- ایل ڈی اے نے 25 ہاﺅسنگ سوسائٹیوں کے پرمٹ اور مجوزہ لے آﺅٹ پلان منسوخ کردیے
- امریکا نے اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت کی قرارداد ویٹو کردی
- وزیراعظم کا اسمگلنگ کے خاتمے کے لیے ملک گیر مہم تیز کرنے کا حکم
- جی-7 وزرائے خارجہ کا اجلاس؛ غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ
- پنڈی اسٹیڈیم میں بارش؛ بھارت نے چیمپیئنز ٹرافی کی میزبانی پر سوال اٹھادیا
- اس سال ہم بھی حج کی نگرانی کرینگے شکایت ملی تو حکام کو نہیں چھوڑیں گے، اسلام آباد ہائیکورٹ
- بشریٰ بی بی کو کھانے میں ٹائلٹ کلینر ملا کر دیا گیا، عمران خان
- عمران خان اور بشریٰ بی بی کی درخواستیں منظور، طبی معائنہ کروانے کا حکم
- حملے میں کوئی نقصان نہیں ہوا، تمام ڈرونز مار گرائے؛ ایران
- 25 برس مکمل، علیم ڈار دنیائے کرکٹ کے پہلے امپائر بن گئے
- قومی اسمبلی: جمشید دستی اور اقبال خان کے ایوان میں داخلے پر پابندی
- کراچی میں غیرملکیوں کی گاڑی پر حملہ، خودکش بمبار کی شناخت
- مولانا فضل الرحمٰن کو احتجاج کرنا ہے تو کے پی میں کریں ، بلاول بھٹو زرداری
- کراٹے کمبیٹ 45؛ شاہ زیب رند نے ’’بھارتی کپتان‘‘ کو تھپڑ دے مارا
- بلوچستان کابینہ کے 14 وزراء نے حلف اٹھا لیا
- کینیا؛ ہیلی کاپٹر حادثے میں آرمی چیف سمیت 10 افسران ہلاک
- قومی و صوبائی اسمبلی کی 21 نشستوں کیلیے ضمنی انتخابات21 اپریل کو ہوں گے
- انٹرنیٹ بندش کا اتنا نقصان نہیں ہوتا مگر واویلا مچا دیا جاتا ہے، وزیر مملکت
- پی ٹی آئی کی لیاقت باغ میں جلسہ کی درخواست مسترد
- پشاور میں صحت کارڈ پر دوائیں نہ ملنے کا معاملہ؛ 15 ڈاکٹرز معطل
ڈبے میں سورج: قابلِ تجدید توانائی جمع کرنے والی منفرد ٹیکنالوجی
بوسٹن: امریکی ماہرین نے سورج اور ہوا جیسے قابلِ تجدید (رینیوایبل) ذرائع سے بننے والی بجلی کو مؤثر انداز میں جمع کرنے والا ایک نظام ڈیزائن کیا ہے جسے ’ڈبے میں سورج‘ کا نام دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ قابلِ تجدید ذرائع توانائی کو جمع کرنے کا مؤثر نظام دنیا میں کہیں موجود نہیں اور اسی بنا پر یہ ہوتا ہے کہ ہزاروں شمسی تختیوں (سولر پینلز) کی بجلی سورج ڈوبتے ہی منقطع ہوجاتی ہے۔ اسی سوچ کے تحت میسا چیوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے سائنسدانوں کا نیا ڈیزائن ونڈ ٹربائن اور سولر پلانٹ بند ہونے کی صورت میں بھی ایک وسیع علاقے کو بجلی فراہم کرسکت ہے۔
جس سے ڈبے میں سورج کہا جارہا ہے وہ ایسے بڑے بڑے باکس ہیں جن میں مائع سلیکون رکھی جاسکے گی اور یہ مروجہ بیٹریوں (مثلاً لیتھیئم آئن) سےکہیں ذیادہ مؤثر بھی ہوگا۔ اس کےذریعے بجلی فراہم کرنے والےنظام یا گرڈ کو بھی بجلی فراہم کی جاسکے گی۔
ایم آئی ٹی کے شعبہ میکینکل انجینیئرنگ کے پروفیسرایسی گن ہینری اور ان کے ساتھیوں نے کہا ہے کہ اگر یہ ٹیکنالوجی کامیاب ہوجاتی ہے تو توانائی کو جمع کرنے کا ایک بہت بڑا چیلنج حل ہوجائے گا۔ اس اختراع کی تفصیلات جرنل آف انرجی اینڈ اینوائرمینٹل سائنس میں شائع ہوئی ہے۔
لیکن نیا ماڈل سولر سیل کی بجائے شمسی آئنوں کی مرتکز ہونے والی حرارت کو جمع کرتا ہے اور بجلی کی بجائے حرارت کو جمع کرنا قدرے آسان اور کم خرچ ہوتا ہے۔
اس میں گرم مائع سلیکن کو استعمال کیا جائے گا اورپھر اسے ایک ہیٹ ایکسچینر پائپ سے گزار کر کسی مائع کو بھاپ میں تبدیل کرکے اس سے ٹربائن چلاکر بجلی بنائی جاسکے گی۔ لیکن اس کے لیے پورے نظام کو بلند درجہ حرارت برداشت کرنے کے قابل بنانا ہوگا تاکہ وہ اس عمل میں پیدا ہونے والی 4000 درجے فیرن ہائٹ گرمی کو برداشت کیا جاسکے۔
اس کا دوسرا ورژن فوٹووولٹائک یا سولر سیل بجلی کو بھی حرارت میں تبدیل کرکے جمع کیا جاسکتا ہے۔ پورے نظام کا نام ٹی ای جی ایس ایم پی وی رکھا گیا ہے۔ گریفائٹ اور مائع سلیکن کے بڑے بڑے ٹینکوں میں گرم ہونے کے بعد سلیکون رات کے وقت دہکتا ہوا روشن مٹیریل بن جائے گا۔ پھر اسے ٹیوبوں میں بھر کر سولر سیل کے اوپر سے گزارا جائے گا اور وہ اس روشنی سے بجلی بنائیں گے۔ اب یہ ٹھنڈا مائع دوبارہ ٹینک میں آئے گا اور صبح دھوپ نکلنے پر اسے دوبارہ گرم کیا جاسکے گا۔ اسی طرح ٹینک سے توانائی حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔