اہم تبدیلی؛ امریکا تعاون مانگ رہا ہے

ایڈیٹوریل  ہفتہ 8 دسمبر 2018
وزیراعظم کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ امریکا نے یہ بات پہلی مرتبہ تسلیم کی ہے جو پاکستان تحریک انصاف ہمیشہ کہتی رہی ہے۔ فوٹو:فائل

وزیراعظم کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ امریکا نے یہ بات پہلی مرتبہ تسلیم کی ہے جو پاکستان تحریک انصاف ہمیشہ کہتی رہی ہے۔ فوٹو:فائل

’’امریکا آج ڈومورکہنے کے بجائے افغانستان کا پر امن حل تلاش کرنے میں ہمارا تعاون مانگ رہا ہے‘‘ وزیراعظم عمران خان کا یہ بیان ہماری خارجہ پالیسی کی نئی سمت کی نشاندہی کرتا ہے، پاکستان ایک آزاد اور خود دار ملک کے طور پر امریکا سے تعلقات برقرار رکھنے کا خواہاں ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ ایک آمر نے تیس سال پہلے پرائی آگ میں کودتے ہوئے امریکا کی ذیلی ریاست ہونے کا ثبوت دیا تھا پھر اسٹرٹیجک ڈپتھ پالیسی اور ایک فون کال پر ڈھیر ہونے والے آمر نے بھی ملکی بربادی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔

وزیراعظم کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ امریکا نے یہ بات پہلی مرتبہ تسلیم کی ہے، جو پاکستان تحریک انصاف ہمیشہ کہتی رہی ہے،کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے، ہم نے ہمیشہ افغانستان کے مذاکراتی اور پرامن تصفیے پر زوردیا اوراب کسی اورکی جنگ لڑنے کے بجائے پاکستان ثالثی کے ذریعے تصفیے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ وزیراعظم عمران خان کی دانشمندانہ اور حکمت سے بھرپور پالیسی کو سراہا جا رہا ہے۔

عالمی جریدے ’’ یورو ایشیا فیوچر ‘‘ میں شایع ہونیوالے ایڈم گیری اپنے آرٹیکل میں لکھتے ہیںکہ ’’ عمران خان کی قیادت میںپاکستان کے ساتھ اب دھونس کی سفارتکاری نہیں چلے گی، پاکستان اور امریکا کو مل کر کام کرنے کے لیے نئے مواقعے تلاش کرنے چاہئیں، عمران خان کی نئے اسٹائل کی سیاست کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ امریکا نے بروقت اس خاص نقطے پر اس طرح کی حقیقت کا احساس کیا‘‘ یقینا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ وہ پاکستان کو اپنا دیرینہ دوست سمجھیں، خود کو آقا سمجھتے ہوئے حکم صادر نہ کریں، اب ملکی قیادت ایسے ہاتھوں میں ہے جوکسی دباؤکو خاطر میں لانے والے نہیں۔

امریکا اگر افغانستان سے اپنی افواج کی  واپسی چاہتا ہے، تو اسے عالمی دہشتگردی کی جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے پاکستان سے نرم لہجے میں بات کرنی چاہیے۔ خطے میں امن اور سلامتی کی کنجی پاکستان کے پاس ہے، مسئلہ افغانستان پرامن طریقے سے مذاکرات کی میز پر حل ہوسکتا ہے بشرطیکہ امریکا اپنی افغان پالیسی پاکستان کے تعاون سے بنائے ۔

وزیراعظم نے گزشتہ روز وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تمام اقتصادی اشاریے مثبت رجحان  ظاہرکررہے ہیں، پاکستان ابھرتی ہوئی معیشت کے مرحلے میں داخل ہوگیا ہے، اگر اقتصادی صورتحال واقعی بری ہوتی تو ملک میں کوئی غیرملکی سرمایہ کاری نہ آرہی ہوتی، انھوں نے کہا کہ سوزوکی 450 ملین ڈالر،کوکا کولا 200 ملین ڈالر، پیپسی 400 ملین ڈالر، ایگزن موبائل کمپنی 200 ملین ڈالراور جے ڈبلیوفور لینڈکی طرف سے 900 ملین ڈالرکی سرمایہ کاری کے عندیہ کا ظاہر کیا گیا ہے ۔

بلاشبہ ایک مثبت ، مربوط معاشی پالیسی کی اس وقت جتنی ضرورت ملک کو ہے اس سے پہلے نہ تھی، اس وقت ملکی آبادی بائیس کروڑ  ہوچکی ہے، تحریک انصاف نے اپنے منشور میں ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کر رکھا ہے لہذا روزگار کی فراہمی حکومت کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے ۔ وفاقی کابینہ نے پنجاب میں زیرو ریٹڈ انڈسٹریزکے لیے گیس پر 25.5 ارب روپے کی سبسڈی دینے کی منظوری دیدی۔ اس  فیصلے سے بھی معیشت کا پہیہ چلتا رہے گا۔

وزیراعظم نے مزید کہا کہ بدقسمتی سے بھارت نے کرتار پور بارڈرکھولنے کے خیرسگالی کے ہمارے جذبے کو سیاسی فائدہ حاصل کرنے کا رنگ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام مذاہب کے لوگوں کو ان کی عبادت گاہوں تک رسائی فراہم کرنا پاکستان کی ذمے داری ہے۔

عمران خان کا کہنا صائب ہے ، وہ پہلے بھی اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ بھارت ایک قدم بڑھائے تو ہم دو قدم بڑھائیں گے ، دراصل موجودہ بھارتی قیادت عصبیت اور تعصب کو ابھار کر برسراقتدار آئی ہے لیکن اس نے بھارت کا سیکولر چہرہ داغ دار کردیا ہے۔ پاکستان میں اقلیتیں پوری طرح محفوظ ومامون ہیں اوراقلیتوں کے مقدس مقامات کی حفاظت اور دیکھ بھال پاکستان احسن طریقے سے سرانجام دے رہا ہے جب کہ مقدس مقامات تک رسائی کے حوالے سے بھی آسانیاں پیدا کی جا رہی ہیں ،جب کہ بھارتی مسلمان بابری مسجد کے حوالے سے احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔

کاش! بھارتی قیادت ہوش کے ناخن لے اور پاکستانی حکومت کے دوستی کے پیغام کا مثبت جواب دے تو یہ خطہ امن کا گہوارہ بن سکتا ہے ۔ وفاقی کابینہ نے گزشتہ روز اقتصادی رابطہ کمیٹی کے فیصلوںکی توثیق کردی جن میں 11ملین میٹرک ٹن چینی کی برآمدکی اجازت دی گئی۔ چینی کی پیداوار میں مسلسل اضافہ ایک خوش آئند امر جب کہ برآمد کی اجازت دینا مستحسن اقدام ہے، چینی کی برآمد سے قیمتی زرمبادلہ ہمیں حاصل ہوگا اور عوام ذخیرہ اندوزوں سے بھی محفوظ رہیں گے۔ سفارتی سطح پر درپیش چیلنجزہوں یا پھر ملکی اقتصادی صورتحال و دیگرمسائل ، سب کے لیے میکنزم بناکر ملک کو ترقی راہوں پرگامزن کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔