ایک اچھا پاکستان

عبدالقادر حسن  اتوار 9 دسمبر 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ریاست ریاستی اداروں کے دم قدم سے چلتی ہے۔ اگر ریاستی ادارے مضبوط ہوں اور اپنا اپنا کام ذمے داری سے سر انجام دے رہوں گے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ ریاست کے امور بہتری کی طرف گامزن نہ ہوں اور ریاست مضبوطی کی طرف رواں دواں نہ ہو۔

ہمارے فوجی ترجمان کے بقول پاکستان کی ریاست ستر برسوں بعد بھی نازک دور سے گزر رہی ہے اور اگر ہم ماضی میں ہی بیٹھے رہے تو پھر روشن مستقبل کی سوچ فضول ہو گی۔ ہمیں دیکھنا ہو گا کہ کہ پاکستان پر کچھ عرصے کے بعد یہ نازک دور کیوں آجاتا ہے اور وہ کون سے عوامل ہیں ان کا ہمیں جائزہ لینا ہو گا، ان کی پہچان کرنا ہوگی۔ کیونکہ آگے بڑھنے کے لیے ماضی کو پیچھے چھوڑنا پڑتا ہے اور اب ہمیں ایک اچھے پاکستان کی طرف جانا ہے۔

ہمارے فوجی ترجمان نے نام نہاد سیکولر بھارت کو واضح پیغام دیا ہے کہ وہ پہلے خود تو مکمل سیکولر ملک بن جائے پھر کسی اور کی بات کرے۔ بھارتی آرمی چیف کو انھوں نے پیغام دیا کہ پاکستان اسلام نے نام پر حاصل کیا جانے والا واحد اسلامی ملک ہے اور رہتی دنیا تک اسلامی ہی رہے گا۔ جب کہ بھارت جو کہ پاکستان کے ساتھ ہی آزاد ہوا وہ ابھی تک اپنے راستوں کا تعین نہیں کر پایا۔ وہ سیکولر ہونے کا دعویٰ تو کرتا ہے لیکن اپنے عمل سے ایک تشدد پسند ملک ہے جس نے اپنے ملک میں اقلیتوں پر بے تحاشہ مظالم ڈھائے ہیں، وہ سکھ ہوں یا مسلمان دونوں بڑی اقلیتیں بھارتی دہشتگردی گا شکار ہیں۔

کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کا بھارتی مکروہ چہرہ سب کے سامنے ہے۔ بھارت کے مظالم کی ایک تفصیلی داستان ہے جس سے پوری دنیا آگاہ ہے۔ بھارت اپنی اقلیتوں کو دبا کر رکھنا چاہتا ہے اور اقلیتوں کے جو حالات بھارت جیسے نام نہاد سیکولر ملک میں ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں بلکہ بھارت میں ہندو ہی ذات پات میں اس قدر جکڑے ہوئے ہیں کہ ایک مذہب کے پیرو کار ہونے کے باوجود ان میں ایسی تقسیم کر دی گئی ہے کہ نیچ ذات کا ہندو اگر کسی بڑی ذات کے ہندو سے چھو بھی جائے تو اس کا مذہب بھڑشت ہو جاتا ہے۔ یعنی ان کے اپنے ہندو مذہب میں ذات پات کے اتنے مسائل ہیں کہ جس سے ہندو بذات خود بہت تنگ ہیں۔

یہ سب ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ اور اسی مذہبی تفریق کی بنیاد پر ہندو بھارت اپنے ملک میں موجود اقلیتوں کے لیے بھی ہمیشہ مشکلات ہی پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ شاید اس کی سوچ اس قدر محدود ہو گئی ہے کہ وہ اپنی اقلیتوں کے ساتھ بھی وہی سلوک روا رکھنا چاہتا ہے جو سلوک اس نے اپنے ہم مذہبوں کے ساتھ رکھا ہوا ہے۔ لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے، پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور بھارت نواز حکمران پاکستان سے رخصت ہو چکے ہیں۔

پاکستان اگر بھارت کے ساتھ خوشگوار تعلقات کا خواہاں ہے تو اس کی صرف ایک ہی وجہ ہے کہ وہ اپنے پڑوسی ملکوں کے ساتھ امن سے رہنا چاہتا ہے ورنہ کون نہیں جانتا کہ دو ایٹمی ہمسائیوں کے درمیان جنگ کی نوبت کسی ایک کے حق میں بھی بہتر نہیں ہو گی ۔ زمینی حقائق کا ادراک وقت کی اہم ضرورت ہے۔ صرف طاقت کے نشے میں کسی دوسرے کو اپنے سے کمتر سمجھنا بے وقوفی ہو گی۔ اس لیے بھارت کو بھی چاہیے کہ وہ پاکستان کو بھاشن نہ دے بلکہ اپنے حالات پر غور و فکر کرے تو زیادہ بہتر ہے۔

دراصل پاکستان کی موجودہ حکومت نے بھارت کو امن کا پیغام دیا اور اور بار بار دیا اور پھر سکھوں کے لیے کرتار پور جیسی اہم عبادت گاہ تک پاکستان کی جانب سے براہ راست رسائی کا فیصلہ بھارت کے ارباب اختیار کو ہضم نہیں ہو رہا۔ وہ شائد یہ سمجھ رہے ہیں کہ پاکستان سکھوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو فروغ دے کر بھارت کے لیے کسی قسم کی مشکلات پیدا کرنا چاہتا ہے حالانکہ اگر دیکھا جائے تو سکھ مذہب کی تما م عبادت گاہیں پاکستان میں ہیں اور سکھ یاتری ہر سال بڑی تعداد میں پاکستان آتے ہیں اور اپنی مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں۔

بھارت کو شاید یہ خوف ہے کہ سکھ پاکستان دوستی میں اس کی بقاء کو خطرات لاحق ہو جائیں۔ بھارت کو مطمئن رہنا چاہیے کیونکہ ہم نے بہت پہلے ہی اپنے سکھ دوستوں کی باقاعدہ فہرستیں بھارت دوستی میں ان کے حوالے کر دی تھیں اور بھارتی حکومت نے چن چن کر ہمارے ان دوستوں کو ختم کر دیا تھا۔ لیکن ابھی تک وہ خوف بھارت کے اندر سے گیا نہیں۔

بھارت آبادی کے لحاظ سے ایک بہت بڑا ملک ہے لیکن عددی برتری کے باوجود ایک خوفزدہ ملک بھی ہے کیونکہ اس کے اندر ایمانی طاقت کا وہ جذبہ موجود نہیں جو مسلمانوں میں ہے اس لیے وہ ہمیشہ مسلمانوں سے خوفزدہ ہی رہتا ہے۔ اب جب کہ بھارت کے ساتھ دوستی کے نام پر ووٹ حاصل کرنے والے حکمران رخصت ہو چکے ہیں اور ان کی جگہ پاکستان نواز حکمران اقتدار میں ہیں تو بھارت کو ایک مسلسل پریشانی لاحق ہے اور وہ اس کا مسلسل اظہار بھی کر رہا ہے۔

افواج پاکستان اور حکومت باہمی مشاورت سے ایک اچھے اور بہتر پاکستان کی جانب لے جانے کی کوششوں میں مصروف ہیں یہ کوششیں بھارت اور اس کے پاکستانی دوستوں کو ہضم نہیں ہو رہیں۔ اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کی نئی پاکستان نواز حکومت کو کسی طرح غیر مستحکم کر دیا جائے تا کہ وہ عوام میں اپنی مقبولیت کھو بیٹھے اور ان حالات میں وہ کھل کر کھیل سکیں۔ پہلے بھی کئی بار عرض کیا ہے کہ حکومت مخالف طاقتیں جمع خاطر رکھیں کیونکہ موجودہ حکومت اپنی معینہ مدت پوری کر کے ہی رخصت ہو گی۔ اس وقت تمام ریاستی ادارے مکمل مشاورت سے استحکام پاکستان کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔

فوجی ترجمان نے میڈیا سے بھی کہا کہ وہ صرف چھ ماہ اچھی چیزیں دکھائے یعنی ملک میں جو مثبت کام ہو رہے ہیں ان کو اجاگر کیا جائے، ملک کی ترقی کے جو کام ہو رہے ہیں ان کو قوم کے سامنے مثبت انداز میں پیش کیا جائے تا کہ قوم کا ریاست پر اعتماد بحال ہو۔ ریاستی اداروں کے درمیاں غلط فہمیاں پیدا کرنے سے گریز کا مشورہ بھی انھوں نے دیا ہے تا کہ ایک اچھے پاکستان کے لیے حکومت اور فوج مل جل کر جو کوششیں کر رہی ہیں وہ پایہ تکمیل کو پہنچ سکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔