نوسربازوں کے بدلتے انداز

محمد اجمل طاہر آرائیں  اتوار 9 دسمبر 2018
ٹھگوں سے ڈیجیٹل جعل سازوں تک پھیلی دلچسپ تاریخ۔ فوٹو: فائل

ٹھگوں سے ڈیجیٹل جعل سازوں تک پھیلی دلچسپ تاریخ۔ فوٹو: فائل

نوسربازی کی تاریخ بھی اتنی ہی قدیم ہے جتنی بنی نوع انسان کی۔ طمع و لالچ وہ محرکات ہیں جو اگر حد سے زیادہ ہوں تو انسان دھوکے اور چال بازی کے ایسے طریقے اختیار کرتا ہے جسے نوسربازی، دھوکا دہی اور ٹھگی بھی کہتے ہیں۔

ایک نوسرباز کا اصل مقصد چال بازی کے ذریعے کسی کا مال ہتھیانا ہوتا ہے۔ نوسرباز ایسے سوانگ بھرتے ہیں کہ متاثرہ شخص شیشے میں اترتا چلا جاتا ہے اور اسے گمان بھی نہیں ہوتا کہ وہ اپنے مال اسباب سے محروم ہونے جارہا ہے یہاں تک کہ نوسرباز اپنا مقصد حاصل کرکے ایسے غائب ہوجاتا ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ جس طرح بدلتے زمانے کے ساتھ ساتھ دنیا کے ہر شعبے میں جدت آرہی ہے بالکل اسی طرح ہر گزرتے دور کے ساتھ نوسربازی کے انداز بھی بدل رہے ہیں۔

نوسرباز اب صرف نوسرباز نہیں رہے بلکہ ڈیجیٹل نوسرباز بن چکے ہیں۔ اگر نوسر بازی کے لیے ٹیکنالوجی کے استعمال کی بات کی جائے تو بات چائنا کے پلاسٹک کے چاولوں، زردی والے دو نمبر مصنوعی انڈوں اور ایلفی سے جڑے چمک دار سینگوں والے بکروں سے ہوتی ہوئی نہ جانے کہاں تک جاپہنچے، چناں چہ طوالت سے بچنے کے لیے ہم جدید نوسربازی کے موضوع کو مخصوص دائرے تک محدود رکھیں گے۔ وگرنہ خدشہ ہے کہ شاید کئی اقساط میں بھی موضوع کا احاطہ نہ ہوپائے۔

نوسربازوں کے روایتی نفسیاتی حربوں کو سمجھنے کے لیے ہم آپ کو ماضی میں لیے چلتے ہیں۔ پرانے وقتوں کی بات ہے ایک دیہاتی بکرا خرید کر اپنے گھر جا رہا تھا کہ چار ٹھگوں نے اسے دیکھ لیا اور اس سے اس کا قیمتی بکرا ہتھیانے کا منصوبہ بنایا۔ چاروں ٹھگ اس کے راستے پر کچھ فاصلے پر الگ الگ کھڑے ہوگئے۔ وہ دیہاتی کچھ آگے بڑھا تو پہلا ٹھگ اسے ملا اور کہنے لگا ’’یہ کتا کہاں لے کر جارہے ہو؟‘‘ دیہاتی نے اسے بغور دیکھا اور بولا ’’بے وقوف تمہیں نظر نہیں آرہا کہ یہ بکرا ہے کتا نہیں۔‘‘ سٹپٹایا دیہاتی کچھ اور آگے بڑھا تو دوسرا ٹھگ ٹکرایا۔ اس نے کہا ’’یار یہ کتا تو بڑا شان دار ہے کتنے کا خریدا؟‘‘ دیہاتی نے اسے بھی جھڑک دیا۔

اب دیہاتی تیز قدموں سے اپنے گاؤں کی جانب بڑھنے لگا مگر آگے تیسرا ٹھگ اس کا منتظر تھا، جس نے پروگرام کے مطابق کہا ’’جناب یہ کتا کہاں سے لیا؟‘‘ اب دیہاتی تشویش میں مبتلا ہو گیا کہ کہیں واقعی کتا تو نہیں۔ اسی شش و پنج میں مبتلا وہ بوجھل قدموں سے آگے بڑھنے لگا۔ بالآخر چوتھے ٹھگ سے ٹکراؤ ہوگیا جس نے اس کی رہی سہی ہمت بھی توڑ دی اور بولا ’’بھائی! اس کتے کو کیا کھلاتے ہو؟‘‘اب تو دیہاتی کے اوسان خطا ہو گئے اور اس کا شک یقین میں بدل گیا کہ یہ واقعی کتا ہے۔ اس نے گاؤں سے عین باہر اس بکرے کی رسی کھول دی، اور آگے بڑھ گیا۔ دل ہی دل میں سوچنے لگا،’’شکر ہے پتا چل گیا ورنہ گاؤں والے کہتے بکرے کے نام پر کتا لے آیا ہوں۔‘‘ یوں ان چاروں ٹھگوں نے بکرا ٹھگ لیا۔

برصغیر میں نوسربازی کی روایت بہت قدیم ہے۔18ویں اور 19ویں صدی کے وسط تک بنارسی، ملتانی اور دیگر بہت سے ٹھگوں کے ٹولوں نے خوف اور دہشت کی فضا قائم رکھی۔ بہرام، سید امیر علی اور ان کے ٹھگ ٹولے کو بھلا برصغیر پا ک و ہند کی تاریخ میں کیسے بھلایا جاسکتا ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب انگریز ایسٹ انڈیا کمپنی کی آڑ لیے برصغیر پر اپنا تسلط جمانے کا آغاز کر رہے تھے، مغلیہ دور اپنی بدانتظامی ، مملکت کے اندرونی خلفشار اور کم زور گرفت کی وجہ سے دلّی تک محدود ہوچکا تھا۔ ملک میں کئی ریاستیں خودمختار ہوچکی تھیں ، ایسے میں لاقانونیت کا دور دورا تھا۔ یہی وہ وقت تھا جب امیر علی اور دیگر ٹھگوں کے جتھے نت نئے انداز سے لوگوں سے ان کا مال اسباب ہتھیا لیتے اور اس مقصد کے لیے وہ کسی کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔

حالاںکہ یہ دنیا کی تاریخ رہی ہے کہ نوسرباز یا ٹھگ کبھی کسی کی جان نہیں لیتے بلکہ صرف مالی فوائد سمیٹنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ لیکن برصغیر کے ان ٹھگوں نے سب سے پہلے کرائے کے قاتلوں اور ٹارگٹ کلرز کا کردار بھی نبھایا۔ یہ لوگ اس مقصد کے لیے رومال استعمال کرتے اور مؤرخین کے مطابق اس رومال میں کانسی کا سکہ ہوتا، جس سے متاثرہ شخص منٹوں میں موت کے منہ میں چلا جاتا۔ یہ لوگ بظاہر مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے تھے لیکن ان سب میں پُراسرار اور خفیہ عقائد پر ہم آہنگی تھی۔

انگریز فوج کے افسر کیپٹن فلپ میڈو ٹیلر نے 1839ء میں ایک کتاب بعنوان ’’ایک ٹھگ کے اعترافات‘‘ لکھی، جس کے مطابق ٹھگوں کے سردار سید امیر علی نے بتایا کہ وہ ہندو مذہب کی کالی دیوی پر اعتقاد رکھتے ہیں اور ہمارے رومال میں جو پر اسرار طاقت ہے وہ اسی لیے ہے کہ یہ کالی دیوی نے ہی ہمیں دیا ہے۔ انگریزوں نے، جو کہ نت نئے ہتھیاروں سے لیس تھے، اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے بظاہر ان ٹھگوں کی سرکوبی کا بیڑا اٹھا اور انہی کی آڑ میں برصغیر میں قدم جمانے شروع کیے۔ مقامی لوگ چوںکہ پہلے ہی ان ٹھگوں اور ان کی پراسراریت سے خوف زدہ تھے اس لیے انگریزوں کو ہندوستان میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔

بلاشبہہ ہندوستان میں ٹھگوں یہ تاریخ ناقابل فراموش ہے ، لیکن نوسربازی کا یہ سلسلہ یہاں تھما نہیں۔ بھارت میں اور بھی بہت سے نام نوسربازی سے جُڑے ہیں۔ تاریخ نٹور لال نامی ایک بھارتی نوسر باز کو بھی نہیں بھول سکتی جس نے تاج محل سمیت لال قلعے، صدارتی محل اور بھارتی پارلیمنٹ کو اراکین سمیت کم ازکم 50 بار بیچا۔ 9بار گرفتار ہوا مگر ہر بار بھاگ نکلا، اس پر 90 مقدمات بنے، اسے ملنے والی سزاؤں کی کل مدت 110سال بنتی ہے۔

نٹور لال پیشے کے اعتبار سے ایک وکیل تھا۔ بعد میں نوسربازی میں اسے لطف آیا تو اس نے مستقل یہی کام اختیار کیا۔ وہ مشہور تاریخی شخصیات کے جعلی دستخطوں اور روپ دھارنے کا ماہر تھا۔ اس نے کام یاب نوسربازی کے لیے مختلف ناولوں سے بھی آئیڈیاز لیے۔ بھارت کے بڑے صنعت کاروں کے نام بھی اس سے چونا لگوانے والوں کی فہرست میں شامل ہیں، جن میں سر فہرست ٹاٹاکمپنی، برلاس، دھیروبھائی امبانی ہیں۔ ان کے علاوہ اس فہرست میں مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے بہت سے بے وقوف بھی شامل ہیں۔

تحقیق کے دوران معلوم ہوا کہ ہندوستان میں اس وقت ایک ایسا ماہر نوسر باز اب بھی موجود ہے جو گذشتہ 50 سال سے نوسربازی کی وارداتوں میں مصروف ہے۔ دھنی رام متل نامی اس نوسرباز نے اس تمام عرصے میں نہ صرف 1000 کے قریب کاریں چرائیں بلکہ ان کے جعلی کاغذ ات تیار کرکے انہیں بہ آسانی فروخت بھی کیا۔ وہ 25 بار جیل گیا۔ اس دوران اس نے وکلاء کے خرچ اور کاہلی سے اکتاکر ایل ایل بی کرلیا، تاکہ اپنے مقدمات کی پیروی بذات خود کرسکے۔

اس نے اپنی وارداتوں کی جدت کے لیے مزید ڈگریوں کے ساتھ رائٹنگ ایکسپرٹ کا کورس بھی کیا۔ صرف یہی نہیں، جب بار بار کی وارداتوں سے جی بھر گیا تو ایک بار اس نے ایسا انوکھا کام کیا، جس نے اسے نوسربازی کی تاریخ میں ایک منفرد مقام دیا۔ اس نے اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے ایک جعلی حکم نامہ تیارکیا اور مقامی جج کو چھٹیوں پر بھیج دیا اور پھر دوسرے حکم نامے کے تحت خود ہی اس سیٹ پر براجمان ہوگیا۔ پولیس کے مطابق اس نوسرباز نے اس عرصے میں کم ازکم 2 ہزار مجرموں کو ضمانت پر رہا کیا۔ کئی ایک کو سزا بھی سنائی اور ایسی تاریخ رقم کی جو غالباً جرم کی دنیا میں بہت کم لوگوں کے حصے میں آئی ہوگی۔

نوسرباز مغرب میں بھی کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ وہاں انہیں دوسرے انسانوں سے نسبتاً زیادہ عقل مند، چالاک اور شاطر سمجھا جاتا ہے، اسی لیے انہیں Confidence Man، Confidence Artist  یا Con man   کہا جاتا ہے۔ مشہور نوآبادیاتی نوسرباز گریگر مک گریگر نے دنیا بھر میں پھیلتے مال دار یورپیوں کو بحرالکاہل کے ایسے جزیرہ نما ملک کی زمین بیچی جو کہ وجود ہی نہیں رکھتا تھا۔ اس نے یہ حیرت انگیز کام ایک بار نہیں باربار کیا۔ اسے کئی بار جیل بھی جانا پڑا۔

20 ویں صدی کے اوائل میں چارلس پونزی نامی شخص نے غالباً پہلی بار حیرت انگیز منافع کا لالچ دیتے ہوئے پونزی اسکیم نامی فراڈ کا آغاز کیا، جس میں بظاہر لوگوں کے سرمائے کو بزنس میں لگایا جارہا تھا اور مبینہ طور پر اس منافع بخش بزنس میں انوسٹمنٹ کرنے والوں کو ناقابل یقین منافع دیا گیا، جس کا کسی بھی اور بزنس میں تصور بھی محال تھا۔ لوگوں نے دھڑا دھڑ سرمایہ کاری شروع کی اور حاصل شدہ منافع بھی دوبارہ اسی کے پاس جمع کروانا شروع کردیا۔ اسکیم تو ایک سال کے عرصے میں ختم ہو گئی مگر 2½ ڈالر سرمائے کے ساتھ امریکا آنے والے چارلس پونزی نے سرمایہ کاروں کے 20کروڑ ڈالر ڈبو دیے۔

آپ حیران ہوں گے کہ وکٹر لسٹنگ نامی ایک ایسا نوسر باز بھی گزرا ہے جس نے صرف ایفل ٹاور کو 2 بار بیچا۔ آسٹریا سے تعلق رکھنے والے وکٹر کا شمار 20ویں صدی کے نام ور نوسر بازوں میں ہوتا۔ اس کی کاروائیوں کا دائرہ کار یورپ سے امریکا تک پھیلا ہوا تھا۔ ایفل ٹاور بیچنے کے علاوہ وکٹر کا دوسرا قابل ذکر کارنامہ تھا ’رومانین کرنسی باکس۔‘ وکٹر نے اس طرح کے درجنوں باکس بھاری رقم کے عوض بیچے۔ اس کا دعویٰ اتنا پُرکشش تھا کہ ہر کوئی اس باکس کو خریدنے کے لیے اتنی جلدی تیار ہوجاتا کہ خود وکٹر کو بھی یقین نہ آتا۔ وہ بذات خود ایک بڑھئی تھا، اس نے ایک باکس تیار کیا جو سائز میں سفری ٹرنک کے برابر تھا۔

اس پر اس نے دھات کی مدد سے داخلی اور خارجی راستہ بنایا اور اس کے اندر گراریوں اور ہینڈلز سے ایسی پیچیدگی پیدا کہ واقعی وہ ایک غیرمعمولی چیز دکھنے لگی۔ وکٹر اپنے شکار کو بتاتا کہ یہ دنیا کی واحد کرنسی کی ڈپلیکیٹ بنانے والی مشین ہے جو کسی بھی نوٹ کے مساوی اس کی ڈپلیکیٹ بناسکتی ہے۔ وکٹر گاہک سے 100ڈالر کا نوٹ طلب کرتا اور اسے مشین میں ڈال کر 6 گھنٹے انتظار کرنے کا کہتا۔ پھر پہلے سے اندر موجود نوٹ دکھا کر منہ مانگے دام وصول کرتا اور رفو چکر ہوجاتا۔ اب چوںکہ وہ دور سائنسی اعتبار سے اتنا ترقی یافتہ نہ تھا اس لیے لوگ عجیب غریب بکسے کو مشین سمجھتے اور بیوقوف بن جاتے۔

بدیسی نوسربازوں کا ذکر اس وقت تک نامکمل رہتا ہے جب تک مشہور امریکی نوسرباز جارج پارکر کا ذکر نہ کیا جائے۔ نیویارک کی عوامی پراپرٹیز جن میں ایک دو میل طویل پُل، مشہور زمانہ مجسمۂ آزادی اور دیگر کئی مقامات شامل تھے کو بیچنا اس کے پسندیدہ مشاغل میں شامل تھا۔ صرف بروک لین پل کو وہ ہفتے میں دو دو بار کئی سال تک بیچتا رہا۔ اسی طرح فرانک ابیگنل کا شمار اپنے دور کے بڑے اور منفرد سوچ رکھنے والے نوسربازوں میں ہوتا ہے۔ 15سے 20 سال کی عمر تک اس نے 8 مختلف روپ دھار کر دنیا کو چکرا کر رکھ دیا۔26 ممالک میں اپنے ’’فن کے جوہر‘‘ دکھائے۔ اسے نوسربازی کا شوق کم عمری ہی سے تھا۔

اس کے ’’کارناموں‘‘ میں سرفہرست اپنی شناخت بدلنا، ان شناختوں کی بنیاد پر بینک اکاؤنٹس کھلوانا، پھر اکاؤنٹس کے جعلی چیک بناکر انہیں کیش کروانا چاہے اکاؤنٹس میں کچھ ہو نہ ہو، شامل ہیں۔ فرانک نے نہ صرف مختلف نام اور شناختیں اختیار کیں بلکہ وہ شناخت کے ساتھ ساتھ بھیس بھی بدل لیتا تھا، جن میں ٹیچر، ڈاکٹر ، پائلٹ، امریکن خفیہ ایجنٹ اور وکیل کے روپ سب سے اہم تھے۔ فرانک نے 1960ء کی دہائی میں کمال مہارت سے جو جعلی چیک بینکوں سے کیش کروائے ان کی کل مالیت اس وقت28 لاکھ ڈالر بنتی ہے۔ فرانک کی مجرمانہ مہارت اور چالاکی سے خود ایف بی آئی بے حد متاثر ہوئی اور اسے اپنی ٹیم کا حصہ بنالیا۔ فرانک ابیگنل آج کل بھی ایف بی آئی کے لیے خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ نوسر بازی کے شعبے میں اس کی ’’گرانقدر خدمات‘‘ کے پیش نظر ہالی وڈ نے فرانک کی زندگی پر ایک فلم بھی بنائی، اس فلم نے کل 35کروڑ ڈالر سے زائد کا بزنس کیا اور ہٹ رہی۔

نوسربازی کی تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے پاکستانی تاریخ کے ایک بڑے فراڈ سید سبط الحسن شاہ المعروف ’’ڈبل شاہ‘‘ کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ اس نے نوسربازی پر مبنی اپنی اسکیم میں وہی طریقہ استعمال کیا جو20صدی کے اوائل میں پونزی اسکیم میں کیا گیا تھا۔ شاہ صاحب کے چہرے کو دیکھتے ہوئے سیکڑوں لوگوں نے اپنی عمر بھر کی جمع پونچی ڈبل کرنے کی غرض سے جمع کروائی، جنہیں اعتماد حاصل کرنے کے لیے شروع میں خوب منافع دیا گیا۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد2007ء میں جب یہ کاروبار عروج پر تھا تو ایک اخباری رپورٹ پر قانون حرکت میں آیا اور ڈبل شاہ کو گرفتار کرلیا گیا۔

اسے 2012ء میں احتساب عدالت نے 14سال کی سزا سنائی۔ سید سبط الحسن 2015ء کو جیل ہی میں فوت ہوگیا۔ اس دھندے میں اس نے محض 18ماہ کی قلیل مدت میں 70 ارب روپے جمع کیے اور پاکستان تاریخ کا ایک بڑا فراڈ اپنے نام کرگیا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق چند روز قبل ڈبل شاہ کے تقریباً ڈیڑھ ہزار متاثرین کو 16کروڑ 95 لاکھ روپے دیے گئے جب کہ ماقبل 6 ہزار سے زائد متاثرین کو ایک ارب 20 کروڑ روپوں کی رقم لوٹائی جاچکی ہے۔

پوری دنیا کی طرح مشہور جگہیں بیچنے کے واقعات پاکستان میں بھی ہوتے رہے ہیں۔ بھاشا ڈیم کی جگہ مقیم ایک دیہاتی جسے اس کے بدلے خطیر رقم ملی وہ اس رقم سے کوئی مناسب جگہ خریدنے گلگت شہر پہنچا۔ گھومتے گھومتے جب وہ ہیلی کاپٹر چوک پہنچا تو رک گیا اور کچھ سوچنے لگا۔ اسی دوران ایک چالاک شخص کی نظر اس پر پڑی تو وہ فوراً اس کے پاس گیا اور پوچھا ’کیا دیکھتے ہو‘ دیہاتی گھبرا گیا اور کہنے لگا کہ ’مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ جگہ تمہاری ہے۔‘ تو وہ شخص معاملہ بھانپ گیا اور اس دیہاتی سے ساری بات جان کر ہیلی کاپٹر چوک بیچنے کی پیشکش کی جسے اس سادہ لوح دیہاتی نے غنیمت جانتے ہوئے فوراً قبول کرلیا۔ یوں ایک نوسرباز کے ہاتھوں وہ شخص اپنا قیمتی سرمایہ لٹا بیٹھا جس کا بھید اس پر تب کھلا جب کچھ دن بعد لوگوں نے اسے بتایا کہ یہ جگہ کسی فرد واحد نہیں بلکہ سرکار کی ملکیت ہے۔

پاکستان میں ڈیجیٹل نوسربازی کا آغاز 20 صدی کے اوائل میں دیکھنے میں آیا جب ہم ابھی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وسعتوں سے روشناس ہورہے تھے جب کہ ترقی یافتہ ممالک ہم سے بہت پہلے اس جہان کے مکین بن چکے تھے۔ نوسربازوں نے اس سہولت کا بہت فائدہ اٹھایا اور دھوکادہی کے نئے طریقے شروع کیے۔ ان میں سب سے کام یاب طریقہ یہ تھا کہ بذریعہ فون کال یا ایس ایم ایس لوگوں کو انعام کی ’’خوش خبری ‘‘ دی جاتی اور پھر ان سے رقم کا مطالبہ کیا جاتا کہ انعام کی رقم منتقل کی جاسکے۔ اسی طرح مجھے اچھی طرح یاد ہے جب بیرون ملک سے بذریعہ ای میل لوگوں کو لاٹری انعام نکلنے کا کہا جاتا اور اسی طرح ابتدائی رقم مانگی جاتی تھی۔ چوںکہ یہ ابتدا تھی اور پاکستانی عوام ان سارے حربوں سے ناواقف تھے، اس لیے انہیں خوب لوٹا گیا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ لوگ بھی سمجھ دار ہوگئے۔ لیکن نوسرباز بھی کہاں ٹلنے والے ہیں۔ انہوں نے وقت کے ساتھ اپنے آپ کو تبدیل کیا اور نت نئے طریقوں سے اپنے مقاصد کے حصول میں لگے رہے کہ یہی ان کا ذریعہ معاش ہے۔

گو کہ پاکستان میں ان جرائم پر قابو پانے کے لیے ایف آئی اے کا باقاعدہ سائبر کرائم ونگ کام کر رہا ہے لیکن ا س کے باوجود جرائم کے عادی نوسر باز بھیس بدل بدل کر لوگوں لوٹنے میں مصروف ہیں۔ یہاں ہم ان چند نام ور ڈیجیٹل نوسربازی کے طریقوں کا ذکر کریں گے جنہیں پاکستان میں بہ آسانی آزمایا جارہا ہے مگر تمام تر خواہشات کے باوجود ہم ان کی روک تھام کے لیے کوئی میکنیزم بنانے سے قاصر ہیں۔

حکومت پاکستان غریب اور بے سہارا خاندانوں کی مالی امداد کے لیے ’بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام‘ کے ذریعے ماہانہ رقم فراہم کرتی ہے۔ شروع میں جب یہ سلسلہ شروع ہوا تو مستحق عوام کی اکثریت اپنی کم علمی کی بنا پر اس میں رجسٹریشن کے طریقۂ کار سے ہی ناواقف تھی۔ نوسرباز پہلے ایس ایم ایس کا سہارا لیتے اور یہ نوید سناتے کہ آپ کی رجسٹریشن ہوچکی ہے، بس ماہانہ رقم کی وصولی کے لیے کچھ مزید معلومات درکار ہیں۔ غرض لوگوں کو رجسٹریشن کا جھانسا دے کر ان سے ان کی ذاتی معلومات لی جاتیں اور پھر رجسٹریشن کی تکمیل کے لیے کچھ فیس طلب کی جاتی۔ یوں سادہ لوح عوام ان کے دھوکے میں آجاتے اور رقم کے لالچ میں بیٹھے بٹھائے مزید نقصان اٹھالیتے۔ یہی طریقہ کار کچھ مشہور ٹی وی گیم شوز کا نام استعمال کرتے ہوئے بھی اختیار کیا گیا۔

چند دن قبل راقم کے ایک دوست کو اپنے ایک عزیز کی جانب سے میسینجر پر اردو پیغام موصول ہوا کہ اسے پیسوں کی سخت ضرورت ہے۔ اب چوںکہ وہ نمبر اس کے قریبی عزیز کا تھا اس لیے وہ ذہنی طور پر فوراً آمادہ ہوگیا۔ اب جب اس نے اس سے رقم کا پوچھا تو اسے جواب ملا کہ 10ہزار کی فوری ضرورت ہے اور بذریعہ موبائل بینکنگ پیسے ارسال کرنے کا کہا۔ اسے دوست کی خوش قسمتی کہیں یا کچھ اور اس نے تھوڑا ذہن کا استعمال کیا، رقم طلب کرنے والے کی مالی حیثیت کے بارے میں سوچا کہ اس نے اتنی کم رقم کیوں طلب کی اور پھر خود کیوں نہ آیا؟ وہ تو پڑوس میں ہی رہتا ہے۔ جب جاکر ملاقات کی تو پتا چلا کہ یہ سب فراڈ تھا اور اس نے ایسا کوئی میسیج کیا ہی نہیں۔

ڈیجیٹل نوسرباز اس طرح کی وارداتوں کے لیے مختلف پیغامات بذریعہ ایس ایم ایس اور سوشل میڈیا بھیجتے ہیں، جن میں لوگوں کے دینی جذبات ابھار کر یا کچھ لالچ دے کر مختلف انٹرنیٹ لنکس پر کلک کروایا جاتا ہے اور لنک پر کلک ہوتے ہی نوسربازوں کے مقاصد پر عمل شروع ہوجاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے بعض اوقات مفت ایپ بھی انسٹال کرنے کو کہا جاتا ہے جو پس منظر میں کچھ اور کام کر کے نوسربازوں کو فائدہ پہنچاتی ہیں۔

اس سلسلے میں مفت آئی فون، مفت انٹرنیٹ ڈیٹا اور موبائل کمپنیاں لوٹا ہوا بیلنس واپس کر نے کے عنوان سے پیغامات بھیجے جاتے ہیں۔ اسی طرح  بابری مسجد کے مسئلے پر ووٹنگ اور ابھی حال ہی میں انتخابات کے موقع پر الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ووٹ چیک کرنے اور اس طرح کے ملتے جلتے حربے استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔ مختلف لنکس پر کلک کرنے کو کہا جاتا ہے جس سے جو فوائد سمیٹے جاتے ہیں ان میں سب سے کم درجہ یہ ہے کہ مذکورہ ویب سائٹ لنک پر جو اشتہارات لگے ہوئے ہوتے ہیں ان پر کلک ہونے سے نوسر بازوں کے اکاؤنٹ میں اشتہار کی فیس منتقل ہوتی رہتی ہے جو کہ ڈالرز میں ہوتی ہے۔ اسی طرح بعض اوقات ان لنکس سے وائرس میں موبائل اور کمپیوٹر میں انسٹال ہوجاتا ہے۔ اس طرح انٹرنیٹ پر مختلف سافٹ ویئرز یا دیگر مفت ڈیٹا کی فراہمی سے قبل بھی کئی ویب سائٹس وزٹ کروائی جاتی ہیں، تاکہ اشتہارات کی مد میں کمائی ہوسکے۔

اپنی افادیت اور بدلتے زمانے کے ساتھ پاکستان میں بھی ای بینکنگ کا رواج بڑھتا جارہا ہے، جس کا ایک اہم جز اے ٹی ایم ہے۔ بڑھتی ہوئی وارداتوں کے باعث اے ٹی ایم سے رقم نکلوانا تو ویسے ہی جان جوکھم کا کام بن چکا ہے لیکن پچھلے دنوں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ڈیجیٹل نوسربازوں کے ایک ایسے گروہ کو پکڑا جس کی کارروائیوں نے خود متعلقہ حکام کو بھی حیران کر دیا۔ ان غیرملکی مجرموں نے متعدد شہروں کی اے ٹی ایم مشینوں میں ایسے سرکٹ نصب کیے تھے جو مشین میں ڈالے جانے والے کارڈ کا نہ صرف تمام ڈیٹا بلکہ پن کوڈ تک سے ان نوسربازوں کو مطلع کردیتے تھے، جس کی مدد سے یہ گروہ ہوبہو اسی ڈیٹا کا حامل ایک اور کارڈ تخلیق کرتا اور پہلے سے معلوم پن کوڈ کی مدد سے ہدف بنائے جانے والے اکاؤنٹ سے تمام رقم نکال لیتا تھا۔ اے ٹی ایم مشینوں کی طرح آن لائن بینکنگ بھی ان ڈیجیٹل نوسر بازوں کے نشانے پر ہے۔

اس حوالے سے بینک بار بار متنبہ کرتے رہتے ہیں کہ براہ مہربانی اپنا پن کوڈ، پاس ورڈ، اکاؤنٹ تفصیلات اور ذاتی معلومات کسی کو نہ دیں۔ اس کے باوجود اس طرح کی جعل سازی کے واقعات آئے دن پیش آتے رہتے ہیں۔ راقم کو بھی چند روز قبل ایسی ہی ایک کال موصول ہوئی جس میں دوسرے شہر کے نمبر سے با ت کرنے والی موصوفہ نے باربار ذاتی معلومات کی فراہمی پر زور دیا۔ یہ لوگ بہت پراعتماد ہوتے ہیں اور ان کا یہ اعتماد اتنا پر اثر ہوتا ہے کہ انسان ایک بار ضروریہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ ممکن ہے یہ واقعی اسی ادارے کے لوگ ہوں۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب یہ نوسر باز اپنے داؤ میں کام یاب ہوجاتے ہیں۔

ان پراعتماد نوسربازوں کا ماننا ہے کہ جب تک بیوقوف زندہ ہیں عقل مند کبھی بھوکے نہیں مرتے۔ چند دن قبل پاکستان کے بینکوں پر ایسے ہی ایک بین الاقوامی ڈیجیٹل نوسر باز گروہ نے ہاتھ صاف کیا۔ خیال کیا جارہا ہے کہ اس ساری کارروائی کا انکشاف کم ازکم ایک ماہ بعد ہوا۔ پاکستانی بینکنگ کی تاریخ میں یہ اب تک کا سب سے بڑا سائبر حملہ قرار دیا جارہا ہے جس میں کھاتے داروں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ یہ حملہ اتنا نقصان دہ تھا کہ بینکوں کو اپنا انٹرنیشنل ٹرانزیکشن آپریشن ملتوی کرنا پڑا۔ ایف آئی اے کے مطابق انٹرنیٹ کی نظروں سے اوجھل دنیا (Dark Web) پر پاکستانی صارفین کے 20ہزار بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات 100 سے 160 ڈالر فی اکاؤنٹ بہ آسانی دست یاب ہیں۔ ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ بینکنگ سیکٹر کی جانب سے کم زور فائروال اور دیگر سائبر سیکیوریٹی کی کم زوریوں کو دور کرنے کی فوری ضرورت ہے جو کہ ان سائبر حملوں کا باعث ہیں۔

یہ بات حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں پھیلے یہ نوسرباز عام انسانوں کی بہ نسبت زیادہ ذہین اور باصلاحیت ہوتے ہیں، لیکن لالچ اور کاہلی انہیں ایسے شارٹ کٹ تلاش کرنے پر مجبور کردیتی ہے جس کا نتیجہ اوروں کے ساتھ ان کے لیے بھی تباہ کن ہوتا ہے لیکن بیٹھ بٹھائے ملنے والے مالی فوائد اور لوگوں کو بے وقوف بنانے سے انہیں جو شیطانی تسکین ملتی ہے اس سے یہ جرائم کی دنیا میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔