ناخواندگی ، نوجوان نسل کا بڑا المیہ

ڈاکٹر توصیف احمد خان  منگل 2 جولائی 2013
tauceeph@gmail.com

[email protected]

پاکستان دنیا کا دوسرا ملک ہے جہاں بچوں کی اکثریت اسکول جانے سے محروم ہے ۔ دنیا میں پہلا ملک نائجیریا ہے جہاں بچوں کی اکثریت اسکول نہیں جاتی۔ بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم Society for Protection of Right of Child اسپارک کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں بچوں کی تعداد 19.73 ملین ہے، ان میں سے ایک چوتھائی بچے اسکول نہیں جاتے۔

اسپارک کی 2012 کے بارے میں تفصیلی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس طرح اب ملک میں ناخواندہ بالغ نوجوانوں کی تعداد 25 ملین ہوگئی ہے۔ اس رپورٹ میں تعلیم کے بجٹ کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پہلے تعلیم پر ہونے والے اخراجات جی این پی کا 2.6 فیصد تھے، صورتحال کا تقاضا تو یہ تھا کہ یہ اخراجات عالمی معیار کے مطابق جی این پی کا 5 فیصد ہوجاتے، مگر افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ یہ اخراجات کم ہوکر جی این پی کا 2.3 فیصد تک رہ گئے۔

اس رپورٹ میں صوبوں کے اسکول جانے والے بچوں کے اعداد و شمار کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ پنجاب میں 61 فیصد، سندھ میں 53 فیصد، خیبر پختونخوا میں 51 فیصد، بلوچستان میں 47 فیصد بچے اسکولوں میں رجسٹرڈ ہیں۔ پاکستان میں صرف 70.70 فیصد نوجوان خواندہ ہیں جن میں خواتین کی شرح 61 فیصد ہے۔ صنفی امتیاز انڈکس 2012 میں 135 ممالک ہیں، پاکستان کو 129ویں نمبر پر تعینات کیا گیا ۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 4 لاکھ 23 ہزار بچے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوکر اپنی سالگرہ سے پہلے دنیا چھوڑجاتے ہیں۔ شمالی اور جنوبی وزیر ستان سے پولیو کے 58 کیس رپورٹ ہوتے تھے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بچوں کے خلاف تشدد کے واقعات بڑھ گئے ہیں، گزشتہ سال جنوری سے اکتوبر تک تشدد کے 5 ہزار 66 کیس رجسٹرڈ ہوئے ہیں، مسلم لیگ ن کی تیسری بار اقتدار سنبھالنے کے ساتھ یہ رپورٹ چونکا دینے والی ہے۔ پاکستان میں برسر اقتدار حکومتوں کی کوششوں کے باوجود تعلیمی شعبے کی حالت ناگفتہ بہ ہے، جس کے منفی اثرات ترقی پر پڑ رہے ہیں۔

اگرچہ سرکاری اسکولوں میں ابتدائی تعلیم مفت ہے، بچوں کو اسکولوں میں مفت کتابیں فراہم کرنے کے لیے خاصی رقم مختص کی جاتی ہیں، مگر پاکستان میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ تعلیمی ماہرین کہتے ہیں کہ بچوں کو اسکول نہ بھیجنے کی وجوہات میں غربت، اسکولوں کا وجود نہ ہونا، اسکولوں میں اساتذہ اور فرنیچر کی نایابی کے علاوہ غریبوں کا مخصوص ذہن ہے۔ عظیم سماجی رہنما راجہ رام موہن رائے اور پھر سرسید احمد خان نے 19 ویں صدی میں مغربی تعلیم حاصل کرنے کی مہم شروع کی تھی۔ راجہ رام موہن رائے کی تحریک کا بنیادی محور ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد تھے۔

سرسید احمد خان نے 1857 کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد مسلمانوں میں جدید تعلیم حاصل کرنے کی تحریک شروع کی، سرسید کی اس جدوجہد کا محور مسلمان امرا اور متوسط طبقے کے مرد تھے، سرسید کی زندگی میں مسلمان خواتین کی تعلیم پر توجہ نہیں دی گئی مگر 1905 میں ایک عظیم سماجی کارکن شیخ عبداﷲ نے علی گڑھ کالج میں خواتین کالج قائم کرکے مسلمان خواتین کو جدید تعلیم دلانے کے سلسلہ کے آغاز کیا۔ پاکستان کے قیام کے بعد معاشی اور سماجی ضروریات کی بنا پر امرا اور متوسط طبقے کی خواتین اور مردوں میں تعلیم حاصل کرنے کی شرح بڑھی، اب چاروں صوبوں میں امرا اور متوسط طبقے میں مردوں کے علاوہ خواتین کے اسکول اور کالج کی سطح تک تعلیم حاصل کرنے کی شرح بہت زیادہ قابل رشک ہے مگر نچلے اور متوسط طبقے اور نچلے طبقے میں ناخواندہ افراد کی تعداد میں تشویش ناک اضافہ ہوا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک کی 40 فیصد سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہی ہے، ان لوگوں کے دن کی روزانہ آمدنی ایک ڈالر سے بھی کم ہے، ان کی زندگی کا تعلیم، صحت کی سہولتوں اور ترقی سے تعلق نہیں جوڑا جاسکا ہے۔ یہ غریب لوگ اپنے بچوں کو کھیتوں، کارخانوں، دفاتر، گھروں میں کام کرانے کو اپنے مفاد میں بہتر سمجھتے ہیں، ان میں کبھی کبھی تو لڑکوں کو تو اسکول بھیجنے پر غور ہوتا ہے مگر لڑکیوں کے لیے گھریلو مشقت، کھیتوں میں والدین کا ہاتھ بٹانے یا متوسط طبقے کے گھرانوں میں گھریلو کام کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے۔

کچھ والدین اپنے لڑکے لڑکیوں کو محدود عرصے کے لیے سرکاری اسکولوں میں داخل کرانے پر تیار ہوتے ہیں تو انھیں اپنے گھروں کے قریب اسکول دستیاب نہیں ہوتے اور اگر اسکول موجود ہوتے ہیں تو ان اسکولوں میں اساتذہ نہیں آتے اور کرسی، ڈیسک، بجلی، پانی کی سہولت نہیں ہوتی۔ والدین بچیوں کو اسکول بھیجنے سے گریز کرتے ہیں۔

کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ مذہبی انتہاپسندی بڑھنے سے اسکول نہ جانے والے طلبا میں خاص طور پر طالبات کی شرح کم ہوئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ قبائلی علاقوں پختونخوا، بلوچستان میں خاص طور پر انتہاپسند مذہبی رہنما لڑکیوں کی تعلیم کو غیر اسلامی قرار دینے کے لیے زہر آلود فتوے جاری کرتے ہیں، قبائلی علاقوں اور پختونخوا میں گزشتہ 10 سال کے دوران دہشت گردوں نے خواتین کے اسکولوں اور کالجوں کی عمارتوں کو براہ راست نشانہ بنایا ہے، جو والدین اپنے بچوں کو اسکول بھیجنا چاہتے تھے وہ مجبور ہوگئے ہیں۔ اس طرح لڑکیاں گھروں میں بند ہو کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

پاکستان کے پڑوسی ملک بھارت اور بنگلہ دیش میں بھی اسکول نہ جانے والے طلبا کی شرح زیادہ تھی مگر ان ممالک میں بچوں اور والدین کو تعلیم کی طرف متوجہ کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات کیے گئے، ان اقدامات میں گاؤں کی سطح تک سرکاری اسکولوں کا جال بچھانا اور اسکولوں میں ماہر اساتذہ کے ساتھ فرنیچر، عمارت، پانی، بیت الخلا کی سہولیات کی فراہمی شامل تھی۔ بھارت میں اسکولوں میں بچوں کو ناشتہ، یونیفارم اور کتابوں کاپیوں کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا، اساتذہ کی زیر نگرانی مربوط نظام قائم ہوا، اس کے ساتھ طالب علموں پر تشدد کرنے کو فوجداری جرم قرار دیا گیا، اسکولوں میں طلبا کی تعداد میں خاطر خواہ اضافے کے ساتھ پولیو اور خسرہ جیسی بیماریوں کے خاتمے کے لیے مربوط کوشش کی گئی، زچہ و بچہ میں موت کی شرح کو کم کرنے کے لیے جدید ترین میٹرنٹی ہوم اور اسپتال قائم ہوئے، تعلیم اور صحت کے لیے ان ممالک میں جی این پی کی شرح بین الاقوامی معیار کے مطابق 5 فیصد سے زیادہ کردی گئی ہے۔

اگرچہ 18 ویں ترمیم میں شامل آرٹیکل 25A کے تحت ریاست ہر شہری کو میٹرک تک تعلیم دینے کی پابند ہے مگر موجودہ حکومت کے پہلے بجٹ کے تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اپنا بوجھ نجی شعبے پر منتقل کررہی ہے، نجی شعبے کی بنیاد منافعے پر ہے اور ہر شہری کو تعلیم دینا فوری منافع کا سودا نہیں ہے۔ بجٹ میں جس طرح بنیادی اشیا پر ٹیکس لگایا گیا ہے اس سے ضروریات زندگی مہنگی ہوں گی۔ اس صورتحال میں غریب والدین کے بچوں کو اسکولوں میں تعلیم دلانا مشکل ہوجائے گا، ان کے پاس بچوں کو مدرسوں میں داخل کرانے یا محنت مزدوری کرانے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں رہے گا۔

پاکستان میں تعلیم کے لیے جی این پی کی شرح کم رہی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان خواندگی کی شرح میں دنیا بھر میں سب سے پیچھے رہ گیا، یہ ہی صورتحال صحت کے شعبے میں ہے۔ ملک کی ترقی کے لیے صد فیصد خواندگی ضروری ہے۔ پارلیمنٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کو اس رپورٹ کے مندرجات پر بحث کرنی چاہیے۔ تعلیم اور صحت کے شعبے میں ایمرجنسی نافذ ہونی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔