معیشت کی زبوں حالی

ایڈیٹوریل  پير 10 دسمبر 2018
کسی بھی وقت ڈالر کی قیمت میں اضافہ حکومت کی معاشی مشکلات میں اضافے کا موجب بن سکتا ہے۔ فوٹو: فائل

کسی بھی وقت ڈالر کی قیمت میں اضافہ حکومت کی معاشی مشکلات میں اضافے کا موجب بن سکتا ہے۔ فوٹو: فائل

چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے ہفتے کو راولپنڈی میں دو روزہ ہارٹ سٹروک کانفرنس کی اختتامی تقریب سے خطاب میں ملک میں طبی سہولتوں کے دگرگوں نظام پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں علاج وہی کرا سکتا ہے جو مالدار یا بااثر ہو جب کہ غریب کا اچھا علاج نہیں ہوتا، طبی سہولتوں کی مخدوش صورت حال ریاست کی ناکامی ہے، سپریم کورٹ ملک میں شعبہ صحت کی بہتری کے لیے مکمل تعاون کرے گی۔

ملک میں صرف طبی شعبے کی مخدوش صورت حال ہی ریاست کی ناکامی کی آئینہ دار نہیں بلکہ کسی بھی شعبے کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو وہاں بھی کچھ ایسی ہی داستان سننے کو ملتی ہے‘ کسی بھی سرکاری محکمے میں چلے جائیں وہاں شکایات کا ایک انبار اور پریشان حال شہریوں کی ایک بڑی تعداد نظر آتی ہے جن کے جائز کام بھی رشوت نہ دینے پر مدتوں التوا کا شکار چلے آتے ہیں‘ تبدیلی کا نعرہ لگانے والی پارٹی کے دور حکومت میں بھی سرکاری محکموں کی کارکردگی میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی‘ آج بھی رشوت اور کرپشن کا چال چلن وہی ہے جو پہلے تھا بلکہ کنفیوژن شاید پہلے سے بھی بڑھ گئی ہے۔

حکومت سو دن گزر جانے کے باوجود ابھی تک ٹھوس اور مستحکم معاشی پالیسی نہیں دے سکی جس سے ملکی ترقی کے راستوں کا واضح اور یقینی تعین ہو سکے۔ سرمایہ کار اور تاجر طبقہ ابھی تک بے یقینی کی صورت حال میں اپنا کاروبار چلا رہا ہے ،کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ مستقبل کا معاشی ایجنڈا کیا ہے۔نئی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے، تعمیراتی شعبے میں بھی جان لیوا سست روی دیکھنے میں آرہی ہے۔تعلیم یافتہ نوجوان کی بے روزگاری خوفناک حد تک بڑھ رہی ہے۔ ڈاکٹرز اور انجینئرز تک بے روزگار ہیں۔کاروباری سرگرمیاں ماند پڑ رہی ہیں۔

حکمران اشرافیہ مسلسل وسائل کی کمی کا واویلا مچا کر ابھی تک کوئی بڑا ترقیاتی منصوبہ پیش نہیں کر سکی‘ بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم جس کے لیے تقریباً 20ارب ڈالر کا خطیر سرمایہ درکار ہے اس کے لیے شروع کی گئی چندہ مہم میں ابھی تک صرف 8ارب روپے کے لگ بھگ اکٹھے ہو سکے ہیں‘ اگر یہ مہم اسی طرح چندے کی مرہون منت رہی تو بادی النظر میں ڈیمز کے لیے مطلوبہ رقم اکٹھی ہونا مشکل امر ہے۔ ٹیکس ریونیو اکٹھا کرنے کی صورت حال بھی مخدوش ہے‘ خبروں کے مطابق مالی سال کے پہلے پانچ مہینوں میں ریونیو اکٹھا کرنے میں 102بلین روپے کے خسارے کا سامنا ہے اور ایف بی آر کے حکام آنے والے دنوں میں اس خسارے پر قابو پانے کے طریقہ کار کے بارے میں وزیراعظم کو آگاہ کر چکے ہیں۔

توانائی کے بحران کے مہیب سائے ابھی تک ملکی معیشت پر چھائے ہوئے ہیں اور حکومت توانائی بحران پر قابو پانے کے لیے کوئی مختصر مدت منصوبہ پیش نہیں کر سکی۔ پی آئی اے‘ اسٹیل ملز اور دیگر محکمے مسلسل خسارے میں جا رہے ہیں اور ابھی تک انھیں اس خسارے سے باہر نکالنے کے کوئی ٹھوس اشارے نہیں مل رہے۔ ڈالر کی اڑان کے باعث روپے کی قدر میں نمایاں کمی واقع ہونے سے ملکی قرضوں میں خود بخود خاطر خواہ اضافہ ہو چکا ہے اور ابھی تک مارکیٹ میں یہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ ڈالر کی قدر میں مزید اضافے کا امکان ہے‘ وزیراعظم ڈالر کی قدر میں اضافے پر اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے سارا ملبہ وزیر خزانہ اور اسٹیٹ بینک پر ڈال چکے ہیں‘ اگر روپے کی قدر کنٹرول کرنے پر حکومت کا کوئی اختیار ہی نہیں تو پھر ملک کا معاشی نظام کیسے بہتر ہو سکتا ہے۔

کسی بھی وقت ڈالر کی قیمت میں اضافہ حکومت کی معاشی مشکلات میں اضافے کا موجب بن سکتا ہے۔ ڈالر‘ پٹرول‘ بجلی اور سوئی گیس کی قیمتوں میں اضافے کے باعث ضروریات زندگی کی تمام اشیا مہنگی ہو چکی ہیں‘ ان سو دنوں میں آنے والے مہنگائی کے طوفان نے عام آدمی کی زندگی پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں‘ عام آدمی جو پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں بری طرح پس رہا تھا اب اس کے لیے اپنے وسائل اور اخراجات میں توازن قائم کرنا مشکل امر ہو چکا ہے۔ حکومت نے ایک کروڑ افراد کو روز گار دینے کا بلند بانگ دعویٰ کیا تھا مگر حال یہ ہے کہ اس ملک میں ڈاکٹرز اور انجینئرز تک بے روزگار ہیں اور انھیں روز گار نہیں دیا جا سکا اور نہ ایسا کوئی فی الفور امکان دکھائی دے رہا ہے۔

بڑھتی ہوئی مہنگائی‘ غربت اور بیروز گاری نے عام آدمی کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا اور نوجوان طبقہ جس نے اپنے روشن مستقبل کے لیے تبدیلی کے نام پر ووٹ دیا تھا اسے ابھی تک موہوم سی امید کی کوئی کرن نظر نہیں آ رہی۔ غربت اور مہنگائی نے جرائم کی رفتار کو بھی مہمیز کیا ہے‘ چوری ڈکیتی‘ راہزنی اور موبائل چھیننے کی وارداتیں بڑھتی جا رہیں دوسری جانب تجاوزات کے خلاف شروع کیے گئے آپریشن نے بھی نجی طور پر روز گار تلاش کرنے والے افراد کے لیے راستے محدود کر دیے ہیں۔ تجاوزات کے خلاف شروع کی گئی مہم بالکل صائب ہے لیکن جلد بازی میں کیے گئے اس فیصلے نے ہزاروں افراد سے ان کا روز گار چھین لیا ہے‘ حکومت کو پہلے متبادل جگہ فراہم کرنی چاہیے تھی اور پھر اس کے بعد تجاوزات کے خلاف آپریشن شروع کیا جاتا تو جو مسائل آج پیدا ہو رہے ہیں وہ نہ ہوتے۔ زرعی شعبہ بھی مخدوش صورت حال کا سامنا کر رہا ہے اور کاشتکار کو اپنی زندگی میں بہتری کی کوئی تبدیلی دکھائی نہیں دے رہی۔ صورت حال یہ ہے کہ زمیندار کاشتکاری چھوڑ کر اپنی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنا رہے ہیں۔

جس سے آنے والے دنوں میں زرعی پیداوار میں کمی کا خطرہ محسوس کیا جا رہا ہے۔ صنعتی شعبہ بھی اسی طرح مشکلات کا شکار ہے‘ ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر اور ڈیوٹیوں میں اضافے سے صنعتکار کے لیے پریشان کن صورت حال پیدا ہو چکی ہے۔حکومت نے بیمار صنعتوں کی بحالی کے لیے بھی کسی پالیسی کا اعلان نہیں کیا۔ملک میں تبدیلی اس وقت آئے گی جب ریاستی پالیسیاں امیر اور بااختیار طبقے کو تحفظ دینے کے بجائے عام آدمی کے لیے بہتر تبدیلی کا پیغام لے کر آئیں گی۔جاگیرداری نظام ملکی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے،تحریک انصاف اس استحصالی نظام کے خاتمے کے لیے کسی ایجنڈے کا اعلان نہیں کرسکی،بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جاگیرداروں کی ایک بڑی تعداد حکومتی نظام کا حصہ ہے اور وہ تبدیلی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں وہ کوئی ایسی پالیسی نہیں بننے دیتے جس سے ان کو نقصان پہنچے اور عام آدمی کی زندگی میں بہتری آئی۔

تحریک انصاف اگر حقیقی معنوں میں تبدیلی لانا اور ملک کو خوشحالی کے راستے پر گامزن کرنا چاہتی ہے تو اسے جاگیرداری اور قبائلی نظام کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ صحت تعلیم سمیت کسی شعبے میں ابھی تک کوئی بہتری نہیں آئی جس کی نشاندہی وقتاً فوقتاً چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار بھی کرتے رہتے ہیں۔ حکومت کو تبدیلی لانے کے لیے صنعتی اور زرعی شعبے پر خصوصی توجہ دینا ہو گی۔کرپشن کے خاتمے کے لیے کی گئی وزیراعظم کی کوششوں پر عوام کو اعتماد ہے لیکن اس اعتماد میں تب ہی اضافہ ہو گا جب ان کے معاشی مسائل بھی بہتر انداز میں حل ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔