ٹی بی کے خلاف لڑائی کے نتائج

ایڈیٹوریل  اتوار 9 دسمبر 2018
ٹی بی تاریخی طور پر قدیم ترین بیماری ہے۔ پاکستان میں اس بیماری سے متاثر ہونے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
فوٹو؛ فائل

ٹی بی تاریخی طور پر قدیم ترین بیماری ہے۔ پاکستان میں اس بیماری سے متاثر ہونے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ فوٹو؛ فائل

ترقی یافتہ ملکوں میں جدید دواؤں اور معیار زندگی میں اضافے کی وجہ سے ٹی بی (ٹیوبر کلوسز) کی بیماری سے اموات پر بڑی حد تک قابو پانے کے باوجود ترقی پذیر اور غریب ملکوں میں اس مہلک بیماری سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد اب بھی تشویشناک حد تک زیادہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس بیماری کے بیکٹیریا سے متاثر ہو کر مرنے والوں کی تعداد پندرہ لاکھ سے زیادہ ہے۔

واضح رہے ٹی بی تاریخی طور پر قدیم ترین بیماری ہے۔ پاکستان میں اس بیماری سے متاثر ہونے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق چار لاکھ تیس ہزار افراد جن میں بچوں کی تعداد 15 ہزار سے زائد ہے، اس بیماری سے ہر سال لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ ان میں سے ستر ہزار افراد کو مناسب علاج اور متوازن خوراک سے بچایا جا سکتا ہے جو حکومتوں کی عدم توجہ کی وجہ سے بچائے نہیں جا سکتے۔

اس ہلاکت خیز بیماری کے جراثیم سانس لینے سے ناک یا منہ کے ذریعے جسم کے اندر داخل ہوتے ہیں۔ کسی حد تک خوراک کے پوری طرح ہضم نہ ہونے کی وجہ سے بھی یہ بیماری لاحق ہو سکتی ہے۔ بیماری شروع ہونے کی علامات میں تیزکھانسی جس میں خون بھی تھوک کے ساتھ نکلتا ہو، سینے میں شدید درد کا اٹھنا اور سانس لینے میں دشواری کا ہونا بھی اس بیماری کی واضح علامات میں ہیں ۔

اس بیماری سے وزن بڑی تیزی سے کم ہونے لگتا ہے، بہت زیادہ تھکن محسوس ہوتی ہے، سانس بے قابو ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ شیرخوار بچوں کو اس بیماری سے بچانے کے لیے ’’بی سی جی ویکسین استعمال کرائی جانی چاہیے جس سے ان بچوں کو بیماری سے بچایا جا سکتا ہے۔ اس قسم کے بچوں کی تصویریں ان دنوں سندھ کے علاقے تھر میں نظر آتی ہیں۔ میڈیا پولیو اور ایچ آئی وی ایڈز کے بارے میں آگاہی پھیلانے کی مفید کوششیں کر رہا ہے۔

اس سال ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے زیراہتمام ایک اجلاس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ ٹی بی ماضی کی ایک ایسی بیماری تھی جسے دنیا کے بڑے حصے سے ختم کر دیا گیا ہے مگر ترقی پذیر ملکوں کو ابھی اس پر قابو پانے کے لیے کافی جدوجہد کرنی ہو گی۔ جنرل اسمبلی میں مطالبہ کیا گیا کہ اس بیماری کو ختم کرنے کے لیے 13 ارب ڈالر کی رقم صرف کی جانی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔