خرابی نہیں ، خرابی کی جڑ ختم کریں

آصف زیدی  پير 10 دسمبر 2018

٭ ملک بھر میں بالعموم اور شہرکراچی میں بالخصوص انسداد تجاوزات آپریشن جس طرح شروع ہُوا، اُس کی دھوم ہر جگہ مچ گئی بلکہ مچی ہوئی ہے۔ یہ دیکھ کر سب کو خوشی اور اطمینان ہُوا کہ اس آپریشن میں امتیاز تو نہیں برتا گیا لیکن کارروائی اور آپریشن کے حوالے سے بہت سے حلقوں کو تحفظات تھے اور ہیں ۔

مذکورہ تحریر میں کراچی والوں کی جانب سے چند سوالات وزیر اعظم عمران خان کی وفاقی حکومت، پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت، ایم کیو ایم کے میئر کی سربراہی میں کام کرنے والی شہری حکومت اور دیگر متعلقہ اداروں کے سامنے رکھے جا رہے ہیں ۔ یہ وہ سوال ہیں جو آج کل شہرکراچی کے تقریباً ہر باسی کی زبان پر ہیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ان سوالات کے جواب دینے والا کراچی میں بنیادی سہولتوں کی طرح اتنا نایاب ہوگیا ہے کہ کوشش کے باوجود کہیں نہیں مِل رہا۔ سیانے کہتے ہیں کہ مسائل کے حل کے لیے کوششیں اچھی بات ہے لیکن مسائل جب حل ہوتے ہیں اور خرابیاں اُس وقت دور ہوتی جب مسائل اور خرابیوں کی جڑکو ختم کیا جائے۔

ایک موہوم سی امید کی جاسکتی ہے کہ شاید ان سوالات کے جواب کسی ذمے دار کی طرف سے آجائیں۔ جواب ملنے سے شہریوں کی پریشانی، درد سری اور مشکلات کا ازالہ تو نہیں ہوگا لیکن اتنا اطمینان ہرکسی کو ہوجائے گا کہ کوئی تو ہے جو انھیں سن رہا ہے۔

ارباب اقتدارواختیار سے عوام کے سوالات:

٭ سب سے اہم بات اور سوال تو یہ ہے کہ برسوں سے کاروبار کرنے والوں کی دکانوں، اسٹالز، بورڈز اور دیگر چیزوں کو تو بلڈوزر نے پلک جھپکتے ہی گرا دیا لیکن جن عناصر نے سالہا سال سے ان لوگوں کوکاروبارکرنے، اپنی دکانیں غیر قانونی طریقے سے سجانے اور پھیلانے کی اجازت دی، اُن کے خلاف ایسا آپریشن یا کارروائی کیوں نہیں کی گئی ؟ اور کیوں نہیں کی جارہی؟

٭ انسداد تجاوزات آپریشن کی زد میں آنے والے دکانداروں اور اپنا کاروبارکرنے والوں کی اکثریت اُن افراد پر مشتمل ہے جن کاکاروبار، دکانیں یا اسٹال کروڑوں یا اربوں روپے مالیت کے نہیں تھے۔ جس نے جہاں بھی دکان سجائی، اپنا شوکیس یا کاؤنٹر آگے بڑھایا تو یقینی طور پر اُس نے ذمے دار اداروں کے اہلکاروں کو اُس کی فیس دی تھی اور برسوں وہ یہ ’جرمانہ، فیس، منتھلی، بھتہ، کمیشن ادا کرتا رہا۔ پھر قصوروار صرف دکاندار ہی کیوں ٹھہرے؟

٭ کراچی والوں نے یہ مناظر بھی دیکھے ہیں کہ بالکل تعمیر شدہ گھر، شادی ہالز یہ کہہ کر مسمارکی گئیں کہ ’’یہ غیر قانونی ہیں ‘‘ لوگ سوال کررہے ہیں کہ کسی بھی علاقے میں جب کسی گھرکی تعمیر شروع ہوتی ہے تو متعلقہ ادارے فوری پہنچ جاتے ہیں کہ کسی نہ کسی مَد میں اپنا ’’حصہ‘‘ وصول کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ایسا کیسے ہوگیا کہ مختلف علاقوں میں نئے سے نئے گھر بھی بن گئے، اُن کی خریدوفروخت بھی ہوگئی، شادی ہالز بنے اور ان میں سیکڑوں تقاریب منعقد کرلی گئیں اور پھر اچانک ایک دن وفاقی و صوبائی حکومتوں، شہری اداروں کو الہام ہُوا کہ یہ سب غیر قانونی تھا اس لیے اس کا گرنا ضروری ہے؟ یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی۔

٭ کراچی والے یہ سوال کرنے میں بھی حق بجانب ہیں کہ شہرکے کونے کونے میں انسداد تجاوزات آپریشن بھرپور طریقے سے ہوا، اکثر مقامات پر لوگوں نے خود بھی رضاکارانہ طور پر اپنے حد سے بڑے ہوئے کاروبارکے تشہیری بورڈ، کاؤنٹر اور دیگرچیزیں ہٹائیں ۔کئی ہفتے یہ کارروائی ہوتی رہی لیکن کوئی کچھ نہیں بولا اور جب سارے شہر سے لوگوں کا کاروبار (قانونی ہو یا غیر قانونی) ختم کردیا گیا تو تمام سیاسی جماعتیں عوام کی ’’ہمدردی ‘‘ میں سراپا احتجاج بن گئیں، ایسا کیوں؟ جب پہلے روز یہ کارروائی ہونی تھی تو اُسی وقت بولنا تھا۔

٭اب کوئی جماعت آپریشن کے خلاف احتجاج کررہی ہے۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کررہی ہیں۔ کوئی عدالت جانے کا سوچ رہا ہے تو کوئی اسمبلیوں میں قرارداد لارہا ہے۔ یہ سب سرگرمیاں چیخ چیخ کر سوال کررہی ہیں کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ اگرکچھ غلط ہُوا ہے تو اس کا تدارک ضروری ہے۔

٭ جن دکانداروں نے برسوں اپنا کاروبار کیا اور متعلقہ اداروں کو ’’ادائیگیاں‘‘ بھی کیں، اُن کو معاوضے یا انھیں متبادل جگہ دینے کے حوالے سے ارباب اقتدارکا کیا پروگرام ہے؟ جن لوگوں نے برسوں متعلقہ حکام کو پیسے ادا کیے تو انھیں رقم کون لوٹائے گا؟، اس سوال کا جواب بھی ڈھونڈنا ہوگا۔

کراچی والوں کو ارباب اقتدار کے جوابات کا انتظار رہے گا۔

آخر میں یہ بات بھی کرتے چلیں کہ جب تجاوزات کے خلاف ہمارے ادارے، ہماری حکومتیں اتنا بڑا آپریشن کرسکتی ہیں کہ کوئی کچھ نہ بولے اور لوگ رضاکارانہ طور پر اس کارروائی کو کامیاب بنانے میں بھی اپنا کردار ادا کریں تو شہر َ قائدؒ میں تو ایسے بہت سے مسائل ہیں جو عفریت بن چکے ہیں اور جن کا حل کیا جانا انسداد تجاوزات آپریشن کی طرح ہی ضروری ہے۔ ان میں سب سے بڑا مسئلہ پانی کی غیر منصفانہ تقسیم کا نظام ہے جس کو ٹھیک کرنے سے شہر کے آدھے سے زیادہ مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ فراہمی آب کی ٹوٹی پھوٹی لائنیں، ان خستہ لائنوں میں بھی جگہ جگہ غیر قانونی کنکشنز اور پانی کی فراہمی کے نظام میں بے قاعدگیاں، ایسے مسائل ہیں جو مل کر شہریوں کو پریشانی ، اذیت اور تکالیف کو بڑھا رہے ہیں۔ قلت آب کا مسئلہ ، تجاوزات کے مسئلے سے زیادہ خطرناک اور پریشان کُن ہے جس کے حل کے لیے بھی ارباب اختیار کو حکمت عملی طے کرنی ہوگی۔

شایدکہ کسی دل میں اُتر جائے میری بات

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔