لاپتہ افراد کے انسانی مسئلہ کا احساس

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 8 دسمبر 2018
tauceeph@gmail.com

[email protected]

لاپتہ افراد کے مسئلے پر وزیر اعظم، چیف آف آرمی اسٹاف اور اعلیٰ عدلیہ کے درمیان مشاورت کا عمل جاری ہے۔ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے پشاور میں صحافیوں کے سامنے یہ انکشاف کر کے اس مسئلے کی سنگینی کا اقرارکر لیا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے 100 دن اقتدارکے پورے کیے مگر ان سو دنوں میں شہریوں کے لاپتہ ہونے کا سلسلہ تیز ہوا۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ زیادہ تر شہری سندھ اور بلوچستان سے لاپتہ ہوئے۔ کوئٹہ میں گزشتہ ہفتے خواتین نے اپنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاجی کیمپ لگایا اور علامتی بھوک ہڑتال کی ۔ وزیراعلیٰ بلوچستان  سے ملاقات کے لیے وزیر اعلیٰ ہاؤس جانے کی کوشش کی مگر پولیس اور امن و امان کو یقینی بنانے کے فرائض انجام دینے والوں نے اس جلوس کو منتشرکردیا ۔

سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس لینے کے اختیار (Suo-Motu) کو استعمال کرنا شروع کیا تو لاپتہ افراد کے لواحقین کی عرضداشتوں پر کچھ فیصلے ہوئے ۔ افتخار چوہدری کے تنبیہی نوٹسوں کی بناء پرکچھ افراد کو سپریم کورٹ کے سامنے پیش کیا گیا ۔ سرکاری وکلاء نے لاپتہ افراد کی فہرست میں درج بعض افراد کی کیمپوں میں موجودگی کی نشاندہی کی تھی۔ چیف جسٹس نے اپنے ساتھی جج جسٹس جاوید اقبال کی قیادت میں جسٹس غوث محمد اور پختون خواہ کے سابق انسپکٹر  جنرل پولیس کو اس کمیشن کے اراکین کے طور پر مقررکیا تھا۔

اب بلوچستان ہائی کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کو اس کمیشن کا رکن مقررکیا گیا ہے۔ کمیشن کے جاری کردہ اعدادوشمار میں بتایا گیا ہے کہ چند ماہ میں 318 افراد کے لاپتہ ہونے کی شکایات موصول ہوئیں۔ یہ کمیشن 11 مارچ 2011ء کو قائم ہوا ۔کمیشن کے سامنے 5369 عرض داشتیں پیش کی گئیں۔ کمیشن کی کوششوں سے 3609 افراد کا پتہ چلا جب کہ کمیشن 2000 افراد کے بارے میں جاننے میں ناکام رہا۔

انسانی حقوق کے مقدمات کی پیروی کرنے والے ایک وکیل کا کہنا ہے کہ ایجنسیاں ان افراد کے کوائف کی تصدیق کرنے سے انکاری ہیں۔ سرکاری وکلاء کا کہنا ہے کہ یہ افراد کسی سرکاری ایجنسی کی تحویل میں نہیں اور ان میں سے کچھ دیگر ممالک میں روپوش ہوگئے ہیں۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ایک خاتون آمنہ جنجوعہ نے جدوجہد شروع کی تھی۔

آمنہ کے شوہر لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل تھے مگر مسلسل کوششوں کے باوجود جنجوعہ کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چل سکا۔ آمنہ جنجوعہ بہت مایوس ہیں ۔ وہ اپنے تجزیے کی بنیاد پر یہ الزام لگاتی ہیں کہ جب کسی شہری کے لاپتہ ہونے کی شکایت موصول ہونے کے باوجود معاملہ التواء کا شکار ہوجاتا ہے۔ لاپتہ افراد کے لواحقین کی عرض داشتیں سپریم کورٹ کے علاوہ چاروں ہائی کورٹوں کے معزز جج صاحبان کے سامنے بھی پیش ہوتی ہیں۔ معزز جج صاحبان پولیس اور متعلقہ ایجنسیوں کے جوابات سے مایوس ہوکر سخت ریمارکس دیتے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اﷲ نے جولائی میں ایسے ہی مقدمے میں رولنگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ شہری کو لاپتہ کرنا دہشت گردی کی طرح کا ہی جرم ہے۔

انھوں نے اسلام آباد کے سیکٹر F-10 سے لاپتہ ہونے والے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ایک ماہر کے مقدمے میں 47 صفحات پر مشتمل فیصلے میں لکھا تھا کہ کسی شہری کو لاپتہ کرنے کے جرم میں سرکاری افسروں پر جرمانہ ہوسکتا ہے۔ انھوں نے اس مقدمے میں درخواست گزارکو ایک لاکھ 17ہزار 500 روپے بطور معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیا تھا ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک اور معزز جج جسٹس محسن اختر کیانی نے ایسے ہی مقدمے میں وزارت داخلہ اور وزارت دفاع کے سیکریٹریوں پر 20 لاکھ روپے جرمانہ کیا اور لاپتہ افراد کی بازیابی تک متعلقہ افسروں کی تنخواہوں میں کٹوتی کا فیصلہ سنایا۔ جب 2018 انتخابات کے بعد وفاق میں حکومت سازی کا مرحلہ آیا تو تحریک انصاف نے بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل سے ایک 6 نکاتی معاہدہ کیا تھا، یہ تحریری معاہدہ ڈاکٹر عارف علوی نے تحریرکیا۔ اس معاہدے میں دونوں جماعتوں نے لاپتہ افراد کے مسئلے کو حل کرنے کا عہد کیا تھا۔

اختر مینگل نے دو ماہ قبل انسانی حقوق ، قومی کمیشن کے کراچی میں ہونے والی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ اس معاہدے کے بعد صرف بلوچستان سے 235 کے قریب افراد لاپتہ ہوئے ہیں جن میں نو خواتین بھی شامل ہیں۔ اختر مینگل نے انکشاف کیا کہ ان کے گاؤں کا ایک 70 سالہ شخص لاپتہ ہوا۔ وہ یہ بھی الزام لگاتے ہیں کہ اب لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے تاوان طلب کیا جاتا ہے اور لاپتہ افراد کے لواحقین کودھمکیاں دی جاتی ہیں۔ جنیوا میں ہونے والے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے سالانہ اجلاسوں میں یہ معاملہ شامل رہا ۔

وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے دور میں اقوام متحدہ کا ایک تحقیقاتی مشن پاکستان آیا، اگرچہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اقوام متحدہ کے اس فیکٹ فائنڈنگ مشن سے تعاون نہ کیا مگر مشن کے اراکین نے چاروں صوبوں میں لاپتہ افراد کے لواحقین کے بیانات قلم بند کیے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور سول سوسائٹی کے اراکین، صحافیوں اور وکلاء نے اپنے مشاہدات کمیشن کے سامنے پیش کیے تھے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں پیش کی جانے والی رپورٹ سے بین الاقوامی سطح پر خاصی لے دے ہوئی تھی ۔ بھارت کے مندوبین نے اس رپورٹ کو اپنے زہریلے پروپیگنڈے کے لیے بھرپور استعمال کیا مگر لاپتہ افراد کا معاملہ مسلسل التواء کا شکار رہا ۔

انسانی حقوق کی جدوجہد سے منسلک وکلاء کا کہنا ہے کہ ملکی قانون کے تحت جب بھی کسی فرد کو پولیس یا قانون نافذ کرنے کی ذمے دار ایجنسی اپنی تحویل میں لے گی تو متعلقہ تھانے میں اس کی گرفتاری سے متعلق فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (F.I.R) درج کرانا ضروری ہے۔  زیر حراست شخص کو 24 گھنٹوں کے اندر متعلقہ مجسٹریٹ کے سامنے چالان پیش کرنا ضروری ہے، یوں ملزم کو وکیل کرنے اور اپنے لواحقین سے ملاقات کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے مگر جب کوئی فرد لاپتہ ہوجائے تو پولیس یا کوئی اور ایجنسی متعلقہ شخص کی گرفتاری کی تصدیق نہیں کرتے نہ متعلقہ شخص کو مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا جاتا ہے تو پھر انصاف کے بنیادی تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ متعلقہ شخص کتنے ہی خطرناک جرم میں ملوث کیوں نہ ہو، اس کے لواحقین اس کو بے گناہ ہی سمجھتے ہیں۔

لواحقین متعلقہ شخص کی بے گناہی کا پروپیگنڈا کرتے ہیں، متعلقہ شخص کے لاپتہ ہونے کا دورانیہ چھ مہینے، سال یا اس سے زیادہ پر محیط ہوتا ہے تو پھر ذرایع ابلاغ پر خبریں شایع ہوتی ہیں۔ اعلیٰ عدالتوں میں حبس بے جا کی عرض داشتیں دائر ہوتی ہیں۔ جتنا عرصہ سرکاری طور پر خاموشی اختیارکی جاتی ہے تو لاپتہ افراد سے ہمدردی کا عنصر بڑھتا جاتا ہے۔ 10 برسوں کے دوران بہت سے افراد اچانک لاپتہ ہوئے۔ ان میں سے کچھ 6 مہینے ، ایک سال یا زائد عرصے میں اپنے گھروں کو پہنچ گئے، یہ لو گ مسلسل خاموش ہوگئے۔ کچھ ذہنی اور جسمانی امراض میں مبتلا ہوئے۔

جو لوگ بازیاب نہ ہوئے ان کے بچے، بہن، بھائی اور والدین ہر اہم جگہ پر فریاد کرنے پر مجبور ہوئے۔ لاپتہ ہونے والوں میں  شدت پسندوں کے علاوہ بلوچ اور سندھی قوم پرست اور ایم کیو ایم کے کارکنوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ ہر جماعت کے پاس اپنے لاپتہ ہونے والے افراد کی فہرست موجود ہوتی ہے۔ لاپتہ افراد کی تعداد میں تضادات کی بناء پر صورتحال زیادہ خراب ہوجاتی ہے۔ سیاسی جماعتیں مسلسل لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کرتی ہیں۔ نیشنل پارٹی جس کے صدر ڈاکٹر عبدالمالک ہیں نے اپنے منشور میں یہ نکتہ تحریرکیا تھا کہ ریاستی اداروں کے شہریوں کے اغواء کو فوجداری جرم قرار دیا جائے۔ تحریک انصاف، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اور بلوچستان نیشنل پارٹی وغیرہ مسلسل اس اہم مسئلے کے حل کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔