تاریخ کا وہ دور

مرزا ظفر بیگ  اتوار 9 دسمبر 2018
جب نہروں اور جھیلوں میں گھوڑے کشتیاں چلاتے تھے۔ فوٹو: فائل

جب نہروں اور جھیلوں میں گھوڑے کشتیاں چلاتے تھے۔ فوٹو: فائل

 ہماری اس رنگ برنگی دنیا میں ڈیزل اور برقی موٹرز کی ایجاد سے پہلے سمندروں اور دریاؤں کے پانیوں میں کشتیاں اور بجرے ویسے ہی نہیں تیرتے تھے، بلکہ یہ گھوڑوں اور دوسرے باربرداری والے جانوروں کی مدد سے چلائے یا تیرائے جاتے تھے۔

یورپ کے بہت سے ملکوں میں جیسے ہالینڈ اور برطانیہ اور کسی حد تک فرانس، جرمنی کے علاوہ بیلجیئم میں بھی سمندروں اور دریاؤں کے گہرے پانیوں میں بجرے اور کشتیاں گھوڑوں کے ذریعے کھینچی جاتی تھیں اور ان ملکوں میں یہ ایک عام دستور تھا۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا تھا کہ اگر گھوڑے موجود نہ ہوتے یا نہ مل پاتے تو پھر ان کی جگہ یہ کام زیادہ چھوٹے خچروں اور گدھوں سے بھی لے لیا جاتا تھا۔

جس کا طریقہ یہ تھا کہ مذکورہ بالا تمام جانور نہر یا دریا کے کنارے کے ساتھ ساتھ ایک مخصوص پگ ڈنڈی یا راستے پر چلتے تھے اور ان کے جسموں سے کشتیوں یا بجروں کی رسیاں بندھی ہوتی تھیں، جب یہ دریا یا جھیل کے کناروں پر چلتے تو ان کے ساتھ ساتھ پانی میں موجود کشتیاں یا بجرے بھی آہستہ آہستہ تیرتے ہوئے چلنے لگتے تھے اور آخر کار اپنی منزل تک پہنچ جاتے تھے۔ ان کشتیوں میں یا تو سامان لدا ہوا ہوتا تھا یا پھر مسافر سوار ہوتے تھے۔

چوں کہ یہ کشتیاں یا بجرے پانی کے اوپر تیرتے تھے، اس لیے ان کی وجہ سے بوجھ بھی کم محسوس ہوتا تھا اور اس کا ایک فائدہ یہ ہوتا تھا کہ گھوڑوں، گدھوں یا خچروں کو اس وزن والی کشتیوں کو کھینچنے میں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی تھی جس کا نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ اس گھوڑے، خچر یا گدھے کو خشکی یا زمین پر سامان یا وزن کھینچنے میں جتنی محنت کرنی پڑتی تھی، پانی میں اس کی یہ محنت پچاس گنا کم ہوجاتی تھی، گویا وہ خشکی کے مقابلے میں پانی میں پچاس گنا زیادہ وزن نہایت آسانی سے کھینچ سکتا تھا۔ یہی وزن خشکی پر کھینچنے میں شاید گھوڑوں کو بھی پسینے آجاتے ہوں گے۔ایک کافی طویل عرصے تک یہی کشتیاں خود انسان کھینچا کرتے تھے۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ بہت سے دریاؤں کے کنارے انسانوں کی ملکیت ہوا کرتے تھے اور وہ ان راستوں پر مویشیوں یا جانوروں کو اس طرح نہیں چلاسکتے تھے کہ اس راستے کو towpaths قرار دیا جاسکے۔ towpaths وہ راستے ہوتے تھے جو بہ طور خاص جانوروں کے چلنے کے لیے بنائے جاتے تھے۔ ان جانوروں کو ان towpaths پر چلنے میں کوئی دشواری بھی نہیں ہوتی تھی اور وہ بڑے آرام اور سہولت کے ساتھ ان پر اس طرح چلتے تھے کہ اپنے ساتھ ساتھ کشتیوں کو بھی پانی میں آسانی سے کھینچ لیا کرتے تھے۔

اس کے بعد اٹھارھویں صدی کے اواخر میں وہ وقت آیا جب برطانیہ میں ایسے زبردست قسم کے اور ہموار towpaths بننے شروع ہوگئے جو دریاؤں یا جھیلوں کے کناروں پر تعمیر کیے گئے تھے اور ان خصوصی راستوں پر جانوروں کی جگہ انسانوں سے کام لیا جانے لگا تھا۔

یہ اس سے بہت پہلے کی بات ہے جب گھوڑوں کے ذریعے کھینچے جانے والے بجرے اور کشتیاں انسانوں، مسافروں، سامان، ڈاک اور دیگر اشیا ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کا سب سے اہم اور موثر ذریعہ بن گئے تھے۔

بعد میں جب صنعتی انقلاب آیا تو اس کے دوران برطانیہ میں جب بھی بھاری سامان کی بہت بڑی مقدار کو خشکی پر ایک جگہ سے دوسری جگہ یعنی خشکی سے دریا یا جھیل کے کسی علاقے کے اندر لے جانا ہوتا تھا تو اس وقت یہی گھوڑوں والی کشتیاں اور بجرے مذکورہ کام کرتے تھے اور تمام بھاری سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے تھے اور اس طرح یہ مشکل کام انجام دیا جاتا تھا۔پھر 1770 کے عشرے سے لے کر 1830 کے عشرے تک برطانیہ اس دور سے بھی گزرا جب پورے ملک میں نہایت زبردست قسم کی جھیلیں اور نہریں بڑے وسیع پیمانے پر تعمیر کی گئیں۔

اس دور کو اکثر تاریخ میں intense canal-building کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور تاریخ میں جگہ جگہ اس دور کے لیے گولڈن ایج آف برٹش کینالز کا نام بھی استعمال کیا گیا ہے۔کینال مانیا کے اس زبردست دور میں کینالز یا نہروں کی تعمیر و ترقی میں بہت بڑے اور وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری بھی کی گئی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے نتیجے میں متعدد اسکیمیں ناکامی سے بھی دوچار ہوئیں، لیکن یہ ضرور ہوا کہ اس ساری تگ و دو کے نتیجے میں برطانیہ کا نہری نظام بہت تیزی سے وسعت اختیار کرتا چلا گیا اور یہ لمبائی میں کم و بیش چار ہزار میل تک کی وسعت اختیار کرگیا۔

اس کے بعد بہت سی نہری کمپنیوں کی تشکیل بھی ہوئی اور ان کی داغ بیل پڑنے کے بعد جب ان تمام کمپنیوں کے درمیان ایک مقابلے کی کیفیت شروع ہوگئی اور پھر تو ایک بحران پیدا ہوگیا۔تاہم اٹھارھویں صدی کی یہ نہریں بہت تنگ بھی تھیں جن میں سے صرف بہت چھوٹی اور تنگ کشتیاں ہی گزر پاتی تھیں جن کی چوڑائی دو میٹر سے بھی کم ہوا کرتی تھی۔ پھر یہ چھوٹی اور مخصوص کشتیاں ہی ان آبی راستوں پر سفر کرسکتی تھیں۔

اس کے بعد ایک مسئلہ اور بھی پیدا ہوگیا، وہ کہ کہ گھوڑوں کے چلنے والے ان راستوں پر یہ جانور اپنی کثرت کی وجہ سے آپس میں ایک دوسرے سے الجھنے اور ٹکرانے لگے، اس وقت یہ سوچا گیا کہ کیوں نہ اس مسئلے کا کوئی مناسب اور اچھا حل تلاش کیا جائے۔ پھر متعدد ایسے جدید اور اختراعی حل تلاش کیے گئے جن کی مدد سے گھوڑوں کو آپس میں الجھنے سے بچایا جاسکے جو سرنگوں اور پلوں کے نیچے سے ایک کنارے سے دوسرے کنارے کی طرف جاتے ہوئے گزر رہے ہوتے تھے تو اکثر آپس میں ایک دوسرے سے الجھ جایا کرتے تھے۔

خاص طور سے ان مقامات پر جہاں گھوڑوں کو اپنا راستہ یا سائیڈ بدلنی ہوتی تھی یا ان کے سامنے ٹرن اوور برج آجاتے تھے یا پھر ایسے changeling برج آجاتے تو اس کے لیے کیا کیا جاتا؟ چناں چہ اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے changeling برج مع ریمپس تعمیر کیے گئے جن کے ساتھ خصوصی ریمپ بھی تعمیر کیے گئے جن پر چڑھ کر towing horse اپنا راستہ بدل لیا کرتے تھے اور پھر وہ بڑی مہارت اور صفائی سے نہر بھی عبور کرلیا کرتے تھے، وہ بھی اپنی ٹو لائن کھولے بغیر۔اس طرح کے پلوں کے ساتھ جو ریمپس ہوتے تھے، وہ ٹوپاتھ کے ساتھ پل کی اسی سائیڈ کے متوازی ہوتے تھے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ گھوڑا ایک سائیڈ پر ریمپ کے اوپر چڑھ کر پل کراس کرتا اور دوسری طرف اتر جاتا اور اس طرح نہایت آسانی سے پل کے نیچے سے گزر کر اپنا سفر جاری رکھتا تھا۔بہت سے پلوں میں وہ towpaths تھے جو پل کے نیچے سے گزر جاتے تھے۔

اگر کسی سرنگ یا پل میں اندرونی towpaths نہیں ہوتے تھے تو کشتی کو کھینے والے مزدور اپنی ٹانگ کی مدد سے اس سرنگ سے گزر جاتے تھے جس کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ مذکورہ مزدور کشتی میں لیٹ جاتا اور اپنے پیر سرنگ کی دیواروں اور اس کی چھت سے لگاکر زور ڈالتا اور کشتی کو اس طرح آگے بڑھاتا تھا۔ مگر ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ یہ طریقہ خاصا خطرناک بھی تھا اور مشکل بھی اور اکثر اس کام میں بوٹ مین کی جگہ پروفیشنل لیگرز کی ضرورت پڑتی تھی جو اس کام میں خصوصی مہارت رکھتے تھے، خاص طور سے لمبی سرنگوں میں تو پروفیشنل لیگرز کے بغیر یہ سفر ناممکن تھا۔

ہالینڈ میں جہاں کینال ٹریفک بہت عام بھی ہے اور نقل و حمل کا سب سے قابل قبول ذریعہ بھی ہے، وہاں گھوڑوں کے ذریعے کھینچنے والی کشتیاں ہر طرف شروع سے ہی دکھائی دیتی تھیںاور یہ مناظر برطانیہ سے بھی ایک صدی سے پہلے سے عام تھے۔ مقامی طور پر انہیں trekschuit کہا جاتا تھا۔پہلا trekschuit ایمسٹرڈم اور ہارلیم کے درمیان 1632 میں تیرا تھا جس میں تیس مسافر سوار تھے۔ اس کے لیے کینال (نہر) ایک سیدھی لائن کی صورت میں کھودی گئی تھی تاکہ اس بات کی ضمانت حاصل کی جاسکے کہ یہ آبی راستہ نہایت چھوٹا ہوگا۔ لیکن ایک مسئلہ یہ تھا کہ راستے کے درمیان میں مسافروں کو کشتی بدلنی ہوتی تھی، اس لیے نتیجے میں یہ اسٹاپ اوور ٹاؤن Halfweg بن گیا جس کا مقامی زبان میں مطلب تھا: ہاف وے یا آدھا راستہ۔۔

چناں چہ The trekschuit اتنا کام یاب رہا کہ اس روٹ کو بعد میں یعنی دو عشروں بعد ہی کافی وسعت دی گئی اور اسے ہارلیم سے لیڈن تک وسیع کردیا گیا۔ بعد میں یعنی اٹھارھویں صدی تک trekschuit اور فیری سروسز کا ایک بہت زبردست نیٹ ورک ہالینڈ کے تمام اہم شہروں اور ساحلی صوبوں میں ایک دوسرے سے لنک کردیا گیا۔ اب trekschuit کے ذریعے یہ سفر بہت آسان بھی ہوگیا تھا اور قابل بھروسا بھی۔ ان آبی راستو ں پر سفر کرنا بہت آرام دہ اور بہت سستا بھی ہوگیا تھا۔ پھر اس سفر کی رفتار بھی لگ بھگ سات کلومیٹر فی گھنٹہ تک رہی جو پیدل چلنے اور کوچ کے مقابلے میں زیادہ تیز بھی تھا اور زیادہ آرام دہ بھی۔ اس کے بعد یہ نظام اس وقت زیادہ مقبول ہوتا چلا گیا جب اوہایو اور ایری کینال1820s کی دہائی میں امریکا میں کھودی گئی اور ایک ٹو پاتھ کا اضافہ کیا گیا۔

اس کے بعد ریلویز کی ایجاد کے ساتھ ہی گھوڑوں کے ذریعے کھینچی جانے والی کشتیاں آہستہ آہستہ معدوم ہونے لگیں، لیکن سیاحوں کی ان میں کشش نے اس آبی ٹرانسپورٹ کو زندہ رکھا۔ جیسے برطانیہ کے علاقوں فوکسٹن، گوڈا، لمنگ، ٹائیورٹن، ایشٹن انڈر لین، نیو بری اور Llangollen. وغیرہ جیسے مقامات پر یہ کشتیاں کافی عرصے تک چلتی رہیں جنھیں گھوڑے کھینچتے تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔