ہم مناسب وقت پردرست فیصلے کیوں نہیں کرسکتے!

راؤ منظر حیات  پير 10 دسمبر 2018
raomanzar@hotmail.com

[email protected]

شائدڈی این اے(D.N.A)میں کوئی سقم ہے۔یہ بھی ہوسکتاہے کہ ہمارے جینزہی نرالے ،انوکھے اورعجیب ہوں۔ ویسے جولفظ Genesکے متعلق ذہن میں ہے، لکھنے کی جرات نہیں کرسکتا۔بہرحال اجتماعی اورانفرادی سطح پر ہم پوری دنیاسے مختلف ہیں۔منفردکالفظ بھی اس جگہ استعمال نہیں ہوسکتا۔یہ بھی حقیقت ہے کہ پوری قوم میں سے بہت ہی کم تعدادمیں لوگ بہترکام کررہے ہیں۔مجموعی طورپر ہم، نااہل ترین لوگوں کاوہ ہجوم ہیں جوبروقت اوردرست فیصلہ کرنے کی قوت سے مکمل عاری ہے ۔حیرت انگیزحدتک ادنیٰ رویوں کے مالک ہیں۔یہ سب کچھ کسی ایک شعبہ میں  نہیں بلکہ زندگی کے ہرپہلومیں ہمارارویہ عجیب ہے۔بائیس کروڑ لوگوں کاایک ریوڑ ہے جس سے پوری دنیاکنی کتراتی ہے۔

بڑی باتوں کی طرف بعدمیں آتاہوں۔آپ کسی بھی شہر،قصبہ یاگاؤں میں کھانے پینے کی کوئی چیزلینے جائیے۔ دکان،اسٹوریاسُپراسٹور کے مالکان کی اکثریت حددرجہ مذہبی نظرآئے گی ۔نورانی چہرے ،ظاہری وضع قطع  سے لگے گاکہ جھوٹ،فریب توان کے پاس سے گزراتک نہیں ہوگا۔ مگر نناوے فیصدچیزوں میں ملاوٹ اوروزن میں کمی ہوگی۔ کیا یہ بات آپ کوافسردہ نہیں کرتی کہ ہم اپنے بچوں کو دودھ تک خالص مہیا نہیںکرسکتے۔دکان کے باہردینی کلمات بھی درج ہوں گے۔

مگران مقدس فقروں کاعمل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ جس ملک میں دوائیاں تک خالص نہیں ہیں، دل میں  ڈالے جانے والے والوز اورپیس میکرجعلی ہوں،وہ کسی بھی طریقہ سے کامیاب قرارنہیں دیاجاسکتا۔دعوی سے عرض کرتا ہوں کہ اگرلندن،نیویارک یامغرب میں کوئی تجارتی کمپنی کسی قسم کی ملاوٹ یاتول میں کمی کاکام کرے،توحکومت اسے منٹوں میں نشانِ عبرت بنادے گی۔مالک کی سات پشتیں کاروبار کرنے کے قابل نہیں رہیںگی۔معاشرے میں کسی کوبھی منہ نہیں دکھاپائیںگے ۔مگرہمارے معاشرے میں حکومتی اور غیرحکومتی روایات انتہائی ادنیٰ درجہ کی ہیں۔ برسوں گزرجاتے ہیں مگراوچھے پن کے سوا کوئی عمدہ مثال سامنے نہیں آتی۔ اب تو قومی گراوٹ کاذکرکرتے کرتے بھی تھک چکا ہوں۔ مگر مجبوری ہے کہ لکھنابندنہیں کرسکتا۔شائد اس کے سوا کوئی کام آتاہی نہیں۔

پچھلے تیس سال پرنظرڈالیے۔پرویزمشرف کے ناپسندیدہ مارشل لاء سے لے کرناکام جمہوریت کے مختلف ادوار کاجائزہ لیجیے۔ہم کسی وقت بھی کوئی صائب کام نہیں کر پائے۔چلیے،سب سے پہلے دہشت گردی کے المیہ کو پرکھیے۔ کیادہشت گردہمارے بڑے بڑے شہروں، مذہبی جماعتوں اور تشدد پسند گروہوں کے سائے تلے نہیں پلتے رہے۔کیایہ دہشت گردصرف ایک دودن میں پیداہوئے اورتوانا ہوگئے۔ ہرگزنہیں۔قومی سطح پر ہم نے ان مشکل ترین لوگوں کو طاقتور ہونے کابھرپورموقعہ دیا۔ ان کوپاکستان کے ہرشہر،قصبے اور گاؤں میں بلاروک ٹوک شاداب ہونے کی اجازت دی گئی۔

ہماری غفلت کی بدولت انھوں نے مساجد سے لے کرذاتی رہاشگاہوں کو اسلحہ خانوں میں تبدیل کردیا۔ ایک سینئر فوجی افسرنے بتایا کہ میران شاہ میں ایک بازار موجودتھا۔جس میں خودکش جیکٹیں،ہرطرح کااسلحہ،حتیٰ کہ خودکش بمبارتک مل جاتے تھے۔کے پی کے چند قصبوں کے چوکوں میں نجی جیلوںمیں مقیدقیدیوں کو باہر نکال کرسرِعام ذبح کیا جاتا تھا۔انسانوں کوذبح کرنے کاسامان بھی بازار سے رعایتی نرخوں پر دستیاب تھا۔ دہشت گرد، کراچی، لاہور بلکہ پورے ملک سے امیر آدمیوں کے بچے اغواء کرکے لیجاتے تھے۔

سیکڑوں میل طویل راستوں پر انھیں کوئی روکنے والا نہیں تھا۔ پھر تاوان وصول کیا جاتا تھا۔ کیاظلم اورجبرکایہ دھندا، ایک آدھ سال میں برپا ہوا تھا۔ نہیں صاحب، نہیں۔ اسے باقاعدہ پنپنے کی بھرپوراجازت دی گئی۔جب یہ کانٹوں بھراجنگل ہمارے لیے سوہان روح بن گیا،توپھرہوش آئی۔ ہمیں معلوم ہواکہ ملک میں دہشت گردقابض ہوتے جارہے ہیں۔اَن گنت شہادتوںکے بعدہم خواب غفلت سے جاگے اور پھر دہشت گردوں کے خلاف منظم جنگ شروع ہوئی جوکافی حد تک جیت چکے ہیں۔مگرکیایہ سوال درست نہیں کہ اگرہم یہی فیصلہ بیس برس پہلے کرلیتے توآج نوے ہزارپاکستانی شہری اور فوجی شہیدنہ ہوتے۔ اگر بروقت فیصلہ ہوجاتاتواے پی ایس کے معصوم بچے اور اساتذہ ناحق اپنی جان سے نہ جاتے۔ دہشت گردوں کے خلاف جنگ کافیصلہ اتنی تاخیرسے کیاکہ ہمارے ملک کا ہر شعبہ برباد ہوگیا۔ معیشت کواربوں ڈالر کا نقصان ہوا اور دنیا کے سامنے ایک کمزورفریق کے طورپر سامنے آئے۔کیاکوئی اس تاخیرکے متعلق لب کشائی کرتا ہے۔ ہرگز ہرگز نہیں۔ سب خاموش ہیں۔

سیاسی اورغیرسیاسی حکومتوں کی مالی بدعنوانی کی طرف آئیے۔ہرباخبرشخص اورادارے کوسوفیصدپتہ تھاکہ کون ساشخص کس سطح کی کرپشن کررہاہے۔ہماری آنکھوں کے سامنے سائیکلوں کوپنکچرلگانے والے کھرب پتی ہوگئے۔ سینموں میں ٹکٹیں بیچنے والے ملک کی قسمت کے مالک بن گئے۔ ان کی ہمشیرگان اوراہل خانہ بیٹھے بیٹھے اس قدردولت مند ہوگئے کہ درست قیافہ تک نہیں لگایاجاسکتا۔لوہابیچتے بیچتے، لوگ دنیاکے پہلے دس بارہ امیرترین خاندانوں میں شامل ہوگئے۔ان کے حواری جو ہرشعبہ میں موجود ہیں، دولت کے سنہرے دریامیں غوطے لگالگاکردیوانے ہوگئے۔ ان کے ساتھ منسلک سرکاری عمال اس قدردولت مندہوگئے کہ درست اندازہ لگاناناممکن ہے۔پورے ملک کودولت کمانے کی ایک مشین بنادیاگیا۔اہم ترین عہدوں پرلوگ،ڈھٹائی اوربے حیائی سے کمیشن کا سرِعام تقاضا کرنے لگے۔مگراہم ترین نکتہ یہ ہے کہ گزشتہ تیس برس میں، جب یہ لوٹ مار ہو رہی تھی،اس وقت ہمارے قومی اداروں نے اپنی گرفت اتنی کمزورکیوں رکھی۔ہماری خفیہ ایجنسیوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ دنیامیں بہترین ہیں۔

ان کوہرمعاملہ کاعلم ہے۔مگرسوال مکمل طورپربرقرارہے۔جب یہ ظالم لوگ،اقتصادی راہ زنی میں ہمہ وقت مصروف تھے تواس وقت ان کی پکڑکیوں نہیں کی گئی۔کہاجاتاہے کہ ریکارڈمنی لانڈرنگ ہوئی۔لانچوں تک میں کالادھن ملک سے دوبئی لیجایا گیا۔ ایک سابق وزیر منی لانڈرنگ کاایک منظم گروہ چلارہے تھے۔جس میں طوائفیں،کال گرلز،دونمبرافراد،سب شامل تھے۔بیس پچیس ارب ڈالرکوغیرقانونی طریقے سے باہرلیجایاگیا۔مگرکیایہ سوال نہیں اُٹھتاکہ جب یہ سب کچھ ہورہاتھااس وقت ان کالے دھندوں کوکیوں نہیں روکا گیا۔

ریاستی ادارے، ایجنسیاں اوراہم عہدوں پرمتعین محافظین اس وقت کیوں گونگے بنے رہے۔وہ لانجیں جن پربوریوں میں ڈالردوبئی جارہے تھے،انھیںبروقت کیوں نہیں پکڑاگیا۔وہ گروہ جو آبرویافتہ خواتین کے ذریعے ہرفلائٹ پرلاکھوں ڈالر بھجواتا ہے،وہ سزاکے بغیرکیسے رہ گیا۔صاحب،یہ سب کچھ ہماری آنکھ کے سامنے اورناک کے نیچے ہوتارہا،مگرہم بروقت فیصلہ نہ کرسکے۔ہمارے کسی ادارے میں اتنی سکت نہیں تھی کہ اقتصادی دہشت گردون کاہاتھ اس وقت روک سکے جب وہ جرم کاارتکاب کررہے تھے۔اب کہاجارہاہے کہ بیس پچیس  بلین ڈالرکوواپس لاناہے۔کوشش ہورہی ہے کہ یہ رقم واپس آجائے۔مگرکیاہمیں پوچھنے کاحق نہیں ہے کہ اتنی بڑی رقم کو ملک سے باہرجانے کی اجازت کیسے دی گئی۔

آبی ذخائرکے متعلق بات کیجیے۔تقریباًچھ سات ماہ سے ہرطرف گریہ ہورہاہے کہ ملک میں پانی کی شدیدقلت ہورہی ہے۔نئے ڈیم نہ تعمیرکیے گئے توپوراملک بنجر ہوجائیگا۔ اناج نہیں اُگ پائیگا۔ملک میں قحط آجائیگا۔پانی پرلڑائی جھگڑے اورجنگیں شروع ہوجائینگی۔مگرسوچیے،کیاپانی کی قلت ایک دودن یاایک دوسالوں میں ظہورپذیرہوئی ہے۔ جواب سادہ ساہے کہ نہیں۔گزشتہ چالیس پچاس برس میں ہماری ہرحکومت اس اہم ترین کام سے غافل رہی ہے۔ ایوب خان کے بعدکون ساصدریاوزیراعظم ہے جس نے ڈیم بنانے کاعزم کیاہو۔بناناتودورکی بات،اعلان ہی کر دیا ہوکہ اگلے دس برسوں میں چارپانچ نئے آبی ذخائر بنائینگے۔ ایک کالاباغ ڈیم کااعلان ہوا۔اس پراتناعلاقائی فساد شروع ہوگیاکہ کوئی بھی حکومت،نامقبول ہونے کے خوف سے اس ڈیم پرکام نہ کر سکی۔

ضیاء الحق کوحکومت کرنے کے لیے ایک دہائی سے اوپر کا وقت ملا۔اس کی تمام کوششیں صرف ایک نکتہ پر مرکوز تھیں کہ پیپلز پارٹی کوکیسے ختم کرناہے۔مذہب کوسیاسی ہتھیارکے طورپرکیسے استعمال کرناہے۔کیاامریکی ڈالروں کی بارش کے دوران اس شخص یااس کی ٹیم کوایک باربھی خیال آیاکہ پانی کے نئے ڈیم بنانے چاہیے۔ورنہ ملک میں عام آدمی کے لیے مشکلات بڑھ جائینگی۔جمہوری حکومتوں نے بھی ایک دوسرے کورسوا کرنے کے سوا کوئی مثبت کام نہ کیا۔ڈیم کی طرف توان کی توجہ جا ہی نہیں سکی۔ایک دوسرے کوگالیاں دیتے ہوئے دہائیاں ضایع کردیں۔لوٹ مارکرنے کے سوا ان کانہ کوئی ایجنڈا تھا اورنہ ہی آبی ذخائرجیسے اہم منصوبوں کی تکمیل کے لیے ان کے پاس وقت تھا۔حدتویہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے اپنے ابتدائی دورمیں،جس میں وہ ہردرجہ طاقتور تھے،کسی قسم کے نئے آبی ذخائربنانے پرتوجہ نہیں دی۔ چارپانچ دہائیوں کی مکمل خاموشی کے بعدایک دم ہمیں خیال آیاکہ اوہو، ہمارے پاس توپانی ختم ہورہاہے۔نئے ڈیم بنانے کی ضرورت ہے۔

یہ توزندگی اورموت کاسوال ہے۔ مگرہے کوئی جوپوچھ سکے، کہ مقتدرحلقوں نے گزشتہ پانچ دہائیوں میں اس اہم ترین نکتہ پرعملی کام کیوں نہیں کیا۔ کیوں اس موضوع پروہ توجہ نہیں دی گئی،جسکایہ حقدار ہے۔ یقین ہے کہ کسی کے پاس بھی کوئی جواب نہیں ہے۔ہم اجتماعی اورانفرادی سطح پرکافی حدتک نااہل لوگ ہیں۔بحث مباحثے اورلایعنی باتوں میں مصروف معاشرہ کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتا۔تاریخ اورحال کا تناظر تویہی بتاتاہے کہ ہم کوئی درست فیصلہ،بروقت کرنے کی اہلیت سے عاری ہیں!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔