شہباز شریف کے مشکل دن ابھی ختم نہیں ہوئے

مزمل سہروردی  پير 10 دسمبر 2018
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

شہباز شریف کی جس انداز میں گرفتاری کی گئی اس پر پہلے دن سے تحفظات موجود تھے۔ صاف پانی کیس میں بلا کر آشیانہ میں گرفتار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ گرفتاری کے بعد ریمانڈ پر ریمانڈ کا کھیل شروع ہوگیا۔ اس سے صاف ظاہر ہوگیا کہ شہباز شریف کے خلاف کوئی واضح ثبوت نہیں ہیں۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ جب ثبوت ہی نہیں تھا تو گرفتار کرنے کی کیا جلدی تھی۔پہلے ثبوت ڈھونڈ لیتے، گرفتاری تو کسی بھی وقت کی جا سکتی تھی۔

بہر حال ریمانڈ پر ریمانڈ کے کھیل سے قائد حزب اختلاف کو ساٹھ دن سے زائد تک قید رکھا گیا ۔تفتیش پر تفتیش کر لی ہے۔لیکن کہانی سب کے سامنے ہے کہ کرپشن اور کک بیک کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔ کیا کوئی سوال کر سکتا ہے کہ جب ساٹھ دن میں کوئی ثبوت نہیں ملا ہے تو کیا ریفرنس فائل  ہوگا؟۔

شہباز شریف تو قومی اسمبلی سے لے کر ہر جگہ یہ اعلان کر چکے ہیں کہ اگر ان پر ایک پائی کی بھی کرپشن ثابت ہو جائے تو وہ خود ہی سیاست سے دستبردار ہو جائیں گے اور چاہیں تو پھانسی دے دی جائے۔ مجھے امید تھی کہ شہباز شریف کو کو گرفتار کیا گیاہے تو ان کی کرپشن کے ثبوت بھی موجود ہوںگے لیکن افسوس کچھ بھی نہیں نکلا ہے۔ شہباز شریف کے دور میں ریکارڈ ترقیاتی کام  ہوئے۔ بجلی کے بڑے بڑے منصوبے ، میٹرو کے کئی منصوبے، درجنوں پل اور سڑکیں ، اسپتال بنائے گئے  ہیں لہذا کسی ایک منصوبے میں تو کرپشن اور کک بیک کا ثبوت ملنا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔

ایسا لگ رہا ہے کہ شہباز شریف کے خلاف کچھ ملے یا نہ ملے لیکن کیس ضرور بنانا ہے۔ مزید ریمانڈ پر ریمانڈ کا مقصد یہی لگ رہا کہ شہباز کم از کم قید تو رکھا جائے۔ نیب کا بس چلتا تو شہباز شریف کو ساری عمر ریمانڈ پر ہی رکھ لیتا۔ اب جب کہ کرپشن اور کک بیک کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے تو شہباز شریف کو ٹیکنیکل ناک آؤٹ کرنے کی تیاری ہو رہی ہے۔ پتہ نہیں حکمرانوں کو یہ کیوں انداز ہ نہیں کہ شہباز شریف پنجاب کا ایک طاقتور وزیر اعلیٰ تھا ۔ وہ کام کرنے والا وزیر اعلیٰ تھا۔ اسے چیزوں کی سمجھ تھی۔ وہ ہر معاملہ کو خو ددیکھتے تھے۔ یہ کوئی جرم نہیں۔ بلکہ ایک اچھی بات ہے۔ ہمارے ملک میں تو ایسے حکمران آگئے ہیں جنھیں روپے کی قدر گرنے کا علم بھی ٹی وی سے ہوتا ہے۔ جنھیں صبح اٹھ کر بتانا پڑتا ہے کہ آپ وزیر اعظم ہیں۔ اب مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ ریاست کو ایسے حکمران چاہئیں جنھیں کسی بات کا علم ہی نہ ہو یا ریاست کو ایسے حکمران چاہئیں جو تمام فیصلوں میں شریک ہو تے ہیں۔

شہباز شریف کا کیس اس حوالے سے بھی عجیب ہے کہ وہ مفاہمت کے حامی تھے۔ وہ تو محاذ آرائی کے بھی خلاف تھے۔ شدید محاذ آرائی کے دور میں بھی انھوں نے مفاہمت کا پرچم سر بلند رکھا۔ پوری انتخابی مہم کے دوران وہ پاکستان کے لیے ایک نئے سوشل کنٹریکٹ کی بات کر رہے تھے۔ وہ پاکستان کو ان گنت بحرانوں سے نکالنے کے لیے مزاحمت کے بجائے مفاہمت کی بات کر رہے تھے۔ وہ ایک نئے سوشل کنٹر یکٹ میں ریاستی اداروں کو ساتھ مفاہمت بڑھانے کے خواہاں رہے ہیں۔ انتخابات میں دھاندلی کے بعد جب ان کے قریبی دوست بھی انھیں یہ کہہ رہے تھے کہ آپ کی مفاہمت کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔ دیکھیں آپ کے ساتھ کتنی زیادتی کی گئی ہے۔ لیکن وہ مسکرا رہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ میری مفاہمت اور نئے سوشل کنٹریکٹ کی بات کسی ذاتی مفاد میں نہیں تھی۔ یہ پاکستان کے مفاد میں ہے۔ اس لیے دھاندلی کے باجود اس کو جاری رکھیں گے۔

سوال یہ بھی ہے کہ اب جب احتساب عدالت نے اپنے عبوری فیصلے س میں لکھ دیا ہے کہ نیب شہباز شریف کے خلاف کرپشن اور کک بیک کا کوئی ثبوت نہیں پیش کر سکا ہے تو کیا حکومت کے پاس شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین نہ بنانے کا کوئی جواز رہ گیا ہے۔ اب تو شہباز شریف نیب سے بھی عبوری کلئیرنس لے آئے ہیں۔ اب تو حکومت کا کیس ہی ختم ہو گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب تو حکومت کو خود ہی سرنڈر کر کے شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین نامزد کر دینا چاہیے۔ایک طرف اعظم سواتی جیسے لوگ حکومت کی گود میں بیٹھے ہیں۔ ایک طرف نیب زدگان کی ایک لمبی فہرست حکومت کے ساتھ ہے۔دوسری طرف جو وہ جو بے گناہ قرار دیے جا رہے ہیں وہ بھی قبول نہیں ہیں۔

میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ سیاستدانوں کے مقدمات ایک طرف تو انصاف کی عدالتوں میں زیر سماعت ہوتے ہیں دوسری طرف وہ عوام کی عدالت میں بھی زیر سماعت ہوتے ہیں ۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بار ہا یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ عدالتوں کے بعض فیصلے عوام کی عدالت میں مسترد ہو گئے ہیں۔ بھٹو کی پھانسی اس کی مثال ہے۔ عوام نے اسے نا انصافی قرار دیا ہے۔

آج کل مائنس فارمولوں کا بہت شور ہے۔ زبان زد عام ہے کہ کہیں نہ کہیں یہ فیصلہ ہو گیا ہے کہ شریف خاندان کو سیاست سے باہر کرنا ہے۔اسکرپٹ ہے کہ کسی بھی شریف کو سیاست میں رہنے نہیں دیا جائے گا۔ لفظ شریف سیاست میں ممنوعہ قرار دے دیا گیا ہے۔ اس لیے یہ بات کوئی اہم نہیں ہے کہ کون محاذ آرائی کر رہا ہے کون مفاہمت کر رہا ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ شاید عوام اس کے لیے تیار نہیں ہے۔

شہباز شریف ایک مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔ صحت بھی ٹھیک نہیں ہے۔ قصور بھی کوئی نہیں ہے۔ ایسے میں آگے کیا ہوگا۔ میں نہیں سمجھتا کہ ان کے لیے صورتحال تبدیل ہوگی۔ اس لیے شہباز شریف کے مشکل کے دن ابھی باقی ہیں۔ لیکن ضمانت ان کا حق ہے۔ تا کہ وہ آزادانہ اپنا سیاسی کردار بھی ادا کر سکیں اور اپنا علاج بھی کر اسکیں۔ اس ملک میں تو ان کو بھی ضمانت مل گئی ہے جن کی کرپشن پر کسی کو شک نہیں تھا۔ ایسے میں ضمانت شہباز شریف کے لیے کوئی ریلیف نہیں بلکہ اس کا قانونی حق ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔