علامہ محمد اقبالؒ ... بت نہیں، حقیقت

مریم فاطمہ  پير 10 دسمبر 2018
بحثیت مسلمان اقبال کی پیش کردہ قوم کی تعریف بہترین تعریف ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

بحثیت مسلمان اقبال کی پیش کردہ قوم کی تعریف بہترین تعریف ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

چند روز قبل ’’علامہ محمد اقبال اور ان کا بت‘‘ کے عنوان سے ایک بلاگ نظر سے گزرا۔ بلاگ پڑھ کر تعجب ہوا کہ لکھنے والے نے برصغیر پاک و ہند کے عوام کو انتہا پسند ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ میری ان صاحب سے گزارش ہے کہ اگر برصغیر کے باسیوں میں یہ جوش نہ ہوتا جسے جناب نے انتہا پسندی کہہ کر اپنے آبا و اجداد کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے، تو آج شاید آپ اس آزاد وطن کی آزاد فضاؤں میں سانس نہ لے رہے ہوتے۔ عین ممکن تھا کہ آج آپ بھی کنج قفس میں اسیری کے دن کاٹ رہے ہوتے اور آپ کو ہرگز اتنی اجازت نہ ہوتی کہ آپ اپنے ہی اسلاف پر نکتہ چینی کےلیے قلم اٹھانے لگیں۔ ہندؤں کے ظلم و ستم کی منہ بولتی تصویر، انگاروں میں جلتا کشمیر اور بھارت میں ہندوؤں کے مسلمانوں پر مظالم آج بھی آپ کے سامنے موجود ہیں۔

یہ بلاگ بھی پڑھیے: علامہ محمد اقبال اور اُن کا بُت

موصوف لکھتے ہیں کہ اقبال کی مشہور و معروف نظم ’’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘‘ اقبال کی نہیں بلکہ ماخوذ ہے۔ لیکن خود اس بات سے نا واقف نظر آتے ہیں کہ بانگ درا میں شامل متعدد نظمیں ماخوذ ہیں، اور ان تمام نظموں پر باقاعدہ طور پر ماخوذ لکھا گیا ہے؛ جن میں ایک بچے کی دعا (لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری) کے علاوہ ایک پہاڑ اور گلہری (ماخوذ از ایمرسن)، ہمدردی(ماخوذ از ولیم کاپر) آفتاب(ترجمہ گائتری ) وغیرہ شامل ہیں۔

گویا اقبال اپنی کلیات میں اس کا واضح طور پر ذکر کر رہے ہیں۔ یقیناً یہ ہماری، آپ کی کوتاہی ہے کہ اس بات سے اب تک نا واقف رہے، نہ کہ اقبال کی کوتاہی۔ ماخوذ ادب لکھنا کسی طور بھی عیب تصور نہیں کیا جا سکتا، کیوں کہ یہ بھی معیاری ادب کے زمرے میں آتا ہے اور دنیا کی ہر زبان میں ایسا ادب موجود ہے۔

اگر آپ نے اقبال پر یہ اعتراض اٹھایا ہے تو پاکستان کو معرض وجود میں آئے ستر برس بیت چکے ہیں، مگر آج تک ایسا ایک بھی شعر کوئی اور کیوں نہ لکھ سکا۔ گویا ایک نظم کو بنیاد بنا کر اقبال کی فارسی شاعری کی پانچ کتابوں، اردو شاعری کی چار کتابوں، سات خطبات، تحریک پاکستان میں ان کے کردار اور دیگر تمام کارناموں پر سرے سے پانی ہی پھیر دیا۔

موصوف اپنے بلاگ میں لکھتے ہیں کہ اقبال بھی قادیانیت سے متاثر رہے، لیکن موصوف اس بات کا کوئی ٹھوس ثبوٹ دینے سے قاصر رہے۔ محض یہ کہہ دینا کہ یہ بات اقبال نے اپنے خطوط میں کہا ہے، اقبال پر الزام تراشی کےلیے کافی نہیں۔

جناب کا کہنا ہے کہ اقبال کو ہم نے بلاوجہ کا بت بنا رکھا ہے، ہمیں چاہیے کہ ہم اقبال کو فرشتہ سمجھنے کی بجائے خطاکار انسان سمجھیں۔ تو جناب والا کے گوش گزار کرتی چلوں کہ یقیناً کامل ذات تو رب تعالیٰ کی ہے، لیکن عظیم قوموں کا یہ شعار ہوتا ہے کہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کو اپنے رہنماؤں کے عظیم کارناموں سے روشناس کرواتی ہیں۔ اپنی نوجوان نسل کو گھروں، مدرسوں، یونیورسٹیوں میں اپنے اسلاف کے عظیم کارناموں سے واقف بنایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کو اپنا آئیڈیل بناتے ہوئے ان کے بتائے ہوئے سنہری اصولوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں؛ تب جا کر عظیم قومیں تشکیل پاتی ہیں۔ مگر افسوس ہماری یونیورسٹیاں تو ایک مخصوص ایجنڈے پر کام کرنے میں سرگرداں نظر آتی ہیں، جہاں نامور یونیورسٹیوں کے پروفیسر حضرات کا ایک مخصوص طبقہ چار نکاتی ایجنڈے پر کام کر رہا ہے جس کے مطابق:

  • طلبہ کو باقاعدہ بے راہ روی کا شکار کرنا؛
  • پڑھائی کی بجائے بے مقصد باتوں میں وقت کو ضائع کر دینا؛
  • اسلام کے خلاف شکوک و شبہات پیدا کرنا؛
  • اور ایک لبرل طبقہ پیدا کرنا جو نہ اقبال سے عقیدت رکھتا ہو نہ قائد کے متعلق کچھ جانتا ہو۔

افسوس کہ موصوف بھی اپنے بھولے پن اور لاعلمی کی وجہ سے اسی ایجنڈے کا بھرپور شکار نظر آتے ہیں۔

جناب لکھتے ہیں کہ اقبال طویل عرصے تک وطن پرستی کے قائل نظر آتے ہیں۔ تو جناب والا! ہر محب وطن شہری یقیناً اپنے وطن سے محبت کرتا ہے، غالباً آپ بھی کرتے ہوں گے۔ بحثیت مسلمان اقبال کی پیش کردہ قوم کی تعریف بہترین تعریف ہے۔ کیونکہ اس کے مطابق تمام مسلمان ایک قوم ہیں جو ملک کی سرحدوں سے آزاد ہیں۔ گویا دنیا میں جہاں جہاں بھی مسلمان آباد ہیں، وہ تمام اپنے ملک میں رہتے ہوئے مسلم امہ کی تشکیل کرتے ہیں۔ اور یہی درس ہمیں حدیث میں بھی نظر آتا ہے کہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں۔ یہاں یہ بیان نہیں کیا گیا کہ صرف ایک ملک میں رہنے والے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔

بلاگ پڑھنے کے بعد نا جانے کیوں بار بار ایک کہاوت میرے ذہن میں گھوم رہی تھی۔ یوں گمان ہورہا تھا کہ اس کہاوت کا موصوف کے بلاگ سے کوئی گہرا تعلق ہے۔ کہاوت کچھ یوں ہے:

ایک مصور نے اپنی تمام تر صلاحیتیں اور زندگی کا تمام تجربہ استعمال کرتے ہوئے ایک پینٹنگ تیار کی، جسے اس نے اپنا شاہکار قرار دیا۔ مگر اسے تخلیق کر لینے کے بعد اس کےلیے اس کی جانچ کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ اسے ایک ترکیب سوجھی۔ اس نے اپنی پینٹنگ کو چوراہے میں لگا دیا اور اس کے ساتھ یہ جملہ لکھ دیا: برائے مہربانی اس پینٹنگ میں موجود خامیوں کی نشاندہی کیجیے۔ اگلی صبح وہ اپنی پینٹنگ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ پوری کی پوری پینٹنگ خامیوں کی نشاندہی سے سرخ ہو چکی تھی۔ وہ یہ دیکھ کر بہت پریشان ہوا اور ایک دوست سے مشورہ لیا۔ دوست نے مشورہ دیا کہ اس تصویر کو دوبارہ چوراہے میں لگا دے، مگر اس بار پہلے والے جملے کی جگہ یہ جملہ لکھے: پینٹنگ میں موجود خامیوں کی نشاندہی کر کے ان کی درستی کریں۔ صبح وہ شخص اپنی پینٹنگ دیکھ کر ایک بار پھر حیران ہو گیا کہ پینٹنگ پر ایک بھی نشان موجود نہ تھا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مریم فاطمہ

مریم فاطمہ

بہاؤالدین یونیورسٹی ملتان سے ایم اے اردو میں گولڈ میڈلسٹ ہیں۔ دو سال سے سرکاری اسکول میں بطور ایجوکیٹر خدمات انجام دے رہی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔