ذکر آزاد

رفیع الزمان زبیری  منگل 2 جولائی 2013

مولوی عبدالرزاق ملیح آبادی نے مولانا ابوالکلام آزاد کے ساتھ اڑتالیس سال گزارے۔ دس سال تو وہ خود مولانا کے گھر میں رہے۔ سفر میں رہتے رہے، جیل میں ان کے ساتھ وقت گزارا، ان کے اخبار کے ایڈیٹر رہے، خلوت جلوت میں، ہر رنگ اور ہر حال میں انھیں دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ اس دور رفاقت میں طرح طرح کے واقعات پیش آئے جن کا ذکر انھوں نے اپنی کتاب ’’ذکر آزاد‘‘ میں کیا ہے۔ یہ کتاب درحقیقت ایک مرقع ہے مولانا آزاد کی زندگی کا۔

عبدالرزاق کو کتے پالنے کا شوق تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ دو قومیں، انگریز اور افغانی، دنیا میں ایسی ہیں جن کا ہر فرد اپنے پاس کتا ضرور رکھتا ہے اور افغانی نسل ہونے کے ناتے وہ بھی اس ’’گناہ‘‘ میں مبتلا تھے۔ مولانا آزاد کے گھر میں ان کے ساتھ رہنے کی وجہ سے کتا پالنے میں انھیں دشواری کا سامنا تھا۔ مولانا کے گھر میں کتے کا کیا سوال؟ بہرحال شوق سے مجبور ہوکر انھوں نے دو چار بار مولانا آزاد سے عرض کیا کہ ایک کتا کیوں نہ رکھ لیا جائے مگر مولانا یہ کہہ کر کہ آپ مجھے کیوں کیچڑ میں گھسیٹنا چاہتے ہیں، مولوی صاحب کہیں گے دیکھو آزاد بھی کتے پالنے لگے، اپنی جان چھڑا لیتے۔ پھر یہ ہوا کہ ایک رات مولانا کی کوٹھی میں ایک چور گھس آیا اور دوسری چیزوں کے علاوہ مولانا کے کمرے میں گھس کر ان کے سوتے میں ان کے تکیے کے نیچے سے ان کا سگریٹ کیس لے اڑا۔

مولوی عبدالرزاق کے لیے یہ ایک خداداد موقع تھا۔ وہ لکھتے ہیں ’’میں کوٹھی کے نچلے حصے میں رہتا تھا۔ چور کے آنے جانے کی خبر تک نہ ہوئی، صبح واقعہ معلوم ہوا۔ یہ پہلا موقع تھا اور ہر شخص ڈرا، سہما ہوا تھا۔ مولانا بھی کچھ گھبرائے ہوئے تھے۔ صبح کی چائے پر میں نے جان بوجھ کر چوروں کی خونخواری کے من گھڑت قصے سنائے۔ مولانا نے فرمایا کہ کسی چوکیدار کو رکھ لیا جائے، گورکھا رکھ لیا جائے۔ میرا مقصد تو کچھ اور ہی تھا۔ عرض کیا، اکثر دیکھا گیا ہے کہ خود چوکیدار ہی چوری کرتے ہیں، یا چوروں سے مل کر چوری کرا دیتے ہیں، گورکھے تو خاص طور پر بدنام ہیں۔

اور فرض کیجیے ایمان دار چوکیدار مل جائے تو آدمی ہے، ہو سکتا ہے سو جائے۔ یہ سن کر مولانا کی آنکھیں کچھ پھٹ سی گئیں فرمانے لگے، تو مولوی صاحب، پھر کیا کیا جائے؟ عرض کیا، معاملہ ذرا پیچیدہ ہے چور گھر دیکھ چکا ہے، کسی نے اسے چیلنج نہیں کیا، جب چاہے گا، گھر چلا آئے گا۔ اب تو مولانا کی بے بسی قابل دید تھی، سوچتے رہے، پھر کہنے لگے، تو مولوی صاحب اب کیا کیا جائے؟ اب میں نے بھی اپنا پارٹ پلے کیا، دیر تک سر جھکائے رہا، گویا بڑی سوچ میں پڑا ہوں۔ مولانا سے صبر نہ ہو سکا، بول اٹھے، مولوی صاحب آخر کچھ تو کہیے۔

اب میں نے عرض کیا، بس ایک ہی صورت دکھائی دیتی ہے مگر وہ صورت آپ کو قابل قبول نہیں ہے۔ مولانا بے تابی سے تقریباً چیخ اٹھے، آخر وہ صورت کیا ہے، جو مجھے منظور نہیں ہے؟ میں نے دبی زبان سے کہا ’’کتا‘‘۔ مولانا بے اختیار ہنس پڑے اور فرمایا، اب یقین ہو گیا کہ آپ بڑے کائیاں ہیں اور بڑے ضدی بھی! لیکن واقعی اب کتے کے سوا چارہ بھی نہیں ہے۔ آپ بندوبست کریں مگر یہ بات طے ہے کہ کتا احاطے میں رہے گا، مکان کے اندر دھما چوکڑی نہیں مچائے گا۔‘‘

مولوی عبدالرزاق اپنی کامیابی پر خوش ہو گئے۔ ایک مہتر کے ذریعے پانچ روپے میں ایک بل ٹیریر کتیا کی پلی منگوا لی گئی اور خود انھوں نے اس کی پرورش کا ذمہ لیا۔ کوٹھی کی بالائی منزل پر مولانا رہتے تھے اور نیچے کی منزل میں کتیا دوڑتی پھرتی تھی۔ لکھنے پڑھنے کے کمرے اور بیٹھک نیچے تھی۔ کتیا تمام کمروں میں سونگھتی پھرتی تھی۔ پہلے تو مولانا کو یہ بہت ناگوار ہوا اور فرمانے لگے کہ اسے نکال باہر کرو مگر رزاق صاحب نے یہ کہہ کر کہ یہی کتے کی اصلی خوبی ہے کہ وہ ہر جگہ سونگھ سونگھ کر اطمینان کر لیتا ہے کہ کوئی گڑبڑ تو نہیں ہے۔ پھر چور نے ادھر گھر میں پاؤں رکھا اور کتے کو انجانی بو ملی ادھر اس نے چور کی گردن دبوچی، مولانا کو مطمئن کر دیا۔ وہ لکھتے ہیں ’’میرا یہ کہنا کچھ غلط بھی نہ تھا۔ واقعی بل ٹیریر کتا جست لگا کر آدمی کی گردن ہی تو پکڑ لیتا ہے اور ایک ہی جھنجھوڑی میں کام تمام کر ڈالتا ہے، مولانا مجبور تھے۔ اس بارے میں مجھے استاد مان چکے تھے۔ پھر وہ جلد ہی کتیا سے مانوس ہو گئے۔ چمکارنے اور نظریں بچا کر کبھی کبھی اس سے کھیلنے بھی لگے۔‘‘

عبدالرزاق نے مولانا آزاد کی گھریلو زندگی کے بہت سے واقعات لکھے ہیں۔ ان سے مولانا کے مزاج اور طبیعت کے مختلف پہلو سامنے آتے ہیں۔ ان کے کھانے پینے کے انداز اور طریقے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

’’میری رفاقت کے زمانے میں مولانا کی خوراک جثے کے لحاظ سے کم نہیں تھی زیادہ ہی کہی جا سکتی تھی لیکن زندگی کے آخری دنوں میں بہت کم ہو گئی تھی۔ وہ صبح تین چار بجے جاگ جاتے تھے، اس وقت میرا ساتھ نہیں ہوتا تھا لیکن اچھا خاصا ناشتہ کرتے تھے اور مرغ کی یخنی بھی پیتے تھے۔ سات بجے پھر چائے اور ناشتہ ہوتا تھا۔ اس موقعے پر اکثر میری حاضری ضروری ہوتی تھی۔ عام طور پر ناشتے میں ٹوسٹ، مکھن اور سستے بسکٹ ہوتے تھے۔ یہ بسکٹ مولانا کی سسرال کالن اسٹریٹ میں بنتے تھے۔ بہت خستہ اور لذیذ ہوتے تھے۔ چائے کبھی لپٹن کی اور کبھی بروک بونڈ کی۔ چائنا چائے کا معاملہ بہت بعد میں شروع ہوا۔ چائے میں مولانا کا ذوق بہت اعلیٰ تھا۔ نہایت لذیذ چائے بناتے تھے۔ مجھے تو کیتلی تک چھونے کی اجازت نہیں تھی۔ فرماتے تھے، بھدے ہاتھ ہیں۔ چائے جیسی لطیف اور نازک چیز کو گوار نہیں ہو سکتے۔

پیالیاں تک دھونے کی اجازت نہ تھی۔ گیارہ بجے دوپہر کا کھانا کھا لیا کرتے تھے۔ دستر خوان پر چاول، سالن، بھاجی اور دال ہوتی۔ مٹھائی کبھی نہیں۔ کسی کھانے، کسی ناشتے پر نہیں۔ مٹھاس سے رغبت ہی نہیں تھی لیکن سرکے، اچار کا شوق تھا۔ ہر کھانے پر سرکے میں لگی ہوئی پیاز، ادرک وغیرہ ہوتی یا کڑوے تیل میں اٹھا ہوا آم، سم یا اول کا اچار۔ کھانے کے بعد قیلولہ ضروری تھا۔ دو ڈھائی بجے اٹھ جاتے اور چائے پیتے۔ پھر سہ پہر کو چائے ہوتی اور ناشتہ بھی۔ اس موقعے پر بسکٹوں کے علاوہ پھل خصوصاً کیلے بھی ہوتے۔ رات کا کھانا بھی جلد کھا کر دس بجے سو جاتے۔

یہ کھانا بھی دن کے کھانے کی طرح ہوتا مگر چاول نہیں روٹی کھاتے۔ اس تفصیل سے ظاہر ہے کہ مولانا کو انواع و اقسام کے کھانوں کا شوق نہ تھا۔ چٹور پن سے نفرت تھی۔ عموماً سادہ کھانے کھاتے۔‘‘ مولوی عبدالرزاق کہتے ہیں کہ انھوں نے کبھی مولانا آزاد کو دسترخوان پر کسی کھانے کی تعریف کرتے نہیں سنا۔ نہ وہ کسی کھانے کو برا کہتے مگر کھانے پر باتیں ضرور کرتے، عموماً تفریحی باتیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔