مصری فوج نے صدر مرسی کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا

ویب ڈیسک  بدھ 3 جولائی 2013
تحریر اسکوائر پر لاکھوں کی تعداد میں جمع مصری صدر کے مخالیفن کا جشن جاری۔ فوٹو: اے ایف پی

تحریر اسکوائر پر لاکھوں کی تعداد میں جمع مصری صدر کے مخالیفن کا جشن جاری۔ فوٹو: اے ایف پی

قاہرہ: مصر کی فوج نے صدر محمد مرسی کو برطرف کرکے آئین معطل کر دیا جب کہ اعلی حکومتی شخصیات اور اخوان المسلمین کی قیادت کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔

مصری فوج کےسربراہ جنرل عبدالفتح السیسی نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک کا آئین معطل کرکے اعلی حکومتی شخصیات کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام انتخابات کی تیاری کریں بہت جلد ملک میں نئے انتخابات کا اعلان کردیا جائے گا۔ انہوں نے مصر کے چیف جسٹس کو قائم مقام صدر بناتے ہوئے کہا کہ انتخابات تک چیف جسٹس تمام ملکی معاملات کو دیکھیں گے۔ آرمی چیف کا مزید کہنا تھا کہ وہ کافی عرصے سے ملک کی سیاسی جماعتوں کے درمیان مفاہمت کی کوشش کر رہے تھے تاہم ناکامی پر انہیں یہ قدم اٹھانا پڑا۔

قبل ازیں مصری صدر کی جانب سے مستعفی ہونے سے انکار کے بعد فوج نے محمد مرسی کو نظر بند کر دیا تھا اور سرکاری ٹی وی سمیت دارالحکومت میں اہم عمارات اور تنصیبات پر قبضہ کرلیا تھا۔ قاہرہ کے مشہور زمانہ تحریر اسکوائر پر اپوزیشن اور صدر کی پالیسیوں کے مخالفین لاکھوں کی تعداد میں جمع تھے جن کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا، اس کے علاوہ صدر اور ان کی جماعت اخوان المسلمین کے کارکن بھی کسی ممکنہ اقدام کے بعد مکمل لائحہ عمل کے ساتھ تیاریاں مکمل کرچکے ہیں۔

اخوان المسلمین کی جانب سے جاری کئے گئے بیان میں کہا گیا تھا کہ ان کی آزادی زندگی سے زیادہ قیمتی ہے اور اس کے لئے وہ کسی بھی قسم کی قربانی دینے کےلئے تیار ہیں، فوج کی جانب سے کسی بھی غیر جمہوری اقدام کی صورت میں عوام چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ صدر، فوج اور اپوزیشن کی جانب سے جاری ہونے والے بیانات کے بعد مصر کا مرکزی بینک غیر معینہ مدت کے لئے بند کردیا گیا ہے جبکہ کئی ممالک نے اپنے سفارتی عملے کو بھی واپس بلا لیا ہے۔

نظر بندی سے قبل مصری صدر نے ملک میں جمہوریت اور اپنے آئینی حق کے مرتے دم تک تحفظ کے عزم کا اظہار کیا تھا ، صدارتی ترجمان کی جانب سے ایک بیان بھی جاری کیا گیا تھا جس میں صدر مرسی کا کہنا تھا کہ وہ ملک کے آئینی سربراہ ہیں اور ملک کے عوام نے انہیں اس عہدے پر منتخب کیا ہے، فوج سیاسی بحران میں فریق نہ بنے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔