عمران خان کو ضرورت ہے۔۔۔

اکرام سہگل  ہفتہ 8 دسمبر 2018

عمران خان کی حکومت کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اسے روزمرہ سیاست کے ساتھ ساتھ وسیع بنیادوں پر فیصلہ سازی میں معاونت فراہم کرنے والے مخلص اور قابل مشیر میسر نہیں۔ ایک سے زائد مرتبہ ایسا ہوچکا ہے کہ وزیر اعظم نے اپنی تقاریر یا انٹرویوز میں جلد بازی سے کیے گئے فیصلوں کا اعلان کیا۔ جب تک کڑی نگرانی اور گہرے تجزیے کے ساتھ حقائق کو افسانوں سے اور حققیت کو جذبات سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاتا، اچھے مشیر بھی کچھ نہیں کرسکتے۔

حال ہی میں عمران خان نے بیان دیا کہ فوج تحریک انصاف کے منشور کے ساتھ کھڑی ہے اور پناما کا فیصلہ دے کر چیف جسٹس نے ’’نیا پاکستان‘‘ کی بنیاد رکھی۔ ان باتوں کو تلخ حقیقت تو کہا جاسکتا ہے لیکن ان بیانات پر مخاصمانہ سیاست بازی کا موقع بھی فراہم کیا گیا۔ اس کے بعد حکومت کو ابھی سو روز سے کچھ زائد عرصہ ہوا ہے اور وزیر اعظم نے وسط مدتی انتخابات کے اشارے دینا شروع کردیے جس سے عدم تحفظ کا تاثر ابھرا۔ ان واقعات کو دیکھتے ہوئے یہ بے ساختہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ ایسے مشیروں کے ہوتے ہوئے  کسی کو دشمنوں کی کیا ضرورت؟ عمران خان ان اداروں کو سیاست میں کیوں کھینچ لانا چاہتے ہیں؟

عمران خان کے مشیروں میں بلا شبہ چند انتہائی قابل پیشہ ور افراد ہیں تاہم ان کے قریبی حلقوں میں کچھ ناتجربے کار بھی ہیں۔ کوئی بھی سربراہِ مملکت صرف اپنے علم اور تجربے کی بنیاد پر حکومت نہیں چلا سکتا۔ حکومت چلانا ایک ٹیم ورک ہے، سیاست داں چاہے کتنا ہی تعلیم یافتہ اور صاحب فہم ہو ہر شعبے کا ماہر نہیں ہوتا۔ سیاست داں اور مشیر کے مابین مؤثر معاونت کے رشتے کا انحصار مہارت اور بصیرت سے بھی زیادہ دیانت ، خلوص اور باہمی اعتماد پر ہوتا ہے۔ اس رشتے کو مضبوط کرنے کے لیے محنت درکار ہوتی ہے۔ ایسے ماہرین کسی بھی قیادت کے قریبی حلقوں کا ناگزیر حصہ ہوتے ہیں جو کسی شعبے کی مہارت اور اس میں مطلوبہ صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں اور دانش مندانہ مشورے دینے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

پیشہ ورانہ مہارت اور تخلیقی صلاحیتوں کے حامل مشیر حکومت کے ساتھ ساتھ اب کاروباری، اقتصادی، تعلیمی، قانونی اور انشورنس اداروں کا بھی لازمی حصہ بن چکے ہیں۔ مختلف وزارتوں میں فیصلہ سازی کے عمل میں بھی ان کی مشاورت شامل ہوتی ہے۔ وزیر اعظم ، صدر یا کسی بھی صاحب اختیار کو درست فیصلوں کے لیے ایسی معلومات درکار ہوتی ہے احتیاط کے ساتھ جن سے نتائج اخذ کیے گئے ہوں، جامع فہم اور تجزیے کے بعد لیڈر کے سامنے مختلف آراء آجاتی ہیں جن پر انھیں عمل درآمد کے لیے درست انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ اس کے لیے ایک طریقہ تو امریکا کا ہے جہاں غیر رسمی طور پر ’’قومی سلامتی کونسل‘‘ موجود ہیں لیکن اسے پاکستان میں اختیار کرتے ہوئے انتظامی اختیارات نہیں دیے گئے۔

انتہائی محتاط انداز میں جانچ پرکھ کے بعد ایسے سوچنے سمجھنے والے ماہرین کا انتخاب کیا جاتا ہے جو ملکی مفادات کو ترجیح اول سمجھتے ہوں اور اس کے لیے پُرعزم بھی ہوں، اپنے لیڈر کا مفاد بھی ان کی ترتیب میں ملک کے بعد آتا ہو۔ کسی مشیر کے دل و دماغ میں اگر ذاتی مفادات کے شائبہ بھی پایا جاتا ہوں تو وہ حکمرانوں کی تباہی کا سبب بن سکتے ہیں۔

اچھے اور برے مشیروں کی تاریخ بہت قدیم لیکن انتہائی دل چسپ ہے۔ ان میں سے چند معروف ناموں کا تذکرہ یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے جو اپنے قائدین کی کامیابی میں مددگار ثابت ہوئے۔ 1)چانکیہ ایک انتہائی ماہر حکمت کار اور سفاک سیاست داں تھا، وہ کاروبارِ حکومت چلانے میں موریہ خاندان کے چندرگپتا کا مدد گار تھا۔ اس کی کتاب ’’ارتھ شاستر‘‘ کو ہندو سیاسیات اور سفارت کاری کے لیے مقدس صحیفہ تصور کیا جاتا ہے۔ (2مغل شہنشاہ اکبر کے ہندو مشیر، بیربل کی دانش مندی بے مثال تھی ، وہ اپنی حس مزاح اور مسائل کے حل اختراع کرنے کی بہترین صلاحیت کے باعث شہرت رکھتا تھا۔ 3) پروشیا، جو بعد ازاں جرمن سلطنت میں تبدیل ہوا، کے حکمراں ولہیلم اول کے وزیراعظم بسمارک نے مختلف جرمن رجواڑوں کو جرمن سلطنت کا حصہ بنایا اور مشہور عالم نوکر شاہی اور فوج کی بنیاد رکھی۔

بدقسمتی سے تاریخ میں ایسے کئی مشیر گزرے ہیں جو نااہل اور بد دیانت ثابت ہوئے، ایسے مشیر اپنے لیڈروں کو بھی لے ڈوبے۔ تاہم کچھ ایسے بھی گزرے ہیں جنھوں نے قوم کے بجائے اپنے آقاؤں سے وفاداری نباہنے میں اپنی صلاحیتیں کھپا دیں۔ آصف زرداری کے معتمد خاص رہنے والے سلمان فاروقی بیورو کریسی کو اچھی طرح جانتے تھے اور موصوف کو ریاستی امور اور سینیئر ڈی ایم جی بیوروکریٹس چلانے کے گُر بھی معلوم تھے۔ فاروقی کو معلوم ہوتا تھا کہ کون سا بیوروکریٹ دیانت دار ہے اور کون سا نہیں، بوجھیں کس کس بیوروکریٹ کو کن منافع بخش وزارتوں میں بھیجا گیا؟ اس کے ساتھ ساتھ اچھے انداز میں نظام حکومت چلانے کے لیے کام کے آدمیوں پر بھی فاروقی کی نظر ہوتی تھی۔ لیکن کرپشن اور اچھی طرز حکمرانی ایک ساتھ نہیں چل سکتے، بالآخر زرداری حکومت ناکام رہی۔ نواز شریف نے بھی اپنے انداز میں اسی کلیے پر عمل کیا اور شہباز شریف نے تو انتہائی مہارت سے اس پر عمل کیا۔ لیکن آخر میں دونوں ہی کو سیاست میں خسارہ اٹھانا پڑا۔

عام طور پر بیوروکریٹس کا اپنا ایجنڈا اور اپنے مقاصد ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ گزرے ہیں جو طاقت کے حصول، جذبہ انتقام اور بعض صورتوں میں بے پناہ اختیار کی خواہش میں مگن رہے جب کہ دوسری جانب ان کے حکمرانوں کو اقتدار سے محروم کرنے کے منصوبے بنتے رہے۔ کئی حکمراں اپنے مشیروں کے ہاتھوں عبرت ناک انجام کو پہنچے۔

مشیروں میں ملٹری سیکریٹری(ایم ایس) اور پولیٹیکل سیکریٹری کی بھی بہت اہمیت ہوتی ہے، یہ دراصل صدر یا وزیر اعظم کے دربان ہوتے ہیں۔ فوج میں اے ڈی سی اور پی ایس او کے لیے کس رینک کا انتخاب کیا جاتا ہے یہ اس بات پر منحصر ہوتا ہے ، خدا محفوظ رکھے کئی مرتبہ یہ دربان اپنے حکمرانوں سے زیادہ ’’بارسوخ‘‘ ہوجاتے ہیں۔ عدم تحفظ کا شکار ایسے ہی دربان ہمیشہ ہوشیار رہتے ہیں کہ کوئی بھی ایسا آدمی ان کے آقا کے نزدیک نہ آئے جو اس کے دماغ پر ان  (اور ان کے دوستوں) کے مقابلے میں زیادہ اثر انداز ہونے کی اہلیت رکھتا ہو۔ یہ اپنے مشوروں کے ذریعے اپنے باس کو سب سے الگ تھلگ رکھتے ہیں۔ بظاہر وہ اپنے حاکم کو ’’بری خبروں‘‘ سے ’’محفوظ‘‘ رکھنے کے لیے کرتے ہیں۔ اگر عمران خان بھی حقائق سے اسی طرح دور رکھے گئے جس طرح ماضی میں ہوتا آیا ہے، تو ان کے انجام بھی پہلوں جیسا ہی ہوگا۔ عمران خان اس اعتبار سے خوش قسمت ہیں کہ ان کے عزیز رشتے داروںمیں کوئی بھی اپنی قربت کا فائدہ حاصل نہیں کرسکتا، امید ہے کہ آیندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔

آج کی دنیا میں مشیر مزید اہم ہوگئے ہیں۔ حکمرانوں کو ، بالخصوص دشوار حالات میں، دانش مند مشیر درکار ہوتے ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ اس اہم ترین کام کے لیے افراد کار کا انتخاب کون کرے گا؟ کسی شعبے میں مہارت کے ساتھ ساتھ مشیر کے لیے ضروری ہے کہ وہ پوری دیانت کے ساتھ اپنے لیڈر کے اصولوں پر بھی یقین رکھتا ہو ، وہ اس کا دوست بھلے نہ ہو لیکن ایک قابل اعتماد ساتھی ضرور ہو۔ اس کام کے آغاز کے لیے عمران خان کو ایسے سینیئر ریٹائرڈ بیوروکریٹس سے رابطہ کرنا چاہیے جو اپنی دیانت اور قابلیت کی ساکھ رکھتے ہیں۔

کہنہ مشق مشیروں کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی نگرانی سونپی جائے جہاں وہ حکومتی اداروں اور وزارتوں میں ہونے والی تعیناتیوں پر نظر رکھیں۔ وزیر اعظم کو آیندہ فاش غلطیوں سے بچانے کا یہ واحد راستہ ہے۔ غیر معمولی صلاحیتوں اور اہلیت کے حامل مشیر اشتہار دے کر جمع نہیں کیے جاسکتے، یہ سیاسی سفر کے ساتھی ہوتے ہیں۔ اچھے مشیروں کی تلاش میں بڑی انائیں بڑی رکاوٹ ثابت ہوتی ہیں۔ اس تلاش میں وقت لگ سکتا ہے لیکن لیڈر کو اپنے قریبی حلقوں میں یہ صراحت کر دینی چاہیے کہ کسی کے دماغ میں ذاتی مفادات نہیں ہونے چاہییں۔ ملک کو اس وقت عمران خان جیسے مخلص لیڈر کی ضرورت ہے اور اس سے بھی زیادہ ان کے گرد ایسے لوگ ہونے چاہیں جو کسی بھی ذاتی مفاد سے بالاتر ہوکر مشورہ دیں، اور ایسی ناپختہ پالیسیاں نہ بنائیں جن کے نتیجے میں پیدا ہونے والا ردعمل نہ صرف عمران خان بلکہ ملک کو بھی نقصان پہنچانے کا باعث بنے۔

(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔