دہشت گردی کے خلاف جنگ اور ہمارا کردار

ایڈیٹوریل  اتوار 9 دسمبر 2018
پاکستان میں اب تک دہشت گردی کی جو بڑی کارروائیاں ہوئی ہیں ان کے ڈانڈے افغانستان سے ہی ملتے رہے ہیں۔ فوٹو: فائل

پاکستان میں اب تک دہشت گردی کی جو بڑی کارروائیاں ہوئی ہیں ان کے ڈانڈے افغانستان سے ہی ملتے رہے ہیں۔ فوٹو: فائل

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان کرائے پر لی ہوئی بندوق نہیں اور نہ کرائے کے قاتل کا کردار ادا کر سکتا ہے کیونکہ پاکستان امریکا کی جنگ بہت لڑ چکا ہے لہذا اب وہ کریں گے جو ہمارے ملک کے مفاد میں بہتر ہو گا، وزیر اعظم نے واضح کیا کہ پاکستان میں طالبان کی کوئی پناہ گاہیں نہیں، امریکا سے بھی ویسے تعلقات چاہتے ہیں جیسے چین کے ساتھ ہیں۔

وزیر اعظم نے کہا ڈرون حملے ہماری خودمختاری کے خلاف ہیں، آخر کونسا ملک اپنے اتحادی پر بم پھینکتا ہے۔ امریکی اخبار ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘کو دیے گئے انٹرویو میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان امریکا کے ساتھ برابری کی سطح پر باقاعدہ تعلقات چاہتا ہے، سپر پاور کے ساتھ اچھے تعلقات کون نہیں چاہے گا۔ مگر پاکستان نے امریکا کی جنگ لڑتے ہوئے زیادہ نقصان اٹھایا ہے، اب ہم وہ کریں گے جو ہمارے لوگوں اور ہمارے مفاد میں بہتر ہو گا۔

ادھر بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلبا سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہاکہ جس قوم کا نظریہ کمزور ہو وہ ختم ہو جاتی ہے، نئی نسل کے لیے سمجھنا ضروری ہے کہ پاکستان کیوں بنایاگیا، بھارت میں آج 20 کروڑ مسلمانوں کا کوئی لیڈر نہیں۔ ہمارے لیڈروں نے ملکی ترقی میں جھکنے کا تاثر دیکر ترقی میں رکاوٹ ڈالی، نہ ہم اب کسی کی جنگ لڑیںگے اور نہ کسی کے آگے جھکیں گے، میں نے پہلے کہا تھاکہ افغانستان میں جنگ حل نہیں،آج وہی لوگ جو ڈومورکہتے تھے وہ آج مذاکرات چاہتے ہیں۔

افغانستان کے ساتھ ملنے والی سرحد کو مضبوط بنایا جا رہا ہے لیکن اگر وہاں سے دو تین ہزار طالبان پاکستان میں داخل ہو جائیں تو آسانی سے افغان پناہ گزینوں میں داخل ہو سکتے ہیں۔

افغانستان کی جنگ میں پاکستان نے جو کردار ادا کیا، وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ اس سے پہلے سردجنگ کے دور میں کیمونزم کے خلاف لڑائی میں افغان مجاہدین کی امداد کر کے ایک کردار ادا کیا گیا، اس وقت ریاست اور سیاست عوام کو یہی کہتے رہے کہ یہ جنگ پاکستان کی بقاء کے لیے بہت ضروری ہے حالانکہ سب جانتے تھے کہ یہ لڑائی اصل میں سوویت یونین اور امریکا اور اس کے اتحادیوں کے درمیان ہے۔ اس کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کا مرحلہ آیا تو تب بھی پاکستان نے امریکا اور نیٹو کا ساتھ دے کر اپنا کردار ادا کیا۔

پاکستان نے نان نیٹو اتحادی کا درجہ حاصل کیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا اور پاکستان کے درمیان اختلافات پیدا ہوتے رہے لیکن دونوں کا اتحاد برقرار رہا۔ اب اگر وزیراعظم عمران خان نے یہ کہا ہے کہ ہم کرائے کے سپاہی ہیں نہ کرائے کی بندوق، تو اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ پاکستان نے ماضی میں جو کردار ادا کیا وہ کیا تھا۔

بہرحال دیر آید درست آید کے مصداق وزیراعظم صاحب نے کسی کی جنگ نہ لڑنے کا اعلان کیا ہے تو یہ اچھی بات ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو اس حقیقت کا بھی ادراک ہونا چاہیے کہ دہشت گردی پاکستان کے لیے آج بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے، پاکستان کو اس سے علیحدہ رہنا چاہیے۔ امریکا جانے اور افغانستان میں لڑنے والے جانیں۔ پاکستان اس لڑائی سے خود کو اسی وقت الگ کر سکتا ہے جب پاکستان کی شمال مغربی سرحدیں محفوظ ہو جائیں۔

پاکستان کے قبائلی علاقوں میں افغانستان سے آنے والے راستوں کو مکمل طور پر بند کیے بغیر پاکستان میں دہشت گردی پر قابو پایا جا سکتا ہے اور نہ ہی جرائم ختم ہو سکتے ہیں۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ پاک فوج نے قبائلی علاقوں میں آپریشن کر کے دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کر دیے ہیں اور ان علاقوں کو ان کے کنٹرول سے آزاد کرا دیا ہے۔ پاکستان کے اندر ایسے عناصر موجود ہیں جو بیرونی طاقتوں کے آلہ کار ہیں اور وہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔

پاکستان میں اب تک دہشت گردی کی جو بڑی کارروائیاں ہوئی ہیں ان کے ڈانڈے افغانستان سے ہی ملتے رہے ہیں۔ سرحدی علاقوں میں افغانستان کی موبائل ٹیلی فون کی سمیں عام فروخت ہوتی رہی ہیں، حکومت نے اس کاروبار کو ختم کرنے کے لیے کوششیں کی ہیں تاہم ابھی تک یہ کام چل رہا ہے۔ پاکستان کے اندر امن قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کی سرحدیں محفوظ ہوں۔

پاک ایران سرحد اور پاک افغان سرحد کو محفوظ کیا جانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کیونکہ اگر افغانستان کی سرحد محفوظ نہیں ہو گی تو وہاں سے دہشت گردوں کی آمد ورفت روکنا مشکل ہو جائے گا۔ اس کا فائدہ افغان حکومت اور امریکا یہ کہہ کر اٹھاتا رہے گا کہ پاکستان میں دہشت گرد موجود ہیں لہٰذا پاکستان کی بقاء اور تحفظ کے لیے شمال مغربی سرحدوں کو محفوظ بنانا اہم ترین کام ہے۔

 

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔