سوشل میڈیا اور سائبر کرائم: کیا ہم نئی پابندیوں کیلئے تیار ہیں؟

جنید رضا  منگل 11 دسمبر 2018
کیا ہم اس سے متفق ہیں کہ آزادی اظہارِرائے کے بنیادی حق کوحب الوطنی، نظریئے یا مذہب کی بنیاد پر محدود نہیں کیا جاسکتا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کیا ہم اس سے متفق ہیں کہ آزادی اظہارِرائے کے بنیادی حق کوحب الوطنی، نظریئے یا مذہب کی بنیاد پر محدود نہیں کیا جاسکتا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اس ورچوئل دنیا کو دیکھنا، جاننا اور اس کا حصہ ہونا دلچسپ ہے، خوفناک بھی اور بے حد جوش بھرا بھی کہ ہم ایک ایسے احتجاج، ایک ایسے مظاہرے، ایک ایسی بحث، ایک ایسے مکالمے، ایک ایسے منظر نامے اور ایک ایسی دنیا کا حصہ ہیں جہاں کوئی بھی، کہیں بھی، کسی بھی موضوع پر کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔ یہاں ہر قسم کے لوگ ہیں، ہر نقطہ نظر کےلیے مختص فیس بک صفحات ہیں، ہر کسی کے حق میں اور مخالفت میں پوسٹس، ٹویٹس اور ٹرینڈز کا ایک لامتناہی تسلسل ہے، ہر کوئی بااختیار ہے کہ وہ جب چاہے کسی بھی مکالمے کا حصہ بن جائے اور جہاں جی چاہے اپنا کی بورڈ اٹھا کر سب سے مقاطعہ کرلے۔ آپ سب ایک ایسی سائبر دنیا کی تعمیر کر رہے ہیں جہاں کوئی حدود و قیود نہیں، ہر شخص دوسروں سے اتفاق یا اختلاف کرنے میں آزاد ہے، ہر کسی کی دلچسپی کا سامان موجود ہے، سب کچھ سب کی دسترس میں ہے۔ اور یہی انٹرنیٹ کی بنیاد ہے؛ آزادی، رسائی اورخود مختاری۔

آپ ایک آئن لائن وائرل زدہ معاشرت میں اپنے اپنے کی بورڈ اور فرنٹ اور بیک کیمروں کے ساتھ ہمہ وقت ان گنت انجان اکاؤنٹس سے میل جول میں مصروف ہیں۔ آپ سب اس سنسنی سے واقف ہیں جو کسی بھی متنازع معاملے یا کسی بھی ممنوعہ موضوع پر کچھ بھی پوسٹ کیے جانے سے پہلے آپ کی رگوں میں دوڑنے لگتی ہے۔ آپ سب ایک انٹرنیٹ کنکشن، ایک لیپ ٹاپ اور ایک ویب سائٹ کے ذریعے دنیا کی ہزاروں لاکھوں اسکرینوں پر، ہزاروں لاکھوں ٹائم لائنوں پر ابھرتے ہیں، اسکرول کیے جاتے ہیں، لائیک کیے جاتے ہیں، شیئر کیے جاتے ہیں… ایک سو چالیس لفظوں میں دنیا بھر میں ری ٹویٹ ہونے کی صلاحیت پہلے کہاں کسی کے پاس تھی؟ کیا یہ ممکن تھا کہ ہر فرد معلومات، اطلاعات، خبروں اور افواہوں کے اس بہاؤ میں کود کر اس کا حصہ بن سکے؟ حقیقت یہ ہے کہ آپ سب ایک ایسی دنیا کے اہم ترین لوگ ہیں جہاں حقیقت وہی ہے جو آپ کی اسکرین پر جھلملاتی ہے، آپ کے نوٹیفیکیشنز میں نظر آتی ہے یا آپ کی ٹائم لائن پر ابھرتی ہے۔

یہ ایک ایسا طلسم کدہ ہے جہاں متنازع ہونے، مشہور ہونے یا اہم ہونے کےلیے برقت اور ہمہ وقت آن لائن رہنے کی ضرورت ہے، اب آپ کو خبروں میں نہیں نیوزفیڈ میں رہنے کےلیے تگ و دو کرنا پڑتی ہے۔ اب آپ کو اگلے گھنٹے، اگلے پہر، اگلے دن یا اگلے ہفتے کےلیے نہیں، ابھی اور اسی وقت کےلیے لکھنا، تصویر کھینچنا یا پوسٹ کرنا ہے۔ یہ سب کچھ آپ کو اہم، طاقتور اور مؤثر بنا رہا ہے، آپ کی بات لوگوں تک بلا روک ٹوک پہنچ رہی ہے، آپ کو کوئی بھی کہیں بھی پڑھ سکتا ہے، آپ تک رسائی لامحدود ہے۔ اب ان موضوعات پر بہ آسانی بات ہو رہی ہے، بحث ہو رہی ہے، مکالمہ جاری ہے جن کے بارے میں لکھنے یا بات کرنے کا تصور بھی مشکل تھا۔ مذہب، سیاست، ادب، سماج، فکر و فن، فلسفہ، شوبر، تعلیم… ہر شعبہ زندگی کے متنازع ترین اور ممنوع موضوعات نہ صرف زیرِ بحث ہیں بلکہ ان پر ایک مسلسل مکالمہ جاری ہے۔ آپ میں سے ہر ایک اپنی اپنی جگہ اپنے اپنے نقطہ نظر کے مطابق اپنی اپنی بات کر رہا ہے، یہ ایک ایسی مثبت پیش رفت ہے جو اس سے پہلے پاکستان میں ممکن نہ تھی۔

اس سے پہلے بلوچوں پر ہونے والے مظالم کبھی اتنا کھل کر سامنے نہیں آئے تھے، فوج پر اس انداز میں کھلے عام تنقید کبھی بھی ممکن نہیں تھی، مذہب پر مکالمے کی یہ آزادی کہاں میسر تھی؟ سیاستدانوں کی جو سیاسی شہادتیں رکیں تھمیں، اس کی وجہ بھی سوشل میڈیا ہے۔

مگر کیا ہم سب جو انٹرنیٹ کی اس کھلی ڈلی آزادی میں بے فکری سے سانس لے رہے ہیں، اُن پابندیوں کےلیے تیار ہیں جو مقتدر حلقے تجویز کررہے ہیں؛ اور مصدقہ اطلاعات ہیں کہ بتدریج منظور بھی کر رہے ہیں۔

کیا ہم ریاست کے اس جبر کا سامنا کرنے کو تیار ہیں جو قومیت کی ایک مخصوص تعریف، مذہب کی ایک خاص تعبیر او ر معاشرت کی ایک محدود صورت کے سوا ہر نقطہ نظر کی آواز کو کچلنے کےلیے ہم پر مسلط کیا جانے والا ہے؟ ہم یہ سب ماضی میں ہوتا دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح ریاست کے ادارے اور مختلف سیاسی، عسکری اور مذہبی گروہ اپنے ناقدین کو خاموش کراتے ہیں۔ یہ روزنامہ امروز کو قومیانے کی صورت میں بھی ہوا، یہ اخبارات کے اشتہارات روکنے کی شکل میں بھی ہوا، یہ حامد میر اور رضا رومی پر ہونے والے حملوں کی طرز پر بھی ہوا۔ یہ سلیم شہزاد اور زینت کی مثالوں سے بھی واضح ہے۔ حال ہی میں طلعت حسین، مطیع اللہ جان، مرتضی سولنگی جو کچھ بھگت رہے ہیں، وہ سب بھی ہمارے سامنے ہے۔

ہم نے یوٹیوب کی بندش بھی دیکھی ہے، ہم نے پی ٹی اے کے ہاتھوں کئی بلوچ ویب سائٹس پر پابندی بھی دیکھی ہے اور یہ سب کسی بھی قانون کی غیر موجودگی میں ہو چکا ہے، تو سوچیے ایک قانون کی موجودگی میں کیا کچھ ممکن ہے۔

سائبر کرائم بل (ن) لیگ کا تحفہ خاص ہے۔ یہ قانون یقیناً ہمارے سیکیورٹی اداروں کےلیے ایک ایسا حربہ اور ہتھیار بن رہا ہے جو ان کے نقطہ نظر کے خلاف بولنے والوں کی زباں بندی کےلیے استعمال کیا جائے گا۔ اگرچہ سائبر جرائم کےلیے قوانین بے حد ضروری ہیں مگر ہمیں علم ہے کہ سائبر جرائم کی روک تھام کی آڑ میں ’’نظریہ پاکستان، اسلام اور اخلاقی اقدار‘‘ کے تحفظ کی وہ شقیں بھی منظور کی جا رہی ہیں جو ماضی میں بھی ریاستی جبر کو جواز فراہم کرنے کےلیے استعمال کی جاتی رہی ہیں۔ ہمیں اندازہ ہے کہ سائبر سیکیورٹی، صارفین کے تحفظ اور آن لائن جرائم کی بیخ کنی کےلیے سائبر جرائم پر قانون سازی کتنی اہم ہے؛ لیکن کیا اس قانون کا عملی اطلاق اس انداز میں ہو سکے گا کہ بنیادی انسانی حقوق متاثر نہ ہوں؟

ہمیں پوری طرح سے علم ہے کہ جب وطن دشمنی یا مذہب دشمنی کے الزامات کے تحت ایک ویب سائٹ تک رسائی منقطع کی جاتی ہے تو پھر اسے بحال کرانا کس قدر مشکل ہے، ہم جانتے ہیں کہ جب کسی کے خلاف توہینِ مذہب یا غداری کے الزامات لگائے جاتے ہیں تو وہ چینل کس طرح گھٹنے ٹیکتا ہے، ہمیں خبر ہے کہ قومی سلامتی، حب الوطنی، نظریئے اور مذہب کے نام پر کس طرح سے ریاستی ادارے اور شدت پسند گروہ اختلافی نقطہ نظر رکھنے والوں کا ’’علاج‘‘ کرتے ہیں۔

کیا ہم سب اس ایک نکتے پر متحد ہیں کہ ہر فرد کو اپنے نقطہ نظر کے مطابق بات کرنے کی پوری آزادی ہے؟ کیا ہم اس آزادی کی اخلاقیات پر، جو ہمیں تشدد پر اکسانے، غارت گری پر آمادہ کرنے، نفرت آمیز مواد کو پھیلانے سے روکتی ہے، متفق ہیں؟ کیا ہم اس ایک نکتے پر اکٹھے ہیں کہ آزادی اظہارِ رائے ہر فرد کا بنیادی حق ہے اور حب الوطنی، نظریئے یا مذہب کی بنیاد پر اسے محدود نہیں کیا جا سکتا؟ کیا ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اختلاف رائے کی آزادی، اظہاررائے کے حق کے مساوی ہے؟ کیا ہمارے درمیان یہ اتفاق پایا جاتا ہے کہ کسی کے جذبات مجروح ہونے یا کسی مقتدر ادارے کی حرمت پر حرف آنے یا کسی مقدس نظریئے کی صداقت مشکوک ہونے کی بناء پر کسی فرد کو بات کرنے سے روکنے کا اختیار معاشرے اور ریاست کو نہیں دیا جاسکتا؟ کیا ہم اس بات پر کسی بھی طرح اتفاق کر سکتے ہیں کہ ہم کسی بھی قسم کی مسلط کردہ اخلاقیات، تصور قومیت یا مذہبی تشریح کو رد کرنے کا حق رکھتے ہیں؟ کیا ہم اس کے اہل ہیں کہ اپنی ویب سائٹ کےلیے صحافتی ضابطہ اخلاق خود وضع کرسکیں جو آزادی اظہار رائے کو یقینی بنانے کےلیے ہو نہ کہ اسے پابند بنانے کےلیے؟

مجھے لگتا ہے کہ اس اتفاق رائے کے بغیر ہم کبھی اپنی اس آزادی کا دفاع کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے اور بہت جلد پی ٹی اے اور سیکیورٹی اداروں کی جانب سے کسی نہ کسی ویب سائٹ کے مدیر کے لیپ ٹاپ اور مواد کی ضبطی کی خبریں سامنے آنے لگیں گی۔ جلد ہی ہمیں پتا چلے گا کہ کسی نہ کسی ویب سائٹ تک رسائی اس لیے منقطع کر دی گئی ہے کیوں کہ اس کا مواد ریاستی مفادات کے منافی ہے۔

آزادی اظہارِ رائے اور اختلافِ رائے کے حق کو تسلیم کرنا اور کرانا ہی اس آزادی کی بنیاد ہے، اور اس حق کا تحفظ کرنا ہماری مشترکہ ذمہ داری بھی ہے۔

جنید رضا

جنید رضا

سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اور پولیٹیکل انالسٹ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔