انسانی حقوق کا عالمی دن اور ہم

شاہد سردار  اتوار 9 دسمبر 2018

یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ زندگی کے تحفظ اور اس کے حقوق کا ڈھانچہ نظام پرکھڑا ہوتا ہے اور معاشرے نظام کی بنیادوں پر ہی استوار ہوتے اور پھلتے پھولتے ہیں ۔ عالمی سطح پر گو ہر سال 10 دسمبرکو انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے لیکن عالمی منظر نامے پر نگاہ کی جائے تو انسانی حقوق کی پامالی برسہا برس سے اقوام متحدہ کے ادارے کے عین ناک کے نیچے کی جارہی ہے اور پورے کا پورا اقوام عالم بے حسی اور بے بسی کی عملی تصویر بنا اسے دیکھ رہا ہے۔

فلسطین اور بیت المقدس کا مسئلہ لے لیں،کشمیر کے مسئلے کو دیکھ لیں۔ عراق اور لیبیا کی بربادی سے لے کر چیچنیا، بوسنیا، روہنگیا، یمن اور شام وغیرہ کے عوام کی حالت زار یا ان پر ڈھائے گئے انسانیت سوز مظالم پر نظریں جما لیں یا پھر برسوں سے امریکی قید میں عافیہ صدیقی کا معاملہ دیکھ لیں۔ سبھی انسانی حقوق کے عالمی دن قرار دینے والوں کے لیے لمحہ فکریہ ہی فراہم کرتے ہیں۔ بھارت جیسے سیکولر ملک کے دعوے دار اپنے ملک میں برسوں سے مسلمانوں پر ظلم وستم اور ناروا سلوک کو بھی انسانی تاریخ رقم کرنیوالا کوئی مورخ حرفِ نظر نہیں کرسکتا۔

ہمارا ایمان اور عقیدہ ہے کہ کسی بھی ملک اورکسی بھی شہر سے محبت کا اصل محرک وہاں رہنے والے لوگ ہی ہوتے ہیں جن سے تعلق ہماری شخصیت اور ہماری سوچ کا تعین کرتا ہے یہ کیسی سنگ دلی، کیسی سفاکی یا کیسی درندگی ہے کہ کسی بھی ملک یا شہر میں رہنے والے انسانوں کو ان کے حقوق دینے کے بجائے ان کے حقوق کی پامالی کی جائے۔ انسانی حقوق کے حوالے سے اگر وطن عزیز کو دیکھا جائے تو یہاں 8 کروڑ سے زاید لوگ انتہائی غریب ہیں جنھیں دو وقت کا کھانا بھی میسر نہیں۔ ہر پاکستانی ہمارے حکمرانوں کی ناقص حکمت عملی کی باعث ایک لاکھ 23 ہزار روپے کا مقروض ہے۔

14 لاکھ پاکستانی ہر سال ہیپا ٹائٹس سے مرجاتے ہیں۔ ایک لاکھ کی لگ بھگ کینسر سے اپنی جان سے جا رہے ہیں۔ ملک کی اکثریتی آبادی پینے کے صاف اور میٹھے پانی کو ترس رہی ہے لیکن انھیں یہ سہولت میسر نہیں ۔ زیر زمین پانی پینے سے درجنوں امراض میں مبتلا ہوکر لوگ عالم بالا کا رخ کر رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں 5 کروڑ 70 لاکھ افراد ناخواندہ اور 2 کروڑ 26 لاکھ اسکول جانے کو عمر رکھنے والے بچے اب بھی اسکولوں سے باہر ہیں۔ شرح خواندگی بڑھانے اور ہنر سکھانے کے لیے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق و ترقی اگرچہ کئی منصوبوں پر کام کر رہا ہے مگر محض کام کر رہا ہے یا شاید اپنے مفاد اور اپنے کچن کے لیے؟

برسہا برس سے ہر غلطی ہمارے ارباب اختیار سے شروع ہوکر انہی پر ہی ختم ہورہی ہے۔ ہر سال ہزاروں لوگ غربت، افلاس یا اپنے معاشی حالات سے تنگ آکر خودکشی کررہے ہیں اور خودکشی در اصل قتل کی سب سے بھیانک شکل ہوتی ہے ۔کروڑوں لوگ اپنی صلاحیت کے مطابق معاشرے میں اس جگہ نہیں ، جہاں انھیں ہونا چاہیے تھا۔ ہمارے معاشرتی حالات اور عوام کے حقوق یکسر پامالی نے ہم انسانوں کو ایک ایسی جگہ لاکر چھوڑدیا ہے جہاں آرزویں عیب سمجھی جاتی ہیں اور تمنائیں ذلت۔ انسانی حقوق کو اگر بنظر غائر دیکھنا ہو تو تھانوں، عدالتوں اور اسپتالوں میں جاکر دیکھ لیں ہر طرف انسانی حقوق کا حد درجہ استحصال جا بجا دکھائی پڑتا ہے۔ نہ جانے لوگ بڑے سے بڑے دکھ پر پانی کیوں پلاتے ہیں؟

اگر پانی سے دکھ دور ہوجاتے تو دنیا میں شاید کوئی بھی دکھی نہ ہوتا۔ ویسے بھی لوگوں کا مقدر ہاتھ ملتے رہنے کے سوا کچھ بھی تو نہیں۔ بھلے کوئی بھی حکمران آئے یا جائے ان کی بلا سے در اصل جنھیں موت بھولی ہوئی ہو وہ یقینا زندگی کے آداب یاد نہیں رکھ سکتے ہمارے حکمرانوں کو کبھی عوام یا ان کے حقوق سے کوئی سروکار تھا اور نہ ہوگا۔ 71 سال ہوگئے انسانی حقوق تو ایک طرف رہے ہم اخلاق اور تہذیب سے بھی تہی دست ہوگئے، ہم کوئی ایک ضابطہ اخلاق، کوئی ایک سسٹم نہیں بناسکے، اکیس ویں صدی آگئی لیکن ہم آج بھی دنیا بھر سے ملامت سمیٹنے میں مصروف ہیں اور مہذب قومیں اپنی انگلیاں دانتوں میں دبائے ہمیں حیرت سے تک رہی ہیں۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ افراد اور قوموں کے لیے بدگمانی اور مایوسی سے زیادہ زہریلا زہر آج تک ایجاد ہی نہیں ہوا۔ ہمارے سارے ڈھانچے اندر سے بھر بھرے ہوچکے ہیں۔ وطن عزیزکے قیام سے لے کر اب تک اس کے نظام پر پے در پے ضربیں لگاکر اس کی بنیادیں ہلائی جاچکی ہیں اور ملکی منظر نامے پر ظہور پذیر ہونے والی آئے دن کی غلطیاں ہمیں ماتم کرنے پر اُکساتی ہیں۔ وطن کے وسائل پر برسوں سے قابض اشرافیہ بد ترین طبقاتی امتیاز و تفریق کی راہ پر خاصا آگے بڑھتا جا رہا ہے۔ سفارش اور رشوت پیش نہ کرسکنے والے بے نو انسانوں کے لیے روزگار کا حصول انتہائی مشکل بنا ہوا ہے صدیوں سے زندگی کے منظر نامے کے کشادہ اسٹیج پر پیش کیے جانے والے جس ڈرامے کو ہم دیکھتے آرہے ہیں اس پر بے لاگ تبصرہ ممکن ہی نہیں، کیونکہ ہم جس ماحول میں رہ رہے ہیں، اس پر بہت سی باتیں کہی نہیں جاسکتیں گو اکثر انسانی برابری، مساوات یا انسانی حقوق کا درس دیا جاتا ہے لیکن عملاً ایسا کچھ نہیں۔

استحصال ، اقربا پروری، میرٹ کی ناقدری اور پامالی حدوں کو چھورہی ہے، شاید اس لیے بھی کہ انسانی حقوق، حق، انصاف اور قانون کی آوازیں دھری نہیں رہ جاتیں۔ بے اماں و بیکراں سناٹوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ انسانی فطرت ہے کہ وہ حال میں جیتا اور حال سے زیادہ سے زیادہ نچوڑنا چاہتا ہے۔ آخرت کی نہ اسے فکر لاحق ہوتی ہے اور نہ ہی دنیاوی گورکھ دھندے اسے فرصت لینے دیتے ہیں۔ آفاقی سچائی ہے ملکوں اور قوموں کی ترقی، ان کی بقا اور وہاں بسنے والوں کے حقوق کی پاسداری اہل، با کردار، بصیرت افروز اور سچی قیادت کی مرہون منت ہوتی ہے اور صرف انہی خوبیوں والی قیادت قوم کو متحرک کرتی اور ملک کا مقدر بدلتی ہے۔

اہلیت، بصیرت، وژن اور کردار سے عاری قیادت ملک میں کوئی بڑی تبدیلی لاسکتی ہے اور نہ قوم کی صلاحیتوں کو ابھارسکتی ہے۔ انسانی حقوق کی پاسداری اور اس کا تحفظ اس صورت ممکن ہوسکتا ہے جب ملک میں آئین اور قانون کے لیے یکساں ہو کسی کو ووٹ کی دیوار اور وردی کے حصار کے پیچھے چھپنے کی سہولت میسر نہیں ہونی چاہیے۔ ویسے بھی جس معاشرے میں عقل وشعورگھنگھرو باندھ لیں وہاں نفس بھی ناچتا ہے اور انسانیت بھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔