فرمایا: ’’ رحمٰن وہ ہے جس نے قرآن سکھایا۔‘‘ نبی کریمؐ نے اپنی بعثت کے مقصد کو اُجاگر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا: مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔

نبی کریمؐ نے مکّہ مکرمہ میں دارِارقم اور مسجد نبویؐ سے متصل چبوترے کو باقاعدہ درس گاہ بنایا۔ ویسے تو آپؐ کے گھر بھی ایک طرح سے تعلیمی ادارے ہی تھے کہ سید ہ عائشہ صدیقہ ؓ سے اُمت نے آدھا دین سیکھا ہے، آپؓ کی تعلیم و تربیت خود نبی کریمؐ ہی نے فرمائی تھی اور پھر آپؐ ہی کی تعلیم و تربیت یافتہ آپؐ کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ زھرا ؓ جنھوں نے اپنے بچوں خاص طور پر حسنین کریمین ؓ کی ایسی تعلیم و تربیت فرمائی کہ انہوں نے حق کی راہ میں اپنی جانیں قربان کرنے سے بھی دریغ نہ کیا۔

معلم انسانیتؐ کی حیثیت سے حضور کریمؐ کی سب سے اعلیٰ اور ارفع بات قول و فعل میں ہم آہنگی تھی۔ آپؐ جو تعلیم دوسروں کوفرماتے پہلے خود اُس پر عمل کرتے نظر آتے، اپنے لیے عزمیت کا راستہ اختیار فرماتے اور دوسرں کے لیے رخصت اور سہولت کا راستہ بتاتے۔ نبی کریمؐ کے فلسفۂ تعلیم میں تدریج کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ یعنی ایک دم بھاری بھر کم نصاب کے بہ جائے تھوڑا تھوڑا سکھانا۔ جس کا مقصود حاصل ہو یعنی وہ علم انسان کے اخلاق و کردار کا حصہ بنتا چلا جائے۔ اسی طرح آسان سے مشکل کی طرف تعلیم آج مہذب دنیا نے نبی کریم ﷺ کی تعلیمات سے سیکھی ہے۔

جب آپؐ نے سیدنا معاذ بن جبل ؓ کو یمن کا امیر بنا کر بھیجا تو انہیں خاص ہدایت فرمائی کہ اپنے احکامات و معاملات کو لوگوں کے لیے سہولت کا باعث بنانا، دشواری و مشکل نہ بنانا اور انہیں خوش خبریاں دینا، اُنہیں نفرت نہ دلانا۔ اسی طرح ایک مرتبہ کچھ لوگوں نے اپنے پیش امام کے حوالے سے آپؐ سے شکایت کی کہ یہ بہت لمبی نمازیں پڑھاتے ہیں۔ تو آپؐ نے خفگی کا ا ظہار فرمایا اور ہدایت فر مائی کہ نماز کی امامت کرتے ہوئے خیال رکھو کہ بزرگ، بیمار اور اپنی ضرورت سے جانے والے لوگ بھی نماز میں شامل ہوتے ہیں۔

نبی کریمؐ کے نظام تعلیم میں دینی یا دنیاوی تعلیم کی تفریق نہ تھی بل کہ ہر وہ علم جو نیک نیتی کے ساتھ مخلوق کے فائدے کے لیے ہو وہ دینی علم کی شاخ تصور کیا گیا۔ غزوۂ بدر میں وہ جنگی قیدی جو اپنی رہائی کے لیے فدیہ نہ دے سکتے تھے، اُن کے لیے کہا گیا کہ وہ مسلمانوں کے دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں تو یہ ہی اُن کی طرف سے فدیہ ہوگا۔ اگر آج بھی ہم معلم انسانیتؐ کے نظریۂ تعلیم کے مطابق اپنے تعلیمی نظام کی تنظیم نو کریں تو مدرسہ اور اسکول کا فرق ختم ہوجائے گا۔

سیرتِ مصطفویؐ اور نظام تعلیم محمدیؐ ہی دراصل وہ صراطِ مستقیم ہے جس میں کوئی ٹیڑھ اور پیچیدگی نظر نہیں آتی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں معلم انسانیت ﷺ کا نظام تعلیم نصیب فرمائے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔