گرتی معیشت کیسے سنبھلے

ان تمام عنصروں میں بہتری کے اقدامات پر مشتمل پالیسی ہی ملک کو معاشی ، سیاسی و سماجی استحکام دے سکتی ہے۔



ماہرین ِ معاشیات کے مطابق مستحکم معیشت کے چار اُصول ہیں۔

(۱) ملکی قیادت کی جانب سے دیرپا نتائج کا حامل ویژن۔

(۲)سیاسی استحکام ۔

(۳) کرنسی کی قدر میں استحکام اور سیاسی ہم آہنگی جو مارکیٹ کا نفسیاتی تسلسل برقرار رکھتی ہے ۔ جب یہ تینوں چیزیں ہوں، تو ہی چوتھا و اہم اُصول کار گر ہوسکتا ہے ،جو ہے۔

(۴) معاشی پالیسیوں پر عملدرآمد ،جو کہ کامیابیوں سے ہمکنار کرے گا۔

کسی بھی ملک کو اپنی مستحکم معیشت کے لیے ان چاروں اُصولوں پر مشتمل فریم ورک تیار کرنا ہوتا ہے ۔دیکھا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان 210ملین کی آبادی کی حامل ایک بڑی گھریلو مارکیٹ ہے جب کہ اس کی جیو اسٹریٹجک لوکیشن اور ڈیمو گرافی بھی مارکیٹ کے استحکام کے لیے موزوںہے ۔ یہاںسال کے چار موسم ،بے شمار قدرتی وسائل ، لازوال سیاحتی مقامات اور دنیا کا بہترین آبپاشی کا نظام موجود ہے ۔ یہاں فارین ایکسچینج کے ذرائع ریمیٹنس اورenterprises diasporaجیسی خصوصیات بھی شامل ہیں جو کہ کسی بھی کامیاب معیشت کے لیے کافی ہوتی ہیں ۔ جب کہ پاکستان 68%افرادی قوت کا حامل ملک بھی ہے ۔یہ افرادی قوت نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ بیرون ِ ملک اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواچکی ہے۔

دنیا بھر میں پھیلے ہمارے سائنسدان ، اساتذہ ، ماہرین طب ، انجینئر ، منتظمین اور تربیت یافتہ عالمی تجربہ کے حامل مزدور و کارکنان جو ملک سے باہر جا کر مالی تحفظ تلاش کرتے ہیں وہ جن کی تعلیم و تربیت پر قیمتی قومی وسائل صرف ہوئے ہیں ،جو دوسرے ممالک کو اپنے ہنر اور اپنی مہارت سے فیضیاب کررہے ہیں ۔ اُن سے پیسہ ، ٹیکس اور چندہ مانگنے کے بجائے ملکی تعمیر اور دیرپا معاشی استحکام کے لیے چاہیے کہ انھیں وطن واپس بلائیں اور ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانیکے لیے پالیسی بنانے کی ضرورت ہے ۔

موجودہ حالات میں تو نہ صرف یہ حکومت بلکہ گذشتہ حکومتیں بھی ان ابتر معاشی حالات کی ذمے دار ہیں جوکہ ملکی دیرپا ترقی و معاشی استحکام کی حامل بنیادی پالیسیاں بنانے میں ناکام رہی ہیں ۔ جس کی کئی وجوہات ہیں جیسے ہماری GDPکی شرح محض 15فیصد ہے ، جس وجہ سے ہمیں سرمایہ کاری کے لیے فارین سیونگس پر منحصر کرنا پڑتا ہے ۔ پھر سرکار کی آمدن و اخراجات میں عدم توازن ، کمزور سماجی Factors، توانائی کی پیدا وار میں کمی اور بجلی و گیس کی لوڈ شیڈنگ اور خراب طرز ِ حکمرانی کے ساتھ ساتھ بیرونی مداخلت اور دہشت گردی کے خلاف جنگ جیسے عنصر ہماری ترقی کی رفتار کو سست رکھتے ہیں ۔

حکومت یا پالیسی ساز ادارے جب اس ملک کے وسائل اور ان کے بروئے کار لانے سے متعلق پالیسی بناتے ہیں تو اُن میں 2کروڑ سے زیادہ ملک میں موجود غیر قانونی بیرونی افراد کا حساب ہی شامل نہیں ہوتا ، وہ جو اشیائے خورد نوش اور بجلی ، گیس و پیٹرول استعمال کرتے ہیں ، اس سے مارکیٹ میں اشیاء کی قلت ہوتی ہے اور کسی بھی چیز کی قلت اس کے نرخوں میں اضافے کا باعث بنتی ہے ۔ہمارے یہاں مرض کی تشخیص کیے بغیر ''دادی اماں کے ٹوٹکے '' کی طرز کا علاج شروع کردیا جاتا ہے ۔ یہی روش ملکی معاشی پالیسی میں بھی نمایاں طور پر نظر آتی ہے ۔

کچھ ماہ قبل سابقہ مشیر ِ خزانہ مفتاح اسماعیل نے بھی ایسا ہی ایک ٹوٹکا بتایا تھا کہ روپے کی قدر کم ہونا مفید ہے ، اس سے ملک میں برآمدات میں اضافہ ہوگا ، حالانکہ باورڈ بزنس اسکول کے مشہور و معروف پروفیسر مائیکل پورٹر کے بقول کہ ''اگر اقتصادی حل کرنسی کی قیمت میں کمی ہے تو پھر اقتصادی پالیسی میں کوئی بنیادی نقص ضرور ہے ''۔ جب کہ معیشت کی عام theoryکے مطابق بھی بیرونی کرنسیوں کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی سے افراط ِ زر اور مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے ، کیونکہ ڈالر مہنگا ہوجانے کی وجہ سے ہمیں ایکسپورٹ کی جانے والی پیٹرولیم مصنوعات اور دیگر خام مال مہنگا پڑتا ہے جب کہ قرضوں کی ادائیگیاں بڑھ جاتی ہیں جس سے قومی خزانے پر اضافی بار پڑتا ہے ۔

بیرونی سرمایہ کار عرصہ دراز سے روپے کی ڈی ویلیو ایشن کے منتظر تھے ۔ ان کا یہ خواب گزشتہ کچھ ماہ کے دوران پورا ہو گیا ہے، کیونکہ روپے کی قدر میں اس قدر کمی واقع ہوگئی ہے کہ کچھ عرصہ قبل IMFکی جانب سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی مقرر کی گئی حد 125روپے سے بھی بڑھ کر 144تک پہنچ گئی ہے ۔ ڈالر کی قدر میں بے تحاشہ اضافہ اور روپے کی قدر میں بتدریج کمی سے موجودہ حالات میں ملکی معیشت کو سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔

حکومت اقدامات کرنے کے بجائے صرف بیانات دے رہی ہے ۔ وزیر اعظم مرغیاں بیچنے اور اسٹیٹ بینک کی خودمختاری ختم کرنے کی بات کرتے ہیں ، تو صدر صاحب عوام کو بیرونی آرائشی اشیاء کا استعمال نہ کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں ۔ دوسری جانب حالیہ وزیر خزانہ ہیں جو انتخابات سے قبل بجلی ، گیس و پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے بڑے حامی تھے وہ آج انھیں کاموں کو ضروری قرار دیتے نہیں تھکتے ، بلکہ وہ کام بھی کررہے ہیں جو براہ راست عوام کے لیے وبال ِ جاں بنتے جارہے ہیں ۔

اسد عمر کہہ رہے ہیں کہ خسارے میں کمی آئی ہے ، برآمدات بڑھ رہی ہیں اور ملک میں جلد بھاری سرمایہ کاری آئے گی وغیرہ وغیرہ لیکن وزیر اعظم خود مڈ ٹرم الیکشن کی باتیں کرتے نظر آتے ہیں، جن سے مارکیٹ میں ہیجانی کیفیت کی صورتحال پیدا ہوئی ہے ۔ان کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ معاشی معاملات کا بہتر پہلو کونسا ہے اور اس کو کس طرح سرانجام و اجاگر کیا جائے ۔ یہ کوئی بہتر متبادل دینے کے بجائے آئی ایم ایف کی خواہش و ڈکٹیشن کے مطابق پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ ملک پر مہنگائی بم بن کر گری ہے ۔ جس سے ہونیوالے نقصان کے ازالے کی سکت نہ حکومت میں ہے اور نہ ہی اس ملک کے عدم پیداواری نظام ِ معیشت میں ہے۔

صدر مملکت کی عوام کو ملکی مصنوعات استعمال کرنے کی اپیل کا یہ قصہ اتنا بھی آسان نہیں جتنی سادگی سے صدر صاحب نے کہہ دیا ہے ۔ ملکی مصنوعات کے استعمال کے لیے اشیاء کا معیاری ہونا لازمی ہے اور معیاری پیداوار ملکی پالیسیوں سے ہی حاصل ہوتی ہے ۔ ملکی پالیسیاں ایسی ہونی چاہئیں جو ملک میں صنعتکاروں کے فائدے اور تاجروں کے کاروبار کے تحفظ و فروغ کے ساتھ ساتھ کنزیومر کی قوت ِ خرید و طلب اور معیار سے بھی ہم آہنگ ہوں۔

مارکیٹ اکانومی محض حب الوطنی کی ترغیب دینے سے پائیدار ستونوں کی حامل نہیں ہوسکتی ۔ اُسے قومی جذبے کے ساتھ ساتھ اشیائے صرف کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ اور تقابلی مسابقتی معیار کے مطابق بنانا بھی لازمی عنصر ہے ۔ کیونکہ میڈیا پر گلیمر کی حامل بیرونی اشیاء کی بہتات اور آن لائن خریداری کی سہولیات سے اشیائے صرف تک آسان رسائی کے ماحول میں عوام کو زیادہ دن تک ملکی غیرمعروف مصنوعات تک محدود نہیں رکھا جاسکتا۔ یہ تبھی ممکن ہے جب ملکی مصنوعات فیشن ، معیار اور قیمتوں میں غیر ملکی اشیاء سے مسابقتی اہلیت رکھتی ہوں ۔

مثال کے طور پر کچھ حقائق ملاحظہ ہوں ۔ کچھ سال قبل تک پاکستان دنیا میں بڑے پیمانے پر چمڑہ برآمد کرنے والا ملک تھا لیکن غیر تربیت یافتہ عملے اور ناپائیدار حکومتی معاشی پالیسیوں کی بدولت اور مارکیٹ کے جدید تقاضوں کے مطابق کھالوں و چمڑوں کی محفوظ ترسیل نہ ہونے کی وجہ سے آہستہ آہستہ روس سے فرانس و جرمنی تک نے پاکستانی leatherمیں دلچسپی کم کردی اور یوں ہم عالمی مسابقتی مارکیٹ میں کم معیاری leatherسپلائی کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہوگئے اور اس سے ملکی افراط زر میں کمی ہوئی، جس کا اثر ہماری معیشت پر پڑا۔ یہ ایک مثال تھی باقی صنعتوں کا بھی یہی حال ہوتا جارہا ہے ۔

ہم چینی باہر سے درآمد کرتے ہیں جب کہ ملک میں چینی کی پیداوار بڑھانے کے وسیع مواقع اور وسائل موجود ہیں ۔ لیکن ہماری ملکی پالیسیاں سیاسی و انتظامی مصلحتوں کا شکار ہونے کی وجہ سے چند شوگر ملز صنعتکاروں کو حد سے زیادہ منافع حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے ، جس سے کاشتکاروں کو مناسب قیمتیں نہیں ملتیں اور یوں بتدریج گنے کی کاشت میں کمی سے ملک چینی کی پیداوار میں خود کفیل نہیں ہوپاتا۔ اسی طرح گندم میں خود کفیل ہونے کے باوجود مارکیٹ میں طلب کے مطابق رسد کی پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے عوام مہنگے داموں پر آٹا خریدنے پر مجبور ہیں ، جب کہ گندم گوداموں میں پڑی پڑی سڑ جاتی ہے ۔

ملک میں ایرانی اسمگل شدہ تیل سمیت انڈونیشیائی مصنوعات ، بھارتی جیولری و کاسمیٹکس اور چائنیز مال کی بھرمار تک عوام کی آسان رسائی کے اس ماحول میں عوام کو کفایت شعاری ، سادگی اختیار کرنے اور ملکی مصنوعات کے استعمال کے مشورے تو محض بیان بن کر رہ جاتے ہیں ۔ یہاں منرل واٹر کے نام پر دریائے سندھ کا پانی بیچا جارہا ہے ، یہاں کیمیکل و سوڈا ملے دودھ کی فروخت کھلے عام ہورہی ہے ، یہاں ہوٹلوں میں 4سال پرانا گوشت استعمال ہونے کے واقعات عام ہیں اور یہاں حرام و بیمار جانوروں کاگوشت اور جعلی ادویات کا کاروبار عروج پر ہے ۔ حکومت کی رٹ کا عالم تو یہ ہے کہ ان سے گنے کی قیمتیں طے نہیں ہوپارہیں اور نہ ہی شوگر ملز والے سرکار کی پالیسیوں کو خاطر میں لاتے ہیں ۔

ملکی مصنوعات کے معیار کی بات یہ ہے کہ PSQCA کی مہر (stamp) جن پروڈکٹس پرہوتی ہے ان کے عالمی معیار سے مشابہت پر بھی مارکیٹ میں سوال اُٹھتے رہے ہیں جب کہ معیار کی تشخیص کے بغیر موجود اشیاء و مصنوعات کی دستیابی کی تو شاید ہماری مارکیٹ ایشیا کی سب سے بڑی منڈی ہے ۔ایسے میں جب عوام کا ملکی اشیائے صرف و لگژری مصنوعات پر اعتماد ہی نہیں ہے تو عوام اُن چیزوں کے صَرف پر توجہ کیسے اور کیونکر دیں گے ۔ ملکی سماجی حالات اور سرکاری معاشی پالیسیوں کی بدولت ملک میں معیاری اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی ہیںجب کہ ان کی نعم البدل غیر معیاری اشیاء سستے داموں دستیابی کا ماحول گرم ہے ۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان ایک ترقی یافتہ ، خوشحال اور فلاحی ملک بنے تو ہمیں امن و امان کی بحالی اور بدعنوانی و خراب طرز ِ حکمرانی کا خاتمہ کرنا ہوگا کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ یہی وہ وجوہات ہیں جو کسی بھی قوم و ملک کی تباہی کا باعث بنی ہیں ۔ ہمیں اپنی دیگر معاشی اصلاحات میںدیگر عنصروں کے ساتھ ساتھ اس ملک کے عوام بالخصوص نوجوانوں پر سرمایہ کاری کا عنصر بھی شامل کرنا ہوگا جو کہ ہماری آبادی کا اکثریتی حصہ ہیں ۔ہمیں نوجوانوں کو انتہا پسندی ، عدم رواداری اور دیگر منفی رویوں سے بچنے کی ترغیب دینی ہوگی ، اُن کی صحت و نشوونما پر توجہ اور سائنسی طرز فکر پیدا کرنی ہوگی اور عالمی سطح پر مسابقتی پلیٹ فارم پر مقابلے کا اہل بنانا ہوگا کیونکہ یہی وہ طبقہ ہے جو ہمارے روشن مستقبل اور ہماری ترقی و معاشی استحکام کا ضامن ہوسکتا ہے ۔

ان تمام عنصروں میں بہتری کے اقدامات پر مشتمل پالیسی ہی ملک کو معاشی ، سیاسی و سماجی استحکام دے سکتی ہے۔ زرعی آگاہی مہم سے پیداوار کو عالمی معیار کا بنایا جاسکتا ہے ۔ معدنی ذخائر اور معدنیات انڈسٹری اور سی فوڈ ، فشریز و لائیو اسٹاک کے شعبوںکو ترقی دینے کے اقدامات بھی ہماری مارکیٹ اور ملکی معیشت کو جلا بخشنے کا باعث بن سکتے ہیں۔

اس لیے مارکیٹ پر سخت ضابطے کے ساتھ ساتھ بیرونی غیر قانونی طریقے سے آنیوالی اشیاء کی روک تھام ، ملکی غیر معیاری اشیاء پر پابندی پر عمل اور معیاری اشیاء کی قیمتوں پر کنٹرول پر مبنی پالیسی کا نفاذ اور اس پر عملدرآمد ملکی مارکیٹ اکانومی کی بہتری میں پہلا قدم ہوگا، جب کہ بہتر نتائج کے لیے عوام کی سماجی ضروریات سے ہم آہنگ معیاری و سستی ملکی مصنوعات کی آسان دستیابی کے ساتھ ساتھ عوام کی قوت ِ خرید بڑھانے جیسی حقیقی معاشی ، سماجی و قانونی اصلاحات کرنی ہوں گی ۔

اس کے بعد ملکی مصنوعات کے استعمال اور اس کے فوائد پر مبنی آگاہی مہم سے ہی عوام کو اس طرف مائل و قائل کیا جاسکتا ہے ۔ جس سے عوام کا ملکی مصنوعات اور اداروں و پالیسیوں پر اعتماد بحال ہوسکے گا۔اور جب ایک بار یہ اعتماد بحال ہوگیا تو اس ملک و ملت کی ترقی و استحکام کے سارے دروازے خود بخود کھل جائیں گے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔