اعلیٰ تعلیمی اداروں کے طلباء میں خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان

جواد اکرم  پير 10 دسمبر 2018
 شدید ذہنی دباؤ  ذہین طلباء کو موت کی وادی میں لے جانے کا باعث بن رہا ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

شدید ذہنی دباؤ ذہین طلباء کو موت کی وادی میں لے جانے کا باعث بن رہا ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

24 نومبر 2018، بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی لاہور، ایک معمول کی صبح سے دن کا آغاز ہوا لیکن کسے معلوم تھا کہ یہ دن آج ایک بظاہر ہنستی مسکراتی لڑکی کے خون سے سرخ ہو جائے گا۔

روشان فرخ، ویژول آرٹس اینڈ ڈیزائن کے پانچویں سیمسٹر کی طالبہ، بظاہر جس کی زندگی میں کسی چیز کی کمی نہیں، دن کے وقت یونیورسٹی کی چوتھی منزل سے چھلانگ لگا کر اپنی زندگی ختم کر لیتی ہے تو ہر آنکھ اشکبار ہو جاتی ہے۔ اس خبر نے افسردہ بھی کیا اور کئی سوالوں نے دماغ کو جھنجھوڑا بھی؛ کیونکہ حالیہ برسوں میں کئی اعلٰی تعلیمی اداروں کے طلباء خودکشیاں کر چکے ہیں۔

ابھی دو مہینے پہلے این۔ایف۔سی انسٹیٹیوٹ آف انجینیئرنگ اینڈ فرٹیلائزر ریسرچ فیصل آباد کے ایک طالبعلم سیف اللہ جمالی نے فائنل ایئر کے ایک مضمون میں ایک ہی پروفیسر کی طرف سے بار بار فیل کیے جانے پر خود کو گولی مار کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا تھا۔

اسی سال مارچ کے آخری ہفتے میں نارووال کے ایک نجی میڈیکل کالج، سہارا میڈیکل کالج میں ایم۔بی۔بی۔ایس کی دوسرے سال کی طالبہ نے پنکھے سے لٹک کر خودکشی کر لی تھی۔

2018 میں رہبر میڈیکل کالج ھربنس پورہ لاہور کے سیکنڈ ایئر کے طالبعلم عثمان جاوید نے کالج انتظامیہ کے رویئے سے دلبرداشتہ ہو کر خودکشی کر لی تھی۔

اسی طرح 2014 میں آغا خان یونیورسٹی کراچی کے ایک طالبعلم نے ہاسٹل میں خودکشی کر لی تھی۔

کچھ سال پہلے امتحان میں ناکامی پر قائداعظم میڈیکل کالج بہاولپور کے ایک طالبعلم شاہنواز نے خود کو چلتی ریل گاڑی کے آگے پھینک کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تھا۔

کہاں تک لکھا جائے، کیونکہ خودکشیوں کی یہ فہرست بہت طویل ہوتی جا رہی ہے۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ جن نوجوانوں نے بہت جلد ہمارے ملک اور معاشرے کی باگ ڈور سنبھالنی ہوتی ہے، انہیں اتنا شدید ڈپریشن کیوں کر ان اداروں یا معاشرے سے ملتا ہے کہ وہ اس حد تک چلے جاتے ہیں اور منوں مٹی تلے سو جاتے ہیں۔

ہمارے ہاں حادثات کے بعد معاملات کو دبانے کا رجحان بھی انتہا درجے کا ہے۔ وجوہات جاننے اور مستقبل میں ان کے سدباب کی کوشش برائے نام ہی کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ المیے اور حادثات تھمنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ اپنے طور پر جائزہ لینے کی کوشش کی جائے تو سب سے زیادہ امتحانات میں بار بار ناکامی، شدید ترین ذہنی دباؤ کا باعث بن کر ذہین ترین طلباء کو بھی موت کی وادی میں لے جانے کا باعث بن رہی ہے۔ اس کے علاوہ کئی اور خاندانی، معاشرتی، معاشی اور نجی مسائل بھی شدید ترین ڈپریشن کی وجہ بن رہے ہیں جو کسی بھی وقت خودکشی کی حد تک چلے جاتے ہیں۔

کوئی بھی شخص اچانک خود کشی نہیں کرتا۔ ذہنی دباؤ آہستہ آستہ بڑھتے ہوئے انسان کو ایک دن اس مقام پر لے جاتا ہے کہ جہاں وہ اپنی سب سے قیمتی شے یعنی زندگی کا خاتمہ کر لیتا ہے۔

روشان فرخ نے بھی اسی سال مارچ میں اپنے انسٹاگرام پر اپنی نارنجی رنگ کی ساڑھی پہنے ہوئے ایک تصویر اپ لوڈ کی جس کے ساتھ اس نے پیغام میں لکھا کہ ’’اگر میں چند دنوں بعد خودکشی کر لوں، تو مجھے بس ایسے ہی یاد رکھنا، اسی ساڑھی میں، اسی طرح موسم بہار میں، اسی طرح خوش نظر آتے ہوئے…‘‘

مارچ سے نومبر تک کسی نے اس کی نفسیاتی حالت کو سمجھنے کی کوشش نہ کی۔ کوئی نہ سمجھ سکا کہ اس کے اندر کیا جنگ چل رہی ہے۔ ایک ایسی جنگ جس نے اس سے اس کی زندگی کو چھین لیا!

افسوس کی بات یہ ہے کہ لاکھوں روپوں کے حساب سے فیس لینے والے ان اعلیٰ تعلیمی اداروں میں طلباء کی ذہنی حالت پر نظر رکھنے والا کوئی شعبہ نہیں ہوتا۔ حالانکہ کچھ ماہر نفسیات پر مشتمل ایک بورڈ ہر اعلیٰ تعلیمی ادارے میں بنا دیا جائے جو اس ادارے کے طلباء کی نفسیاتی حالت پر نظر رکھے، انھیں نفسیاتی مشاورت دے، تو کم از کم خودکشیوں کی شرح کو بڑی حد تک کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہم سب کو نفسیاتی مسائل، بالخصوص ڈپریشن کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیئے۔ اگر ہمارا کوئی قریبی، کسی نفسیاتی دباؤ کا شکار محسوس ہو تو اس بات کو ایک ایمرجینسی کے طور پر لیتے ہوئے نہ صرف خود اس کا ساتھ دینا چاہیئے، بلکہ اس کو ماہر نفسیات سے مشورہ کرنے کے لیے بھی قائل کرنا چاہیے۔ کیونکہ زندگی ایک ایسی نعمت ہے جو ایک بار چلی جائے تو لوٹ کر واپس نہیں آتی!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

جواد اکرم

جواد اکرم

مصنف سیاسی، سماجی، قومی اور بین الاقوامی امور کے تجزیہ نگار ہیں جبکہ انہوں نے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کیا ہوا ہے۔ ان سے ای میل ایڈریس [email protected] اور ٹوئٹر ہینڈل @jawad5677 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔